
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی خاتون کو کمر کے مہروں میں درد کی وجہ سے ڈاکٹر جھکنے سے منع کر رہے ہوں کہ اس سے بیماری بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ کمر کا درد بھی کئی سال پرانا ہے اور اس میں زیادتی ہو رہی ہے۔ خود ان کا بھی یہ تجربہ ہو کہ اگر جھکا نہ جائے تو کمر درد میں افاقہ ہوتا ہے، اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ کیا اس صورت میں ان کو نمازوں میں بغیر جھکے یعنی رکوع اور سجدہ سر کے اشارے سے کرنے کی اجازت مل سکتی ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اصول یہ ہے کہ جو شخص حقیقی سجدے پر قادر ہو اس کیلئے حقیقی سجدہ کرنا فرض ہے، سجدے کا اشارہ کافی نہیں۔ یونہی جو شخص حقیقی رکوع پر قادر ہو اس کیلئے حقیقی رکوع کرنا فرض ہے، رکوع کا اشارہ کافی نہیں۔ حقیقی سجدے کی دو صورتیں ہیں: ایک یہی کہ اصل زمین پر سجدہ کرنے کی قدرت ہو تو زمین پر سجدہ کرنا فرض ہے۔ دوسرا یہ کہ زمین سے 12 انگل (یعنی 9 انچ) تک کوئی اونچی سخت چیز رکھ کر اس پر سجدہ کرسکتا ہو، تو اس چیز پر سجدہ کرنا فرض ہے اور یہ بھی حقیقی سجدہ ہی ہے، سجدے کا اشارہ نہیں۔
حقیقی رکوع کی بھی مختلف نوعیتیں ہیں: ایسا مریض جو سر کے اشارے سے ہی نماز پڑھنے پر قادر ہو،تو ظاہر ہے کہ اس کیلئے سر کا اشارہ ہی حقیقی رکوع ہے۔ جبکہ جو شخص کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہا ہو، اس کیلئے حقیقی رکوع کا ادنی یعنی کم سے کم درجہ یہ ہے کہ وہ اتنا جھکے کہ ہاتھ بڑھائے تو گھٹنوں کو پہنچ جائیں، اور کامل درجہ ہے کہ پیٹھ سیدھی ہوجائے، اور یہ بھی مرد کیلئے ہے، ورنہ عورت کو یہی حکم ہے کہ رکوع میں پیٹھ سیدھی نہ کرے۔ اور جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھ رہا ہو، اس کے حق میں حقیقی رکوع کا ادنی درجہ یہ ہے کہ سر کے ساتھ کمر کا معمولی جھکنا بھی پایا جائے اور پیشانی گھٹنوں کے مُقابل یعنی سیدھ میں نہ آئے جبکہ بیٹھ کر نماز پڑھنے میں کامل رکوع یہ ہے کہ سر اور کمر کو اتنا جھکائے کہ پیشانی بھی گھٹنوں کے مقابل یعنی سیدھ میں آجائے۔
یہ تفصیل بہت اہم ہے جو یہاں اور اس کے علاوہ کئی مواقع پر مفید ثابت ہوگی۔ اب ہم یہاں اسی تفصیل کی روشنی میں صورتِ مسئولہ کا جواب بیان کئے دیتے ہیں جو کہ دو صورتوں پر مشتمل ہے:
(1) اگر کمر کے مہرے کا مریض زمین پر براہ راست جھک کر سجدہ نہ کرسکتا ہو، لیکن زمین پر بارہ انگل (9 انچ) اونچی سخت چیز رکھ کر سجدہ کرسکتا ہواوراتنے جھکنے سے مطلقاً تکلیف نہ ہو، یا قابل برداشت تکلیف ہواور اس سے تکلیف کے بڑھ جانے، یا دیر سے صحیح ہونے ،یا مہروں کے خراب ہونے کا بھی کوئی صحیح اندیشہ نہ ہو، تو ایسی صورت میں مریض کو زمین پر رکھی بارہ انگل اونچی سخت چیز پر جھک کر سجدہ کرنا فرض ہوگا، اور زمین یا کرسی پر بیٹھ کر صرف سر کے اشارے سے سجدہ کرنے سے سجدہ نہیں ہوگا اور نماز بھی نہیں ہوگی۔ اس صورت میں حقیقی سجدے پر قدرت ہونے کی وجہ سے فرض قیام ساقط نہیں ہوگا، لہذا جن نمازوں میں قیام فرض ہے یعنی فرض، واجب اور سنت فجر، ان میں قیام پر قدرت ہوتے ہوئے قیام بھی فرض ہو گا، ان نمازوں میں اگر بیٹھ کرنماز پڑھی، تو نماز نہیں ہوگی۔
