دعائے قنوت مکمل نہ ہو اور امام رکوع میں چلا جائے تو حکم

مقتدی کے دعائے قنوت مکمل پڑھنے سے پہلے امام رکوع میں چلا جائے تو کیا حکم ہے؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:FAM-682

تاریخ اجراء:04 رمضان المبارک1446 ھ/05 مارچ 2025 ء

دار الافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں  کہ  رمضان المبارك  میں تراویح کے بعد وتر کی جماعت کروائی جاتی ہے۔ امام کے ساتھ وتر کی ادائیگی میں بعض اوقات دعائے قنوت ابھی مکمل نہیں پڑھی ہوتی کہ امام صاحب رکوع میں چلے جاتے ہیں، ایسے میں مقتدی کیلئے کیا حکم ہے؟ کیامقتدی  بقیہ دعائے قنوت چھوڑ کر امام کے ساتھ رکوع کرلے،یا پھر تشہد کی طرح دعائے قنوت پوری پڑھے اور پھر رکوع میں جائے؟ کیونکہ دعائے قنوت بھی تشہد کی طرح  واجب ہے۔ رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

   اگر امام وتر کی  نماز میں دعائے قنوت پڑھ کر رکوع میں چلا جائے  اور ابھی مقتدی نے مکمل دعائے قنوت نہ پڑھی ہو، تو مقتدی کو حکم ہے کہ وہ بھی امام کی پیروی کرتے ہوئے  رکوع میں چلا جائےاور  بقیہ دعائے قنوت کو چھوڑدے، جبکہ  تشہد  میں ایسا کرنا درست نہیں بلکہ اگر مقتدی نے تشہد نہ پڑھی ہو کہ امام تیسری رکعت کیلئے کھڑا ہوجائے یا  قعدہ اخیرہ  ہو تو اس کے بعد سلام پھیردے تو مقتدی بہرصورت اپنی تشہد مکمل کرے گا پھر کھڑا ہوگا یا آخری رکعت  ہونے کی صورت میں  سلام پھیرے گا۔

   دونوں مسئلوں میں فرق یہ ہے کہ اولاً   دعائے قنوت  کے واجب ہونے سے مراد وہ  خاص دعا نہیں ہے جو پڑھی جاتی ہے، بلکہ مطلق دعا مراد ہے۔ پھر جب مطلق دعا مراد ہے تو اس کا اطلاق تھوڑی اور زیادہ دعا  دونوں پر ہوگا، لہٰذا  اگر مقتدی   دعائے قنوت پڑھنا شروع کرے اور  اسے پورا  نہ کیا ہو کہ امام رکوع کرلے، تو ظاہر ہے کہ جتنی مقتدی نے دعائے قنوت پڑھی ہے، اس پر بھی دعا کا اطلاق ہوجائے گا، لہٰذا اُتنی مقدار سے بھی   واجب ادا  ہوجائے گا، ہاں دعائے قنوت کو  پورا کرنامستحب ہے، لیکن مستحب کی وجہ سے  امام کی پیروی جو کہ واجب ہےاس کو نہیں چھوڑا جاسکتا، لہذا بقیہ دعائے قنوت چھوڑ کر رکوع کرنا ہوگا۔ تشہد بھی اگرچہ واجب ہے لیکن اس   کا معاملہ دعائے قنوت جیسا نہیں ہے، کیونکہ تشہد مخصوص قسم کے  الفاظ ہیں اور اس مخصوص پورے حصے  پر ہی تشہد کا اطلاق ہوتا ہے، بعض تشہد، تشہد  ہی نہیں ہے، لہذا اس وجہ سے مقتدی کو حکم ہے  کہ وہ  پوری تشہد پڑھ کر ہی امام کی پیروی کرے تا کہ اس کا یہ واجب فوت نہ ہو۔

   تنویر الابصار مع درمختار میں ہے: ’’(ركع الإمام قبل فراغ المقتدي) من القنوت قطعه و (تابعه)‘‘ ترجمہ: امام نے مقتدی کے قنوت مکمل کرنے سے پہلے رکوع کرلیا تو مقتدی قنوت کو ترک کردے گااور امام کی پیروی کرے گا۔

