مسجد کے منبر کی سیڑھیاں کتنی ہوں؟

مسجد کے منبر کی کتنی سیڑھیاں ہونی چاہیے؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم نے مسجد کے لیے منبر بنوانا ہے۔ اُس میں کتنی سیڑھیاں بنوائی جائیں؟ کیا تین سے زیادہ زینے بھی بنوائے جا سکتے ہیں؟ یہ رہنمائی فرما دیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

منبر کے لیے تین سیڑھیاں ہونا افضل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے بنوائے گئے منبر مبارک کے تین زینے تھے، لیکن اگر تین سے زیادہ زینے رکھوانے کی ضرورت ہو تو زیادہ زینے بھی بنوائے جا سکتے ہیں، کیونکہ زیادہ زینے بنوانے اور منبر کو بلند کرنے کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسجد میں موجود تمام حاضرین آسانی کےساتھ خطیب یا واعظ کو دیکھ سکیں اور آواز کو سن سکیں، لہذا جہاں حاضرین کی کثرت کے سبب تین سے زیادہ زینے بنانے کی ضرورت ہو تو تین سے زائد بنانے کا بھی اختیار ہے، البتہ طاق عدد میں بنوانا بہتر ہے۔

حدیث کی معروف کتاب ”مسند أحمد“ میں ہے:

’’كان منبر النبي صلى اللہ عليه وسلم قصيرا، إنما هو ‌ثلاث ‌درجات“

ترجمہ: نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا منبر مبارک بہت طویل نہیں تھا، بلکہ اُس کے صرف تین درجے اور زینے تھے۔ (مسندُ أحمد، جلد04، صفحہ241، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ)

سیرتِ مصطفیٰ ﷺ کی مشہور کتاب ”السيرة الحلبية “ میں ہے:

’’ذكر فقهاؤنا أن منبره صلى اللہ عليه وسلم كان ثلاث درج غير الدرجة التي تسمى المستراح وتسمى بالمقعد والمجلس“

 ترجمہ: ہمارے فقہائے کرام نے بیان فرمایا کہ حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا منبر مبارک تین درجوں کا تھا اور یہ تین درجے اُس درجے کے علاوہ تھے، کہ جسے ”مستراح“ کہتے ہیں اور اسی کو مقعد اور مجلس بھی کہا جاتا ہے۔ (السیرۃ الحلبیۃ، جلد 2، صفحہ 196، مطبوعۃ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

نبی اکرم ﷺ کے منبر مبارک کی تفصیل اور اُس پر بنائے جانے والے زینوں کے مقصد کو بیان کرتے ہوئے امامِ اہلِ سنَّت، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں: (نبی اکرم ﷺ کے) منبر اقدس کے تین زینے تھے، علاوہ اوپر کے تختے کے،۔۔۔ حضور سید عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ درجہ بالا پر خطبہ فرمایا کرتے، حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے دوسرے پر پڑھا، حضرت فاروق اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے تیسرے پر، جب زمانہ ذوالنورین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کا آیا، پھر اول پر خطبہ فرمایا، سبب پوچھا گیا، فرمایا اگر دوسرے پر پڑھتا لوگ گمان کرتے کہ میں صدیق کا ہمسر ہوں اور تیسرے پر تو وہم ہو تا کہ فاروق کے برابر ہوں، لہذا وہاں پڑھا جہاں یہ احتمال متصور ہی نہیں، اصل سنت اول درجہ پر قیام ہے۔۔۔ بلندیِ منبر سے اصل مقصد یہ ہے کہ سب حاضرین خطیب کو دیکھیں او راُس کی آواز سنیں۔ جہاں یہ حاجت بسبب کثرتِ حضار و دوری صفوف، تین زینوں میں پوری نہ ہو تو زینے زیادہ کرنے کا خود ہی اختیار ہے اور بہتر عدد طاق کی مراعات۔ (فتاوٰی رضویہ، جلد08، صفحہ343، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

منبر مبارک کے کُل زینے تین تھے۔چوتھا زینہ نہیں تھا۔ وہ محض ایک تختہ تھا، جس کی پشت نہیں تھی۔اُس تختے کو ”مقعد“ یا ”مستراح“           کہا جاتا ہے۔ اُس تختے پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف فرما نہیں ہوتے تھے، بلکہ تیسرے زینے پر تشریف فرما ہوا کرتے تھے، جس کے پیچھے ٹیک بھی لگتی تھی۔ دوسرے پر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور پہلے پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ۔پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اُسی تیسرے زینے پر بیٹھے، جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف فرما ہوا کرتے تھے۔

یہ ایک فرضی تصویر اور تینوں زینوں پر نمبرز لگائے ہیں۔ سب سے اوپر ”مستراح“ ہے، جس کی ٹیک نہیں ہے۔اُس کے نیچے تیسرا زینہ ہے، جس کی ٹیک ہے اور یہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف فرما ہوتے۔جیسا کہ اعلیٰ حضرت نے لکھا: منبر اقدس کے تین زینے تھے، علاوہ اوپر کے تختے کے، جس پر بیٹھتے ہیں۔۔۔ حضور سید عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ درجہ (زینہِ)بالا پر خطبہ فرمایا کرتے۔

اعلیٰ حضرت نے اوپر والے تختے کے علاوہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق لکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ”زینہِ بالا“ پر خطبہ فرمایا کرتے، نیز اعلیٰ حضرت کا اگلا کلام جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عمل کے متعلق ہے، وہ بھی اُسی صورت میں درست رہے گا کہ جب تیسرے پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ، دوسرے پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور پہلے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف فرما ہوں، اُسی صورت میں کوئی زینہ باقی نہیں بچتا، لہذا حضرت عثمان غنی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مقام جلوس پر تشریف فرما ہوئے، تا کہ شبہِ ہمسری نہ رہے۔

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:  FSD-9522

تاریخ اجراء 23 ربیع الاول1447ھ/ 17  ستمبر 2025ء