نماز میں اشارے سے جواب دینا کیسا؟

نماز میں اشارے سے جواب دینے کا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نماز پڑھ رہا تھا، تو زید سے کسی نے پوچھا کھانا کھا لیا ہے؟ تو زید نے نماز میں ہوتے ہوئے سر ہلا کر اشارے سے نہیں یا ہاں میں جواب دیا۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس طرح زید کی نماز ٹوٹ جائے گی؟ شرعی رہنمائی فرما دیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت کے مطابق نماز نہیں ٹوٹے گی البتہ زید کا ایسا کرنا مکروہ تنزیہی یعنی ناپسندیدہ عمل ہے۔ اس کی نظیر وہ مسئلہ ہے کہ جس میں فقہائے کرام نے یہ بیان کیا ہے کہ نمازی کو کسی نے سلام کیا تو نمازی کے زبان ہلائے بغیر، سر یا ہاتھ کے اشارے سے جواب دینے سے نماز فاسد نہیں ہوتی البتہ ایسا کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔

اسی طرح اس مسئلہ کی نظیر وہ مسئلہ بھی ہے جس میں فقہائے کرام نے فرمایا کہ نمازی کا نماز میں ایسا فعل کرنا جس سے نماز کے خشوع و خضوع میں خلل آئے، تو ایسا کام بلا وجہ کرنا مکروہ تنزیہی ہے، جیسا کہ نماز میں اِدھر اُدھر دیکھنا، یہ مکروہ تنزیہی ہے کیونکہ اس سے نماز کے خشوع و خضوع میں خلل آتا ہے۔

نمازی کے کسی کو اشارہ کر کے جواب دینے سے متعلق غنیۃ المستملی مع منیۃ المصلی میں ہے:

(طلب منہ شی فاومی) براسہ او عینیہ و حاجبیہ ای قال نعم او لا فان صلاتہ (لا تفسد)

ترجمہ: نمازی سے کوئی چیز طلب کی گئی اور نمازی نے سر، آنکھوں یا پلکوں کے اشارے سے اس کا ہاں یا نہ میں جواب دیا، تو اس کی نماز فاسد نہیں ہو گی۔ (غنیۃ المستملی مع منیۃ المصلی، صفحہ 445، مطبوعہ لاہور)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

لو اشار يريد به رد السلام او طلب من المصلی شيئا فاشار بيده او براسه بنعم او بلا لا تفسد صلاته هكذا فی التبيين ويكره كذا فی شرح منية المصلی لابن امير الحاج

ترجمہ: اگر نمازی نے سلام کا جواب اشارے سے دیا یا کسی نے نمازی سے کوئی چیز طلب کی اور نمازی نے اپنے ہاتھ یا سر سے ہاں یا نہ کا اشارہ کیا، تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی، یونہی تبیین میں ہے، لیکن ایسا کرنا مکروہ ہے جیسا کہ ابن امیر الحاج کی شرح منیۃ المصلی میں ہے۔ (فتاوی ہندیہ، جلد 1، صفحہ 98، مطبوعہ کوئٹہ)

امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”کوئی شخص نمازی کو سلام کرے یا نمازی سر یا ہاتھ کے اشارے سے جواب دے دے یا کوئی کچھ مانگے، یہ ہاں یا نہ کا اشارہ کردے، یا کوئی پوچھے کَے رکعتیں ہوئیں، یہ انگلیوں کے اشارہ سے بتادے یا کوئی روپیہ دکھا کر کھوٹا کھرا پوچھے یہ ایما سے جواب دے دے، تو یہ سب صورتیں اگر چہ مکروہ ہیں، مگر حرام و مفسدِ نماز نہیں۔ (فتاوی رضویہ، جلد 8، صفحہ 332، مطبوعہ رضا فاونڈیشن، لاہور)

سر یا ہاتھ کے اشارے سےسلام کا جواب دینا مکروہ ہے جیسا کہ تنویر الابصار مع درِ مختار کے مکروہاتِ نماز میں ہے: ”(رد السلام بیدہ)او براسہ“ترجمہ: سلام کا جواب ہاتھ یا سر سے دینا (مکروہ ہے) (تنویر الابصار مع درِ مختار، جلد 2، صفحہ 497، مطبوعہ کوئٹہ)