پھر جب یہاں سجد ے پر قدرت پائی جائے گی تو حقیقی رکوع پربھی بدرجہ اولی قدرت پائی جائے گی، البتہ حقیقی رکوع کی نوعیت میں کھڑے اور بیٹھ کر نماز ادا کرنے کے اعتبار سے فرق ہوگا۔ جن نمازوں میں قیام فرض ہے، ان میں حقیقی رکوع کیلئے کم از کم اتنا جھکنا ہوگا کہ ہاتھ بڑھائے تو گھٹنوں تک پہنچ جائیں، اس سے رکوع ہوجائے گا اگرچہ پیٹھ سیدھی نہ ہوبلکہ عورت کیلئے تو یہی حکم ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ اور جن نمازوں میں قیام فرض نہیں ان میں اگر بیٹھ کر نماز پڑھے تو صرف سر کے ساتھ کمر کے معمولی جھکانے سے بھی حقیقی رکوع ہوجائے گا، اگرچہ کامل رکوع یہ ہے کہ پیشانی بھی گھٹوں کے برابر آجائے۔
(2) اگر کمر کے مہرے کا مریض اتنا بھی نہ جھک سکتا ہو کہ وہ زمین پر بارہ انگل (9 انچ) اونچی سخت چیز رکھ پر اس پر سجدہ کرسکے کہ اس طرح سجدہ کرنے سے اُسے ناقابل برداشت تکلیف ہو تی ہو، یا تکلیف تو اتنی شدید نہ ہو مگر تکلیف کے مزید بڑھ جانے، یا دیر سے صحیح ہونے، یا مہروں کے خراب ہوجانے کا غالب گمان ہو تو اس صورت میں حقیقی سجدہ ساقط ہوجائے گا اور حقیقی سجدے پر قدرت نہ ہونے کے سبب فرض قیام بھی ساقط ہوجائے گا، لہذا اب زمین یا کرسی پر بیٹھ کر سجدے کیلئے اشارہ کرکے نماز ادا کرنے کی رخصت ہوگی لیکن چونکہ بیٹھ کر رکوع کیلئے صرف اتنا جھکنا بھی کافی ہوتا ہے کہ سر کے ساتھ کمر بھی تھوڑی سی جھک جائے۔ اور عام طور پر ایسا مریض بھی اتنا تو جھک ہی سکتا ہے اور اس سے کوئی نقصان کا اندیشہ بھی نہیں ہوتا، لہذا اس صورت میں بھی کم از کم حقیقی رکوع کا ادنی درجہ یعنی سر کے ساتھ کمر کو بھی معمولی جھکانا ضروری ہوگا، صرف سر کے اشارے سے رکوع نہیں ہوگا۔ البتہ اس صورت میں یہ خیال رکھنا ہوگا کہ رکوع کیلئے جتنا بھی جھکے، سجدے کے اشارے میں سر کو اس سے زیادہ جھکائے، اگر سجدے کے لیے سر زیادہ نہ جھکایا، تو سجدہ نہ ہوگا اور نماز بھی نہیں ہوگی۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ پہلی صورت میں تو ایسے مریض کی نماز، حقیقی رکوع اور حقیقی سجدے کے ساتھ ہی ادا ہوگی، جبکہ دوسری صورت میں حقیقی رکوع اور سجدے کے اشارے سے نماز ادا کرنا کہلائے گی۔
کھڑے ہو کر نماز پڑھنے میں حقیقی رکوع کا ادنی درجہ یہ ہے کہ ہاتھ بڑھائے تو گھٹنوں کو پہنچ جائیں، چنانچہ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:
قوله: "و هو الإنحناء بالظهر و الرأس جميعا" هذا معناه الشرعي و معناه لغة مطلق الإنحناء و الميل يقال ركعت النخلة إذا مالت و أدناه شرعا إنحناء الظهر بحيث لو مد يديه ينال ركبتيه و في البدائع روى الحسن عن أبي حنيفة فيمن لم يقم أي يعدل صلبه في الركوع إن كان إلى القيام أقرب من تمام الركوع لم يجزه و إن كان أقرب إلى تمام الركوع من القيام أجزأه إقامة للأكثر مقام الكل اهـ و مثله في السراج عن الكرخي قال المحقق ابن أمير حاج و ذلك لأن الركوع إنحناء الظهر كما تقدم و إذا وجد بعض الإنحناء دون البعض ترجح الأكثر وصارت العبرة له اهـ و إنما يكون إلى تمام الركوع أقرب إذا كان بحيث تنال يداه ركبتيه و تمامه هو أن يبسط ظهره و يساوي رأسه بعجزه
ترجمہ: اور مصنف کا قول کہ ’’رکوع کمر اور سر دونوں کے جھکاؤ کا نام ہے‘‘تو یہ اس کا شرعی مطلب ہے، اور لغوی معنی مطلق جھکاؤ اور مائل ہونا ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے: کھجور کا درخت جھک گیا،جب وہ ڈھلک جائے۔ اور شرعی طور پر رکوع کی کم از کم حد یہ ہے کہ آدمی اپنی کمر کو اتنا جھکائے کہ اگر وہ اپنے ہاتھ بڑھائے تو اس کے ہاتھ گھٹنوں تک پہنچ جائیں۔ اور بدائع الصنائع میں حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ اگر کسی نے رکوع میں کمر کو سیدھا نہ کیا (یعنی مکمل رکوع نہ کیا)، تو اگر اس کی حالت بہ نسبت مکمل رکوع کے، قیام کے زیادہ قریب ہے ، تو اس کا رکوع درست نہ ہوگا، اور اگر وہ بہ نسبت قیام کے، مکمل رکوع سے زیادہ قریب ہے ، تو اس کا رکوع درست ہو جائے گا، کیونکہ اکثر کو کُل کے قائم مقام سمجھا جاتا ہے۔ سراج میں بھی امام کرخی علیہ الرحمۃ سے اسی طرح نقل کیا ہے۔محقق ابن امیر حاج علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: رکوع، کمر کے جھکاؤ کا نام ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا ۔ اگر کچھ جھکاؤ پایا گیا ہو لیکن مکمل نہ ہو، تو دیکھا جائے گا کہ جھکاؤ زیادہ کس طرف ہے، اور اسی کو بنیاد بنایا جائے گا۔اور آدمی کی حالت اُس وقت مکمل رکوع سے زیادہ قریب ہوگی جب اس کا جھکاؤ اس حد تک ہو جائے کہ ہاتھ گھٹنوں تک پہنچ جائیں۔ رکوع کی مکمل حالت یہ ہے کہ آدمی اپنی کمر کو سیدھا کرے اور اس کا سر اس کی پشت کے برابر ہو جائے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، صفحہ 229، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
در مختار مع حاشیۃ الطحطاوی میں ہے:
(و منھا الرکوع بحیث لو مد یدیہ نال رکبتیہ) ثم ھذا فی الرکوع قائما، و ان رکع جالسا ینبغی أن یحاذی بجبھتہ رکبتیہ ابو السعود
ترجمہ: نماز کے فرائض میں سے ایک فرض رکوع ہے، اس طرح کہ اگر وہ اپنے ہاتھ بڑھائے تو گھٹنوں تک پہنچ جائیں، اور یہ حکم اس وقت ہے جب آدمی کھڑے ہو کر رکوع کر رہا ہو۔ اور اگر وہ بیٹھ کر رکوع کرے، تو چاہیے کہ اس کی پیشانی اس کے گھٹنوں کے برابر ہوجائے۔ابو السعود۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، جلد 2، صفحہ 121، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
عورت رکوع میں پیٹھ سیدھی نہیں کرے گی، بلکہ صرف اتنا جھکے گی کہ ہاتھ گھٹنوں کو پہنچ جائیں، چنانچہ رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:
و أما المرأة فتنحني في الركوع يسيرا۔۔۔ لأن ذلك أستر لها
ترجمہ: بہرحال عورت، تو وہ رکوع میں تھوڑا سا جھکے گی۔۔۔ کیونکہ یہ طریقہ اس کے لیے زیادہ پردے والا ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد 2، صفحہ 241،دار المعرفۃ، بیروت)
بہار شریعت میں ہے: ’’عورت رکوع میں تھوڑا جھکے یعنی صرف اس قدر کہ ہاتھ گھٹنوں تک پہنچ جائیں، پیٹھ سیدھی نہ کرے‘‘۔ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 526،مکتبۃ المدینہ، کراچی)
بیٹھ کر نماز پڑھے تو حقیقی رکوع، سر کے جھکاؤ كے ساتھ کمر کے جھکانے کا نام ہے، چنانچہ منیۃ المصلی مع غنیۃ المتملی میں ہے:
(الرکوع و ھو طأطأۃ الرأس)أی خفضہ لکن مع انحناء الظھر لانہ ھو المفھوم من موضوع اللغۃ فیصدق علیہ قولہ تعالی (ارکعو)
ترجمہ:رکوع تو وہ سر کو جھکانا ہے، لیکن کمر کے جھکاؤ کے ساتھ، کیونکہ لغت کی وضع سے یہی سمجھا گیا ہے، لہذا اسی پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان صادق آتا ہے:"ارکعوا" (یعنی رکوع کرو)۔ (منیۃ المصلی مع غنیۃ المتملی، صفحہ 244، مطبوعہ کوئٹہ)
بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کا رکوع کیلئے صرف سر کو جھکانا محض اشارہ ہے، حقیقی رکوع نہیں، البتہ کمر کے جھکانے کے ساتھ رکوع کرے تو یہ حقیقی اور معتبر رکوع ہے، چنانچہ رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:
إن كان ركوعه بمجرد إيماء الرأس من غير انحناء وميل الظهر فهذا إيماء لا ركوع فلا يعتبر السجود بعد الإيماء مطلقا وإن كان مع الانحناء كان ركوعا معتبرا حتى إنه يصح من المتطوع القادرعلى القيام
ترجمہ: اگر کسی کا رکوع کمر کے جھکائے بغیر صرف سر کے اشارے سے ہو، تو یہ محض اشارہ ہے،حقیقی رکوع نہیں، لہٰذا شارے کے بعد کیا جانے والا سجدہ کسی بھی حال میں معتبر نہیں ہوگا اور اگر رکوع کمر کے جھکاؤ کے ساتھ ہو، تو وہ معتبر رکوع ہوگا، یہاں تک کہ اس نفل نماز پڑھنے والے سے بھی درست ہوگا جو قیام پر قدرت رکھتا ہو(لیکن بیٹھ کر نفل نماز پڑھ رہا ہو)۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد 2، صفحہ 686، دار المعرفۃ، بیروت)
جو کمر کے جھکانے پر قدرت کے باوجود صرف سر کے اشارے سے رکوع کرے گا، اس کا فرض ادا نہیں ہوگا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو مریض ایسا ہو کہ صرف سر کے اشارے سے ہی نماز پڑھنے پر قادر ہو، صرف اس کیلئے سر سے اشارہ کرنا حقیقی رکوع ہے، باقیوں کیلئے نہیں، چنانچہ حلبۃ المجلی شرح منیۃ المصلی میں ہے:
و فی الحاوی:و فرض الرکوع انحناء الظھر۔ و مقتضی ھذا انہ اذا طأطأ راسہ و لم یحن ظھرہ اصلا مع قدرتہ علیہ لا یخرج عن عھدۃ فرض الرکوع
ترجمہ: اور حاوی میں ہے: فرض رکوع تو وہ کمر کا جھکانا ہے، اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کسی نے صرف سر کو جھکایا اور کمر بالکل نہیں جھکائی، باوجود اس پر قدرت کے، تو وہ رکوع کے فرض کی ادائیگی سے بری نہیں ہوگا (یعنی اس کا رکوع کا فرض ادا نہ ہوگا)۔ (حلبۃ المجلی شرح منیۃ المصلی، جلد 2، صفحہ 58،دار الکتب العلمیہ، بیروت)
بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کیلئے کامل رکوع یہ ہے کہ وہ اتنا جھکے کہ پیشانی گھٹنوں کے برابر آجائے، چنانچہ رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:
و في حاشية الفتال عن البرجندي: و لو كان يصلي قاعدا ينبغي أن يحاذي جبهته قدام ركبتيه ليحصل الركوع، قلت: و لعله محمول على تمام الركوع، و إلا فقد علمت حصوله بأصل طأطأة الرأس أي مع انحناء الظهر
ترجمہ: اور حاشیہ فتال میں برجندی سے ہے کہ اگر نمازی بیٹھ کر نماز پڑھ رہا ہو تو چاہیے کہ اس کی پیشانی اس کے گھٹنوں کے برابر ہو جائے تاکہ رکوع حاصل ہو جائے۔ میں(علامہ شامی یہاں ) کہتا ہوں کہ ممکن ہے یہ بات مکمل رکوع پر محمول ہو ورنہ تم جان چکے ہو کہ رکوع، اصل میں سر کو کمر کے جھکانے کے ساتھ حاصل ہو جاتا ہے۔ (رد المحتار علی الدرالمختار، جلد 2، صفحہ 167، دار المعرفۃ، بیروت)
سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’رکوع میں قدر واجب تو اسی قدر ہے کہ سرجھکا ئے اور پیٹھ کو قدرے خم د ے مگر بیٹھ کر نما ز پڑھے تو اس کا درجہ کمال و طریقہ اعتدال یہ ہے کہ پیشانی جھک کر گھٹنوں کے مقابل آجائے‘‘۔ (فتاوی رضویہ، جلد 6، صفحہ 157، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
زمین سے بارہ انگل (9 انچ) بلند چیز پر سجدہ کرسکتا ہو،تو یہ حقیقی سجدہ ہے، لہذا اس پر قدرت ہوئے اس چیز پر سجدہ کرنا ہی لازم ہوگا، سجدے کیلئے اشارہ کرنے سے سجدہ نہیں ہوگا اور نماز نہیں ہوگی، چنانچہ رد المحتار علی الدرالمختار میں ہے:
’’إن كان الموضوع مما يصح السجود عليه كحجر مثلا و لم يزد ارتفاعه على قدر لبنة أو لبنتين فهو سجود حقيقي فيكون راكعا ساجدا لا مومئا۔۔۔ بل يظهر لي أنه لو كان قادرا على وضع شيء على الأرض مما يصح السجود عليه أنه يلزمه ذلك لأنه قادر على الركوع و السجود حقيقة، و لا يصح الإيماء بهما مع القدرة عليهما بل شرطه تعذرهما‘‘ ملتقطاً۔
