
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے كے بارے میں کہ لاحق کے لئے جن رکعتوں میں قراءت نہ کرنے کا حکم ہے، اگر وہ ان میں خاموش رہنے کی بجائے قراءت کر لے، تو کیا حکم ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
لاحق جب اپنی بقیہ رکعتیں ادا کرے، تو اس کے لئے ان رکعتوں میں قراءت نہ کرنا واجب اور کرلینا مکروہ تحریمی یعنی ناجائز و گناہ ہے، لہٰذا اگر لاحق نے سرّی خواہ جہری نماز میں قراءت کرلی، تو اگر بھولے سے کی، تو نماز ہوجائے گی سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا، اور اگر جان بوجھ کر یا مسئلہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے کی، تو نماز واجب الاعادہ ہوگی یعنی اس نماز کو دوبارہ سے پڑھنا واجب ہے۔
اس لئے کہ لاحق اپنی بقیہ رکعتوں میں قراءت و سجدہ سہو وغیرہ معاملات میں مقتدی کے حکم میں ہے اورمقتدی کے لئے امام کے پیچھے قراءت نہ کرنا واجب ہے، اس کے علاوہ اگر مقتدی سے سہواً (بھولے سے) کوئی واجب ترک ہوجائے، تو اس پر سجدہ سہو لازم نہیں ہوتا، لیکن عمداً(جان بوجھ کر کرنے) کی صورت میں نماز کا اعادہ لازم ہوتاہے، لہٰذا یہی احکامات لاحق کے لئے بھی ہوں گے۔
لاحق اپنی بقیہ رکعتوں میں مقتدی کے حکم میں ہے، اس حوالے سے مسبوط سرخسی، در مختار، بدائع الصنائع، حاشیۃ الطحطاوی اورحاشیۃ الشلبی وغیرہ کتب فقہیہ میں ہے،
واللفظ للبدائع: ”وأما اللاحق كأنه خلف الإمام ولهذا لا قراءة عليه لا سهو عليه كما لو كان خلف الإمام حقيقة“
بہر لاحق تو گویا یہ امام کے پیچھے یعنی مقتدی ہے، اسی وجہ سے اس پر قراءت اور سجدہ سہو نہیں، جیساکہ حقیقتاً مقتدی ہونے کی صورت میں ہوتا ہے۔ (مبسوط سرخسي، ج01، ص229، دار المعرفة - بيروت، لبنان)) الدر المختار مع رد المحتار، ج01، ص595، دار الفكر، بيروت )(بدائع الصنائع، ج01، ص247، دار الکتب العلمیہ بیروت)(حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح، ص309، دار الكتب العلمية بيروت – لبنان)(حاشیۃ الشلبی علی تبیین الحقائق، ج01، ص214، المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة(
بہار شریعت میں ہے: ”لاحق مدرک کے حکم میں ہے کہ جب اپنی فوت شدہ پڑھے گا، تو اس میں نہ قراء ت کرے گا، نہ سہو سے سجدۂ سہو کرے گا ۔“)بھا رشریعت، ج01، ص589، مکتبۃ المدینہ، کراچی(
شرح الوقایۃ میں ہے:
”فاللاحق وإن لم يكن له إمام حقيقة، فله إمام حكما، فإنه التزم أن يؤدي جميع صلاته خلف الإمام، فإذا سبقه الحدث فتوضأ وبنا، يجعل كأنه خلف الإمام حتى يثبت له أحكام المقتديين كحرمة القراءة“
لاحق كا اگرچہ حقیقتاً امام نہیں ہوتا، لیکن حکماً امام ہوتا ہے، کیونکہ اس نے مکمل نماز امام کے پیچھے ادا کرنے کا التزام کیا تھا، لہذا جب اس کو حدث لاحق ہوا، اور اس نے وضو کرکے بنا کی، تو اسے اب بھی امام کے پیچھے قرار دیا جائے گا، یہاں تک کہ اس کے لئے مقتدیوں والے احکام ثابت ہوں گے جیسا کہ قراءت کا مکروہ تحریمی ہونا۔ (شرح الوقایۃ لصدر الشريعہ، ج02، ص133، دار الوراق - عمان، الأردن)
اور مقتدی اگر امام کے پیچھے قراءت کرلے تو کیا حکم ہوگا؟اس کی تفصیل کے حوالے سےدر مختار میں ہے: ”وانصات المقتدی‘‘ اور مقتدی کا خاموش رہنا واجب ہے۔
مذکورہ عبارت کے تحت حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار میں ہے:
”فلو لم ینصت وقرأ یجب علیہ اعادۃ الصلاۃ، ولا یتأتی فی حقہ السھو ان قرأ سھوا؛ لانہ لا سھو علی المقتدی، حلبی‘‘
لہذا اگر مقتدی خاموش نہ رہا اور اس نے قراءت کی، تو اس پر نماز کو دوہرانا واجب ہے، اور اگر اس نے بھول کر قراءت کی تو اس کے حق میں سہو کا حکم نہیں ہوگا، کیونکہ مقتدی پر اپنے سہو سے سجدہ سہو لازم نہیں ہوتا، حلبی۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، ج02، ص147، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
”فلو قرأ خلف إمامه كره تحريما ولا تفسد في الأصح ولا يلزمه سجود سهو لو قرأ سهوا لأنه لا سهو على المقتدي، وهل يلزم المتعمد الإعادة؟ جزم ح وتبعه ط بوجوبها‘‘
لہذا اگر مقتدی نے امام کے پیچھے قراءت کی، تو یہ مکروہ تحریمی ہوگا، اور اصح قول کے مطابق نماز فاسد نہیں ہوگی، اور مقتدی نے اگر بھول کر قراءت کی تو اس پر سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا، کیونکہ مقتدی پر اپنے بھولنے کے سبب سجدہ سہو لازم نہیں، اور کیا جان بوجھ کر قراءت کرنے والے پر اعادہ لازم ہوگا؟ تو ح( یعنی امام حلبی) نے اعادے کے واجب ہونے پر جزم فرمایا ہےاور ط(یعنی علامہ طحطاوی)نے اعادے کے واجب ہونے میں ان کی اتباع کی ہے۔ (الدر المختار مع رد المحتار، ج01، ص470، دار الفكر، بيروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: HAB-0471
تاریخ اجراء: 09جمادی الاخری1446ھ/12دسمبر2024ء