دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
امام کو لقمہ دینے کے لیے اللہ اکبر کہنا چاہیے؟ یا سبحان اللہ کہنا چاہیے؟ حدیث میں کس کا ذکر ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
امام سے نماز میں غلطی ہو جانے پر لقمہ دینے کا مقصد امام کو غلطی کی طرف متوجہ کرنا ہے اور اس کے لیے سبحان اللہ کہنا بہتر ہے، کیونکہ حدیث میں اس کا ذکر موجود ہے اور اللہ اکبر کہہ کر لقمہ دینا بھی جائز ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
من نابه شيء في صلاته فليسبح، فإنه إذا سبح التفت إليه
ترجمہ: جسےنماز میں کوئی معاملہ پیش آئے، تواسے چاہیے کہ سبحان اللہ کہے، کیونکہ جب وہ سبحان اللہ کہے گا، تو امام متوجہ ہو جائے گا۔ (صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 316، حدیث 421، دار إحياء التراث العربی، بيروت)
تاتارخانیہ میں ہے
المصلی اذا کبر بنیۃ ان یعلم غیرہ انہ فی الصلاۃ لا تفسد صلاتہ، و الاولی التسبیح لقولہ علیہ السلام: التسبیح للرجال والتصفیق للنساء
نمازی جب اس نیت سے تکبیر کہے کہ دوسرے شخص کو معلوم ہو جائے کہ وہ نماز میں ہے تو نماز فاسد نہیں ہوگی، مگر تسبیح بہتر ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مردوں کے لیے تسبیح ہےاورعورتوں کے لئے تصفیق (سیدھے ہاتھ کی انگلیاں الٹے ہاتھ کی پشت پرمارنا)۔ (تاتارخانیہ، جلد 2، صفحہ 220، مطبوعہ: کوئٹہ)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”مقتدی کو ایسے موقع پر جبکہ امام کو متوجہ کرنا ہو، سبحان اللہ یا اللہ اکبر کہنا، جائز ہے، جس سے امام کو خیال ہو جائے اور نماز کو درست کر لے۔“ (فتاوی امجدیہ، جلد 1، صفحہ 187، مکتبہ رضویہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4360
تاریخ اجراء: 29 ربیع الآخر 1447ھ / 23 اکتوبر 2025ء