ترجمہ: اگر وہ زمین پر رکھی چیز ایسی ہے کہ جس پر سجدہ کرنا درست ہے مثلاً پتھر اور وہ ایک یا دو اینٹوں (9 انچ) سے زیادہ بلند بھی نہیں تو اس پر کیا جانے والا سجدہ حقیقی سجدہ ہے لہذا وہ رکوع اور سجدہ کرنے والا ہوگا، اشارہ کرنے والا نہیں،۔۔۔ بلکہ میرے لئے تو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اگر کوئی زمین پر ایسی چیز رکھنے پر قادر ہو جس پر سجدہ کرنا درست ہو، تو اس چیز پر سجدہ لازم ہوگا، کیونکہ وہ حقیقت میں رکوع اور سجدہ کرنے پر قادر ہے۔ اور رکوع و سجدہ پر قدرت ہوتے ہوئے محض اشارے سے نماز ادا کرنا جائز نہیں ہوتا، بلکہ اشارے کیلئے ان دونوں (یعنی حقیقی رکوع و سجدے) کا متعذر ہونا شرط ہے۔ (رد المحتار علی الدرالمختار، جلد 2، صفحہ 686، دار المعرفۃ، بیروت)
بہار شریعت میں ہے: ’’اگر کوئی اونچی چیز زمین پر رکھی ہوئی ہے اُس پر سجدہ کیا اور رکوع کے ليے صرف اشارہ نہ ہوا بلکہ پیٹھ بھی جھکائی تو صحیح ہے بشرطیکہ سجدہ کے شرائط پائے جائیں مثلاً اس چیز کا سخت ہونا جس پر سجدہ کیا کہ اس قدر پیشانی دب گئی ہو کہ پھر دبانے سے نہ دبے اور اس کی اونچائی بارہ اُنگل سے زیادہ نہ ہو۔ ان شرائط کے پائے جانے کے بعد حقیقۃً رکوع و سجود پائے گئے، اشارہ سے پڑھنے والا اسے نہ کہیں گے اور کھڑا ہو کر پڑھنے والا اس کی اقتدا کر سکتا ہے اور یہ شخص جب اس طرح رکوع و سجود کرسکتا ہے اور قیام پر قادر ہے تو اس پر قیام(بھی) فرض ہے یا اثنائے نماز میں قیام پر قادر ہوگیا تو جو باقی ہے اسے کھڑے ہو کر پڑھنا فرض ہے لہٰذا جو شخص زمین پر سجدہ نہیں کر سکتا مگر شرائط مذکورہ کے ساتھ کوئی چیز زمین پر رکھ کر سجدہ کر سکتا ہے، اس پر فرض ہے کہ اسی طرح سجدہ کرے اشارہ جائز نہیں‘‘۔ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 4، صفحہ 722، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
جو شخص سجدے پر قادر ہوگا تو وہ رکوع پر بھی بدرجہ اولیٰ قادر ہوگا، چنانچہ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ رد المحتار میں لکھتے ہیں:
قال في البحر: و لم أر ما إذا تعذر الركوع دون السجود غير واقع اهـ أي لأنه متى عجز عن الركوع عجز عن السجود نهر
ترجمہ: بحر میں فرمایا کہ میں نے اس صورت کا حکم نہیں دیکھا کہ جب کوئی شخص رکوع سے عاجز ہو لیکن سجدے پر قادر ہو،(اس کا حکم نہ دیکھنے کی وجہ یہ ہے کہ)عموماً ایسا ہوتا نہیں۔یعنی جب کوئی شخص رکوع سے عاجز ہوگا تو وہ سجدے سے بھی عاجز ہوگا۔ نہر (اور سجدے پر قادر ہوگا تو رکوع پر بھی قادر ہوگا)۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد 2، صفحہ 684، دار المعرفۃ، بیروت)
سجدے پر قادر ہو تو بقدر قدرت جن نمازوں میں قیام فرض ہے ان میں قیام بھی کرے گا، چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:
اذا عجز المریض عن القیام صلی قاعدا یرکع و یسجد کذا فی الھدایۃ... و لو کان قادرا علی بعض القيام دون تمامه يؤمر بان یقوم قدر ما یقدر حتی اذا کان قادرا علی ان یکبر قائما... یؤمر بان یکبر قائما... و ان عجز عن القیام و الرکوع و السجود و قدر علی القعود یصلی قاعدا بایماء و یجعل السجود اخفض من الرکوع
