دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ کئی افراد کو دیکھا گیا ہے کہ سجدہ میں کلائیاں زمین پر بچھا دیتے ہیں۔ پوچھنا یہ تھا کہ مرد کے لئے سجدہ کرنے کا مسنون طریقہ کیا ہے ؟ نیز سجدہ میں کلائیاں بچھا کر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
مرد کے لیے سجدہ کرنے کامسنون طریقہ یہ ہے کہ وہ سجدہ میں کہنیوں کو کروٹوں سے، پیٹ کو رانوں سے اور پنڈلیوں کو زمین سے جدا رکھے اور سجدے میں کلائیاں زمین پر بچھانا، ناجائز و گناہ ہے، نیز اس طرح پڑھی گئی نماز بھی مکروہِ تحریمی واجب الاعادہ ہے، لہٰذا اگر کسی نے یوں نماز ادا کی ہو، تو وہ توبہ کے ساتھ اس نماز کا اعادہ بھی کرے۔
تنبیہ! باجماعت نماز میں کہنیاں اتنی کشادہ نہ کی جائیں کہ ساتھ والے نماز ی کو تکلیف ہو، نیز مذکورہ حکم مردوں کے لیے ہے، عورتیں سمٹ کرہی سجدہ کریں گی، یعنی با زو کروٹوں سے، پیٹ ران سے، ران پنڈ لیوں سے اور پنڈ لیا ں زمین سے ملا کر رکھیں گی، کیونکہ ان کے لیے اس طرح سجدہ کرنے میں زیادہ ستر (پردہ ) ہے۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سجدہ کرنے کے متعلق حدیث پاک میں ہے:
كان إذا سجد جافى بين يديه، حتى لو أن بهمة أرادت أن تمر تحت يديه مرت
ترجمہ: جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سجدہ کرتے، تو دونوں ہاتھ کروٹوں سے دور رکھتے، یہاں تک کہ اگر ہاتھوں کے نیچے سے بکری کا بچہ گزرنا چاہتا، تو گزر جاتا۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلوٰۃ، باب صفۃ السجود، جلد 2، صفحہ 170، مطبوعہ، دار الرسالہ العالمیہ)
مسلم شریف کی حدیث پاک میں ہے:
أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم كان إذا صلى فرج بين يديه، حتى يبدو بياض إبطيه
ترجمہ: نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب نماز پڑھتے، تو ہاتھوں کے درمیان فاصلہ ہوتا، حتی کہ بغلوں کی سفیدی ظاہر ہوتی۔ (صحیح مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب مایجمع بین الصلوٰۃ، جلد 2، صفحہ 53، مطبوعہ، ترکی)
مرد کے سجدہ کرنے کے متعلق نورالایضاح میں ہے:
و یسن مجافاۃ الرجل بطنہ عن فخذیہ و مرفقیہ عن جنبیہ و ذراعیہ عن الأرض
ترجمہ:سجدہ کرتے وقت مردکے لئے سنت ہے کہ وہ اپنے پیٹ کورانوں سے ،اپنی کہنیوں کواپنے پہلوؤں سےاوراپنی کلائیوں کو زمین سے جدارکھے۔ (نور الایضاح، صفحہ 256 تا 268، مطبوعہ کراچی)
صدرالشریعہ بدر الطریقہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”مرد کے ليے سجدہ میں سنت یہ ہے کہ بازو کروٹوں سے جدا ہوں اور پیٹ رانوں سےاور کلائیاں زمین پر نہ بچھائے، مگر جب صف میں ہو، تو بازو کروٹوں سے جدا نہ ہوں گے۔“ (بھار شریعت، جلد 1، صفحہ 529، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
نماز میں کلائیاں زمین سے اٹھائے رکھنے کے متعلق نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
إذا سجدت فضع كفيك و ارفع مرفقيك
ترجمہ: جب تو سجدہ کرے، تو اپنی ہتھیلیوں کو (زمین پر) رکھ اور اپنی کہنیوں کو اٹھا لے۔ (صحیح مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب الاعتدال فی السجود، جلد 1، صفحہ 356، مطبوعہ، قاھرۃ)
نماز میں کلائیاں بچھانے کے متعلق نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اعتدلوا في السجودو لا يبسط أحدكم ذراعيه انبساط الكلب
ترجمہ: سجدہ میں اعتدال کرو، تم میں سے کوئی ایک بھی اپنی کلائیاں کتے کے پھیلانے کی طرح نہ پھیلائے۔ (صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ، باب لایفترش ذراعیہ فی السجود، جلد 1، صفحہ 164، مطبوعہ، مصر)
اس حدیث پاک کے تحت حاشیہ سندی علی سنن نسائی میں ہے:
أن يبسط ذراعيه في السجود و لا يرفعهما عن الأرض، كما يبسط السبع و الكلب و الذئب ذراعيه
ترجمہ: کتے کی طرح کلائیاں پھیلانے سے مراد یہ ہے کہ نمازی سجدہ میں کلائیاں بچھائے اور ان کو زمین سے نہ اٹھائے، جیسے: درندے، کتےاور بھیڑیے اپنی کلائیاں بچھاتے ہیں۔ (حاشیہ سندی علی سنن نسائی، جلد 2، صفحہ 215، مطبوعہ حلب)