   اس کے تحت علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ رد المحتار  میں  فرماتے ہیں: ’’(قوله قطعه و تابعه) لأن المراد بالقنوت هنا الدعاء الصادق على القليل والكثير، وما أتى به منه كاف في سقوط الواجب، وتكميله مندوب و المتابعة واجبة فيترك المندوب للواجب رحمتي‘‘ ترجمہ: (ان کا قول کہ وہ اسے ترک کردے گا اور امام کی پیروی کرے گا) کیونکہ یہاں قنوت سے مراد  دعا ہے جو تھوڑی اور  زیادہ دونوں پر صادق آتی ہے۔ توجو کچھ مقتدی قنوت میں پڑھ چکا ہے، وہ واجب کے ساقط ہونے  کے لیے کافی ہے، جبکہ دعائے قنوت کا مکمل کرنا مستحب ہے، اور امام کی پیروی (متابعت) واجب ہے۔ لہٰذا مستحب کو واجب کے لیے ترک کر دیا جائے گا۔ رحمتی۔(رد المحتار علی الدر المختار، جلد 2، صفحہ 540، دار المعرفۃ، بیروت)

   تشہد اور دعائے قنوت میں فرق یہ ہے کہ بعض تشہد ،تشہد ہی نہیں  ہے،جبکہ بعض قنوت بھی قنوت ہے،لہذا اس وجہ سے تشہد کو پورا کرکے امام کی پیروی کرنے کا حکم ہے اور دعائے قنوت میں ایسا نہیں ،چنانچہ اسی رد المحتار میں ہے: ’’و أما التشهد فإتمامه واجب لأن بعض التشهد ليس بتشهد فيتمه و إن فاتت المتابعة في القيام أو السلام لأنه عارضها واجب تأكد بالتلبس به قبلها فلا يفوته لأجلها و إن كانت واجبة. و قد صرح في الظهيرية بأن المقتدي يتم التشهد إذا قام الإمام إلى الثالثة و إن خاف أن تفوته معه، و إذا قلنا إن قراءة القنوت للمقتدي واجبة، فإن كان قرأ بعضه حصل المقصود به لأن بعض القنوت قنوت‘‘ ترجمہ: بہرحال تشہد، تو اس کا مکمل کرنا واجب ہے، کیونکہ بعض تشہد، تشہد نہیں، تو مقتدی اسے مکمل کرے گا، اگرچہ  اس کے سبب قیام یا سلام میں امام کی متابعت فوت ہو جائے کیونکہ اس کے مقابلے میں ایک ایسا واجب ہے جس کی تاکید اس سے پہلے اس میں مشغول ہونے کی وجہ سے ہو چکی ہے، اس لیے اسے امام کی متابعت کی خاطر ترک نہیں کیا جائے گا،اگرچہ متابعت واجب ہے۔ اور ظہیریہ میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ اگر امام تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے تو مقتدی تشہد مکمل کرے، اگرچہ اسے یہ اندیشہ ہو کہ اس کی وجہ سے  امام کے ساتھ متابعت فوت ہو جائے گی۔ اور اگر ہم یہ کہیں کہ مقتدی کے لیے قنوت پڑھنا واجب ہے، تو اگر اس نے اس کا کچھ حصہ پڑھ لیا ہو تو اسی سے  مقصود حاصل ہوجائے گا، کیونکہ قنوت کا کچھ حصہ بھی قنوت ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد 2، صفحہ 541، دار المعرفۃ، بیروت)

   بہار شریعت میں ہے: ’’قنوت وتر میں مقتدی امام کی متابعت (پیروی) کرے، اگر مقتدی قنوت سے فارغ نہ ہوا تھا کہ امام رکوع میں چلا گیا تو مقتدی بھی امام کا ساتھ دے۔‘‘(بھار شریعت، جلد 1، حصہ 4، صفحہ 656، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم