
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
اگر فجر کی نماز پڑھ کے سو گئے ہیں، جب اٹھے ہیں تو اشراق و چاشت کا ٹائم ہے تو کیا اس وقت اشراق و چاشت کی نماز پڑھ سکتے ہیں؟ یا ان دونوں نمازوں کے لیے فجر کے بعد سونا نہیں ہوتا اور اگر سو گئے تو نماز نہیں پڑھ سکتے ہیں، جیسے تہجد کے لیے سونا ضروری ہے تو یہاں جاگتے رہناتوضروری نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
فجر کی نماز پڑھ کر اشراق و چاشت کی نماز کے لیے جاگتے رہنا ہی ضروری نہیں ہے، لہذا اگر کوئی فجر کی نماز پڑھ کر سو گیا اور اٹھنے کے بعد اشراق و چاشت کا وقت ابھی باقی ہے تو اس وقت میں بھی اشراق و چاشت پڑھ سکتا ہے، البتہ! افضل یہی ہے کہ فجر کی نماز کے بعد ذکر و اذکار میں مشغول رہیں، یہاں تک کہ اشراق کا ٹائم ہوجائے اور پھر اشراق پڑھیں۔ اور چاشت کی نماز کے لیے افضل وقت یہ ہے کہ چوتھائی دن چڑھے پڑھے، لہذا چاہیں تو اشراق پڑھ کر سو جائیں اور چوتھائی دن چڑھے چاشت پڑھ لیں۔
معجم اوسط میں حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے، حضور پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”من صلى الصبح، ثم جلس في مجلسه حتى تمكنه الصلاة، كانت بمنزلة عمرة وحجة متقبلتين“
ترجمہ: جس نے نمازِ فجر پڑھی، پھر اپنی جگہ پر بیٹھا رہا، یہاں تک کہ نماز کا وقت آگیا تو وہ نماز اس کے لیے مقبول حج و عمرہ کے برابر ہوگی۔ (المعجم الاوسط، جلد5، صفحہ375، حدیث: 5602، دار الحرمین، القاھرۃ)
مبسوطِ سرخسی میں ہے
”المكث في مكان الصلاة حتى تطلع الشمس مندوب إليه قال صلى اللہ عليه وسلم: من صلى الفجر ومكث حتى تطلع الشمس فكأنما أعتق أربع رقاب من ولد إسماعيل“
ترجمہ: سورج طلوع ہو جانے تک نماز کی جگہ ٹھہرے رہنا مستحب و مندوب ہے، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے نمازِ فجر پڑھی اور وہ طلوع آفتاب تک ٹھہرا رہا، تو گویا اس نے اولاد اسماعیل میں سے چار غلاموں کو آزاد کیا۔ (المبسوط للسرخسی، باب مواقیت الصلوٰۃ، جلد1، صفحہ146، دار المعرفہ، بیروت)
در مختار و حاشیۃ طحطاوی میں ہے:
(واللفظ فی الھلالین للدر) ”(وقتھا المختار )ای الافضل (بعد ربع النھار)“
یعنی چاشت کی نماز کا مختار یعنی افضل وقت چوتھائی دن کے بعد کا وقت ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، جلد1، صفحہ 287، مطبوعہ: کوئٹہ)
چاشت کی نماز کا وقت بیان کرتے ہوئے صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”اس کا وقت آفتاب بلند ہونے سے زوال یعنی نصف النہار شرعی تک ہے اور بہتر یہ ہے کہ چوتھائی دن چڑھے پڑھے۔“ (بہارِ شریعت، جلد1، حصہ 04، صفحہ 676، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
نوٹ:۔ اشراق وچاشت کی نماز کے متعلق تفصلی معلومات کے لیے دار الافتاء اہلسنت سے جاری شدہ فتوی بنام "اشراق و چاشت کی فضیلت کیا ہے اور یہ کس کو حاصل ہوگی" کا مطالعہ مفید ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4310
تاریخ اجراء: 14ربیع الثانی1447 ھ/08اکتوبر2025 ء