
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ کیا نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی حیاتِ مبارکہ کے کسی موقع پر بغیر عمامے کے صرف ٹوپی پہنی ہے یا نہیں؟نیزہماری مسجدکے امام صاحب بسا اوقات عمامے کے بغیر صرف ٹوپی پہن کر نماز پڑھا دیتے ہیں۔ اُن کایہ عمل درست ہے یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اپنی حیاتِ مبارکہ میں عمامہ کے بغیر صرف ٹوپی پہننا بھی ثابت ہے، حدیث وسیرت کی کتب میں نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مختلف طرز کی ٹوپیوں کا تذکرہ ملتا ہے، جیسے سفید کڑھائی والی یمنی اور کانوں والی ٹوپی وغیرہا، اِسی لیے فقہاءِ کرام نے بغیر عمامہ کے صرف ٹوپی پہننے کو بھی سنت قرار دیا، لیکن یاد رہے کہ عمامہ پہننا نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت دائمہ متواترہ ہے اور اس کے فضائل میں کثیر احادیثِ کریمہ وراد ہیں۔ بالخصوص عمامہ پہن کر نماز پڑھنے کے متعلق یہ فضیلت بیان کی گئی کہ ”عمامہ کے ساتھ دو رکعتیں، ایسی ستّر رکعتوں سے بہتر ہیں، جو بغیر عمامہ کے ہوں۔“
سوال کے دوسرے حصے کا جواب یہ ہے کہ امام صاحب کا عمامہ کے بغیر محض ٹوپی میں نماز پڑھا دینے میں شرعی اعتبار سے کوئی حرج نہیں اور نماز بلا کراہت درست ہوجائے گی، لیکن اگر ٹوپی پہن کر نماز پڑھانے پر مقتدی اعتراض کریں اور باتیں بنائیں، تو ایسی صورت حال میں یہی چاہیے کہ عمامہ پہن کر نماز پڑھائی جائے کہ مقتدیوں میں بھی اضطراب نہیں رہے گا، نیز عمامہ کے جملہ فضائل بھی حاصل ہو جائیں گے۔
نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بغیر عمامہ ٹوپی پہننے کے متعلق جامع الصغیر اور کنزالعمال میں حضرتِ عبداللہ ابن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی حدیثِ مبارک میں ہے:
”كان يلبس القلانس تحت العمائم وبغير العمائم، ويلبس العمائم بغير القلانس، وكان يلبس القلانس اليمانية وهن البيض المضربة ويلبس ذوات الآذان في الحرب“
ترجمہ: نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عمامہ شریف کے نیچے اور بغیر، دونوں طرح ٹوپی پہنتے تھے، یونہی بغیر ٹوپی کے عمامہ بھی باندھ لیتے تھے۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سفید کڑھائی والی یمنی ٹوپی پہنتے اور جنگ میں کانوں والی ٹوپی پہنتے تھے۔ (کنز العمال، جلد 7، کتاب الشمائل، صفحہ 121، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ )
ام المؤمنین حضرتِ عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے مروی ہے:
”أن النبي صلى اللہ عليه وسلم كان يلبس من القلانس في السفر ذوات الآذان، وفي الحضر المشمرة، يعني الشامية“
ترجمہ:نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سفر میں کانوں والی ٹوپیاں پہنا کرتے تھے اور حضر (یعنی حالتِ اقامت) میں شامی ٹوپی پہنتے۔(اخلاق النبی وآدابہ، جلد 2، ذکر قلنسوتہ صلی اللہ علیہ وسلم، صفحہ 209، مطبوعہ دار المسلم، الریاض )
مذکورہ روایت کی سند کی جُودت کے متعلق علامہ عبد الرؤف مُناوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1031ھ/1621ء) لکھتے ہیں:
”قال الحافظ العراقي في شرح الترمذي: وأجود إسناد في القلانس ما رواه أبو الشيخ عن عائشة“
ترجمہ:حافظ عراقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ترمذی شریف کی شرح میں لکھا: اور ٹوپیوں کے متعلق روایات میں سب سے عمدہ سند والی روایت وہ ہے، جسے ابو الشیخ نے حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت کیا۔ (فیض القدیر، جلد 5، صفحہ 246، مطبوعہ دار المعرفہ، بیروت )
مفتی محمد نور اللہ نعیمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1403ھ/1982ء) لکھتے ہیں: ”بہرحال محبوبِ مکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اکیلی ٹوپی کا پہننا بھی یقیناً ثابت ہے۔“ (فتاویٰ نوریہ، جلد1، صفحہ504، مطبوعہ دارالعلوم حنفیہ فریدیہ، بصیر پور)
صرف ٹوپی پہننا بھی سنت ہے، جیسا کہ علامہ عبد الرؤوف مناوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1031ھ/1621ء) لکھتے ہیں:
”قال ابن العربي:القلنسوة من لباس الأنبياء والصالحين والسالكين تصون الرأس وتمكن العمامة وهي من السنة“
ترجمہ:حضرت ابن عربی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا: ٹوپی انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَلٰوۃُ وَالسَّلام، صالحین اور سالکین رَحِمَہُمُ اللہ تَعَالٰی کے لباس میں سے ہے۔یہ سر کی حفاظت کرتی اور عمامہ کو سر پر روکتی ہے اور ٹوپی پہننا سنت ہے۔ (فیض القدیر، جلد 5، صفحہ 247، مطبوعہ دار المعرفہ، بیروت )
لیکن عمامے کی فضیلت ٹوپی سے بڑھ کر ہے، چنانچہ عمامہ پہن کر نماز پڑھنے کے متعلق زہر الفردوس، مسند الفردوس اور جامع الصغیر میں ہے،
و اللفظ للاول:”عن جابر رضي اللہ عنه قال:قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: ركعتان بعمامة خير من سبعين ركعة بغير عمامة“
ترجمہ:حضرتِ جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: عمامہ کے ساتھ دو رکعتیں، ایسی ستّر رکعتوں سے بہتر ہیں، جو بغیر عمامہ کے ہوں۔ (زھر الفردوس، جلد 4، صفحہ 627، مطبوعہ دار البر، دبی )
عمامہ نبی اکرم ﷺ کی سنتِ دائمہ متواترہ ہے۔ امامِ اہلِ سُنَّت، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں: ”عمامہ حضور پُر نور سید عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت متواترہ ہے، جس کا تواتر یقیناً سر حدِ ضروریاتِ دین تک پہنچا ہے۔۔۔عمامہ کہ سنت لازمہ دائمہ ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد6،صفحہ208، 209،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
ٹوپی پہن کر نماز پڑھانے کے متعلق ابو الحسنات علامہ عبدالحی لکھنوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1304ھ/1886ء) لکھتے ہیں:
”قد ذكروا أن المستحب أن يصلي في قميص وإزار وعمامة، ولا يكره الاكتفاء بالقلنسوة، ولا عبرة لما اشتهر بين العوام من كراهة ذلك، وكذا ما اشتهر أن المؤتم لو كان معتما العمامة، والامام مكتفيا على قلنسوة يكره“
ترجمہ:فقہائے کرام نے ذکر کیا ہے کہ نمازی کے لیے مستحب ہے کہ وہ قمیض، تہبند اور عمامہ پہن کر نماز پڑھے اور محض ٹوپی پر اکتفاء کرنا مکروہ نہیں اور اس کا کوئی اعتبار نہیں، جو عوام میں مشہور ہے کہ محض ٹوپی پہن کر نماز پڑھنا مکروہ ہے، یونہی جو مشہور ہے کہ اگر مقتدی عمامہ پہنے ہوئے ہو اور امام نے صرف ٹوپی پہنی ہو، تو یہ مکروہ ہے(یہ بھی درست نہیں)۔ (عمدۃ الرعایۃ علی شرح الوقایۃ، جلد 2، صفحہ 202، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت )
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں: ”صرف ٹوپی پہن کر امامت کرنا نہ حرام ہے نہ مکروہِ تحریمی نہ مکروہِ تنزیہی، البتہ ٹوپی پر عمامہ باندھنا زیادہ ثواب ہے اور جو نماز عمامہ کے ساتھ پڑھی جائے وہ اس نماز سے افضل ہے جو بغیر عمامہ پڑھی گئی اور اس حکم میں امام و مقتدی دونوں کا ایک حکم ہے،امام کے لئے عمامہ کی خصوصیت نہیں، نہ یہ کہ امام کے لئے زیادہ تاکید ہو مقتدیوں کے لئے کم۔“ (فتاوٰی امجدیہ، جلد1،صفحہ198،مطبوعہ مکتبہ رضویہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب : مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر : FSD-9444
تاریخ اجراء : 17 صفر المظفر1447ھ/ 12 اگست 2025ء