مذکورہ حدیث پاک کے تحت عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں ہے:
المقصود من الاعتدال فيه أن يضع كفه على الأرض و يرفع مرفقيه عنها و عن جنبيه ويرفع البطن عن الفخذ و الحكمة فيه أنه أشبه بالتواضع و أبلغ في تمكين الجبهة من الأرض و أبعد من هيئات الكسالى، فإن المنبسط يشبه الكلب و يشعر حاله بالتهاون بالصلوات و قلة الاعتناء بها
ترجمہ: سجدہ میں اعتدال سے مراد یہ ہے کہ نمازی اپنی ہتھیلیاں زمین پر رکھے اور کہنیاں زمین سے اٹھا لے اور اپنی کروٹوں سے جدا رکھے، پیٹ رانوں سے جدا رکھے۔ اور اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ عاجزی کے زیادہ مشابہ، پیشانی زمین پر جمانے میں زیادہ کافی اور سستی کی حالت سے زیادہ دور ہے۔ بے شک کلائیاں پھیلانا کتے کے مشابہ ہے اور نمازوں میں سستی اور قلت رغبت کی خبر دیتا ہے۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، کتاب الصلوٰۃ، باب الابراد بالظھر، جلد 5، صفحہ 19، مطبوعہ بیروت)
مذکورہ حدیث پاک کے متعلق مبسوط سرخسی میں ہے:
فذكره هذا المثل دليل على شدة الكراهة
ترجمہ: اس طرح کی حدیث ذکر کرنا (اس فعل کے) سخت مکروہ ہونے کی دلیل ہے۔ (المبسوط، کیفیۃ الدخول فی الصلاۃ، جلد 1، صفحہ 22، مطبوعہ مصر)
نماز کے مکروہات کے متعلق المحیط البرہانی اور النتف فی الفتاوی میں ہے:
و اما الكراهية في الصلاة فعشرون خصلة۔۔۔ و التاسعة عشر افتراش الذراعين في السجود
ترجمہ: نماز میں بیس (20) چیزیں مکروہ ہیں، ان میں سے انیسویں: سجدے میں دونوں کلائیاں زمین پر بچھانا ہے۔ (النتف فی الفتاوی، کتاب الصلوٰۃ، باب الکراھیۃ فی الصلاۃ، جلد 1، صفحہ 70، مطبوعہ عمان)
نماز میں کلائیاں بچھانے کے مکروہ تحریمی ہونے کے متعلق رد المحتار اور البحرالرائق میں ہے:
و افتراشهما إلقاؤهما على الأرض، كما في المغرب۔۔۔ و الظاهر أنها تحريمية، للنهي المذكور
ترجمہ: کلائیاں بچھانے سے مراد ہے ان کو زمین پر ڈال دینا، جیسا کہ مغرب میں ہے اور ظاہر یہ ہے کہ مذکورہ نہی کی وجہ سے (مکروہ سے مراد) مکروہ تحریمی ہے۔ (البحر الرائق، کتاب الصلوٰۃ، باب ما یفسد الصلوٰۃ و ما یکرہ فیھا، جلد 2، صفحہ 25، مطبوعہ دار الکتاب الاسلامی، ملتقطاً)
مکروہ تحریمی کے ساتھ ادا کی گئی نماز کے اعادہ کے متعلق البحرالرائق میں ہے:
قالوا كل صلاة أديت مع كراهة التحريم يجب إعادتها
ترجمہ: فقہا نے فرمایا: ہر وہ نماز جو کراہت تحریمی کے ساتھ ادا کی جائے، اس کا اعادہ واجب ہے۔ (البحر الرائق، کتاب الصلوٰۃ، باب آداب الصلوٰۃ، جلد 1، صفحہ 331، مطبوعہ دار الکتاب الاسلامی)
عورت کے سمٹ کر سجدہ کرنے کے متعلق حدیث پاک میں ہے:
أن رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم مر على امرأتين تصليان فقال: إذا سجدتما فضما بعض اللحم إلى الأرض، فإن المرأة ليست في ذلك كالرجل
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز ادا کر رہی تھیں، تو نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے ارشاد فرمایا: جب تم سجدہ کرو، تو جسم کا کچھ زمین زمین سے ملایا کرو،بے شک عورت اس معاملہ میں مرد کی طرح نہیں۔ (سنن الکبری للبیھقی، با ب ما یستحب للمراۃ، جلد 2، صفحہ 315، مطبوعہ بیروت)
عورت کے لیے نماز میں کلائیاں بچھانا مکروہ نہیں۔ چنانچہ حاشیۃ الطحطاو ی علی در المختار میں ہے:
(افتراش الرجل) انما قید بہ لان المراۃ تفترش لانہ استر لھا
ترجمہ: ”مرد کا کلائیاں بچھانا“ اس کو مرد کے ساتھ مقید کیا گیا ہے، عورت کلائیاں بچھائے گی، کیونکہ عورت کے لیے کلائیاں بچھانے میں اس کے لیے زیادہ ستر (پردہ ہے)۔(حاشیۃ الطحطاوی علی در المختار، باب مایفسد الصلاۃ و مایکرہ۔۔، جلد 2، صفحہ 363، مطبوعہ بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: GUJ-0050
تاریخ اجراء: 15 ربیع الآخر 1447ھ / 09 اکتوبر 2025ء