مذکورہ عبارت کے تحت علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

ان الکراھۃ فیہ تنزیہ

ترجمہ: اس میں کراہت تنزیہی ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد 2، صفحہ 497، مطبوعہ کوئٹہ)

نمازی کے کسی کو اشارے سے جواب دینے کےمتعلق درِ مختار میں ہے:

لاباس بتکلم المصلی واجابتہ براسہ کما لو طلب منہ شیئ اواری درھما قیل اجید؟ فا وما بنعم اولا، اوقیل کم صلیتم فاشاربیدہ انھم صلوا رکعتین

 ترجمہ: نمازی کے سر کے اشارے سے کلام کرنے یا جواب دینے میں حرج نہیں جیسے کسی نے کوئی چیز طلب کی یا درہم دکھایا اور کہا گیا یہ عمدہ ہے؟ تو اشارے سے ہاں یا نہ کہہ دیا۔ یا کہا گیا تم نے کتنی رکعتیں پڑھ لی ہیں تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے جواب دیا کہ دو رکعتیں ادا کی ہیں۔ (درِ مختار مع رد المحتار، جلد 2، صفحہ 497، مطبوعہ کوئٹہ)

حاشیۃ الطحطاوی علی الدر میں ہے:

التعبیر بلا باس یقتضی ان الاولی عدمہ

ترجمہ: لا باس کے ساتھ تعبیر کرنا، اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ یہ نہ کرنا، اولی ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، جلد 2، صفحہ 363، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

بہارِ شریعت کے مکروہاتِ تنزیہی کے بیان میں ہے:”ہاتھ یا سر کے اشارے سے سلام کا جواب دینا، مکروہ ہے۔ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 632، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

ایک حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئے عمدۃ القاری میں علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

و المعنى أن المصلي إذا التفت يمينا أو شمالا يظفر به الشيطان في ذلك الوقت ويشغله عن العبادة فربما يسهو أو يغلط لعدم حضور قلبه باشتغاله بغير المقصود ولما كان هذا الفعل غير مرضي عنه نسب إلى الشيطان و عن هذا قالت العلماء بكراهة الالتفات في الصلاة... أن الاجماع على أن الكراهية فيه للتنزيه

 ترجمہ معنیٰ یہ ہے کہ نمازی جب دائیں بائیں متوجہ ہوتا ہے، تو شیطان اس وقت كامياب ہو جاتا ہے اور بندے کی توجہ کو عبادت سے پھیر دیتا ہے اور اس سبب سے بندہ بعض اوقات بھول جاتا ہے یا دل کے غیر مقصود کام میں مشغول ہونے کے سبب غلطی کر جاتا ہے اور جب یہ کام ناپسندیدہ ہے، تو اس کو شیطان کی طرف منسوب کر دیا گیا، اسی وجہ سے علمائے کرام فرماتے ہیں نماز میں دائیں بائیں متوجہ ہونا، مکروہ ہے اور اس بات پر علماکا اتفاق ہے کہ مکروہ سے مراد مکروہِ تنزیہی ہے۔ (عمدۃ القاری، جلد 5، صفحہ310، مطبوعہ دار إحياء التراث العربي، بیروت)

علامہ حسن بن عمار شرنبلالی حنفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ مراقی الفلاح شرح نور الایضاح میں فرماتے ہیں:

و تكره بحضرة كل ما يشغل البال كزينة و بحضرة ما يخل بالخشوع كلهو ولعب

ترجمہ: ہر وہ چیز جو توجہ ہٹا دے جیسے زینت اور جو چیز خشوع و خضوع میں خلل ڈالے جیسے لہو ولعب ،اس کی موجودگی میں نماز مکروہ ہوگی۔ (مراقی الفلاح شرح نور الایضاح، صفحہ 131، المكتبة العصرية)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی ابومحمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Gul-3242

تاریخ اجراء: 10صفر المظفر1446 ھ/16 اگست 2024ء