ترجمہ: جب مريض قيام سے بالکل عاجز ہوجائے تو بیٹھ کر رکوع و سجود کے ساتھ نماز پڑھے جیسا کہ ہدایہ میں ہے اور اگر مکمل قیام پر قدرت تو نہ ہو لیکن بعض قیام پر قادر ہو تو اسے حکم دیا جائے گا کہ جتنے پر قادر ہے اتنا قیام کرے یہاں تک کہ اگر وہ صرف تکبیر تحریمہ کھڑے ہوکر کہنے پر قادر ہو تو اسے حکم دیا جائے گا کہ تکبیر تحریمہ کھڑے ہوکر کہے(پھر بیٹھ جائے)اور اگر کوئی شخص کھڑے ہونے اور رکوع و سجدہ کرنے سے عاجز ہوجائےاور بیٹھنے پر قادر ہوتو ایسا شخص بیٹھ کر اشارے کے ساتھ نماز پڑھے اور سجدے کے اشارے کورکوع سے پست رکھے۔ (الفتاوی الھندیہ، جلد 1، کتاب الصلاۃ، صفحہ 149 - 150،دار الکتب العلمیہ، بیروت)
تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:
’’(و ان تعذرا) لیس تعذرھما شرطا بل تعذر السجود کاف ( أومأ قاعدا) و ھو افضل من الایماء قائما (و یجعل سجودہ اخفض من رکوعہ) لزوما‘‘ ملخصاً۔
ترجمہ: اور اگر رکوع و سجود دونوں نہیں کرسکتا، دونوں پر قدرت نہ ہونا شرط نہیں بلکہ صرف سجدہ کرنے پر قدرت نہ ہونا ہی کافی ہے (لہذا اگر سجدہ پر قدرت نہ ہو) تو بیٹھ کر اشارے سے نماز پڑھے اور بیٹھ کر اشارے سے پڑھنا، کھڑے ہوکر اشارہ کرکے پڑھنے سے افضل ہے اور اس صورت میں سجدے کے اشارے کورکوع سے لازماً پست رکھے۔ (تنویر الابصار مع در مختار، جلد 2، باب صلاۃ المریض، صفحہ 684 - 685، دار المعرفۃ، بیروت)
بہار شریعت میں ہے: ’’کھڑا ہو سکتا ہے مگر رکوع و سجود نہیں کر سکتا یا صرف سجدہ نہیں کرسکتا مثلاً حلق وغیرہ میں پھوڑا ہے کہ سجدہ کرنے سے بہے گا تو بھی بیٹھ کر اشارہ سے پڑھ سکتا ہے بلکہ یہی بہتر ہے۔۔۔ اشارہ کی صورت میں سجدہ کا اشارہ رکوع سے پست ہونا ضروری ہے۔۔۔ اور سجدہ کے ليے زيادہ سر نہ جھکایا تو ہوا ہی نہیں‘‘ملتقطاً۔ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 4، صفحہ 721، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
مرض کے بڑھنے یا دیر سے ٹھیک ہونے کا ثبوت کن چیزوں سے ہوگا، اس کے متعلق فتاوی رضویہ میں سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں: ’’یہ بات کہ فلاں امر ضرر دے گا کسی کافر یا کھلے فاسق یا ناقص طبیب کے بتائے سے ثابت نہیں ہوسکتی، (بلکہ اس کے ثبوت کیلئے) یا تو خود اپنا تجربہ ہو کہ نقصان ہوتا ہے، یا کوئی صاف علامت ایسی موجود ہو جس سے واقعی ظن غالب نقصان کا ہو، یا طبیب حاذق مسلم مستور بتائے جس کا کوئی فسق ظاہر نہ ہو‘‘۔ (فتاوی رضویہ، جلد 1، حصہ دوم، صفحہ 621، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FAM-830
تاریخ اجراء: 27 محرم الحرام 1447ھ / 23 جولائی 2025ء
ؤ