مسجد کی کرسیاں اٹھانے رکھنے میں احتیاط

مسجد میں رکھی ہوئی کرسیوں کو اٹھانے رکھنے میں کیا احتیاط ہونی چاہیے ؟

دارالافتاء اہلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں  کہ آج کل مساجد میں  کرسیاں رکھی ہوتی ہیں،جن پر معذور یا وہ افراد جو زمین پر سجدہ نہیں کرسکتے ،بیٹھ کر نمازیں پڑھتے ہیں۔معاملہ یہ ہے کہ  جب جماعت کھڑی ہونے لگتی ہے تو  اس وقت کرسیوں کو صف میں گھسیٹ کر یا اٹھا کر  اِدھر اُدھر  کیا جاتا ہے ، بعض اوقات  گھسیٹنے یا  زور سے رکھنے کے سبب  آواز بھی پیدا ہوتی ہے،اس حوالے سے رہنمائی چاہیے تھی کہ  کیا مسجد میں اس طرح  کرسیوں کواِدھر  اُدھر کرنا درست ہے؟نیزجن مساجد میں کرسیاں رکھی ہوتی ہیں ،وہاں کے نمازیوں کو اس حوالے سے کیا  احتیاط کرنی چاہیے کہ جس سے مسجد کا تقدس  اور ادب و احترام برقرار رہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

مسجد اللہ تعالیٰ کاعظمت و برکت والا گھر ہے، مسلمانوں کو اس گھر کی تعظیم کرنے، اس کے آداب کا خیال رکھنے، اس کو پاک و صاف رکھنے اور اس میں ہر طرح کے شور شرابے سے بچنے کا حکم ہے۔ مسجد کے تقدس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مسجد میں اس طرح قدم رکھنے سے بھی منع کیا گیا ہے کہ جس سے دھمک پیدا ہو،  نیز حدیث پاک میں جماعت کھڑی ہونے کی صورت میں بعد میں آنے والے نمازیوں کو دوڑ کر جماعت میں شامل ہونے سے منع فرمایا اور انہیں سکون و اطمینان سے آنے کا حکم دیا گیا۔

لہٰذا وہ مساجد جن میں کرسیاں رکھی ہوتی ہیں وہاں کرسیوں کو اس طرح اِدھر اُدھر گھسیٹنا یا زور سے رکھنا کہ جس سے آواز پیدا ہو، اسلامی تعلیمات کے خلاف اور شرعاً ممنوع عمل ہے۔ نمازیوں، منتظمین اور خادمین ِ مساجد کو چاہیے کہ کرسیوں کو رکھنے اور اِدھر اُدھر  کرنے میں بہت احتیاط کریں، اولاً ایسی صورت اختیار کی جائے کہ کرسیوں کو بار بار اِدھر اُدھر نہ کرنا پڑے، جیسے انہیں صف کے کونوں میں رکھ دیا جائے، ثانیاً یہ کہ اگر نمازی کم ہونے کی صورت میں یا کسی اور غرض سے انہیں دائیں بائیں کرنا بھی پڑے تو ایسے کریں کہ جس سے آواز پیدا نہ ہو۔

مسلم شریف کی حدیث پاک ہے، معلّمِ کائنات، مصطفی جان ِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اذا ثوّب بالصلاة، فلا تاتوها وانتم تسعون واتوها وعليكم السكينة، فما ادركتم فصلوا وما فاتكم فاتموا، فان احدكم اذا كان يعمد الى الصلاة، فهو فی صلاة

 ترجمہ: جب نماز کے لیے اقامت کہی جائے، تو تم نماز کی طرف دوڑتے ہوئے نہ آؤ، تم نماز کی طرف آؤ اور اطمینان کے ساتھ رہو، پس جتنی رکعتیں تم پالو، انہیں پڑھ لواور جو فوت ہوجائیں، انہیں بعد میں مکمل کر لو، کیونکہ تم میں سے کوئی ایک جب نماز کا ارادہ کرتا ہے، تو وہ نماز ہی میں ہوتا ہے۔ (الصحیح لمسلم، کتاب المساجد، باب استحباب اتیان الصلاۃبوقار، ج1، ص265، مطبوعہ لاھور)

امام شرف الدین نَوَوِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 676ھ/1277ء) لکھتے ہیں:

والحكمة فی اتيانها بسكينة والنهی عن السعی: ان الذاهب الى صلاة عامد فی تحصيلها ومتوصل اليها، فينبغيی ان يكون متادبا بآدابها ‘‘

ترجمہ: اور نماز کی طرف اطمینان کے ساتھ آنے اور دوڑنے سے منع کرنے میں حکمت یہ ہے کہ بے شک نماز کی طرف جانے والا، اس کو ادا کرنے کا ارادہ کرنے والا اور اس تک پہنچنے والا ہے، پس مناسب یہ ہے کہ وہ اس کے آداب کو بجا لائے۔ (شرح النووی علی مسلم، ج5، ص99، مطبوعہ دار احیاء التراث، بیروت)

فیض القدیر میں ہے:

قال الطيبي: وقولهوأنتمتسعون حال من ضمير الفاعل وهو أبلغ في النهي من لا تسعوا وذلك لأنه مناف لما هو أولى به من الوقار والأدب ثم عقبه بما ينبه على حسن الأدب

ترجمہ: علامہ طیبی فرماتے ہیں: یہ قول "وَأَنْتُمْ تَسْعَوْنَ" (دوڑتے ہوئے) یہ فاعل کی ضمیر سے حال ہے اور یہ تعبیر "لا تسعوا" (دوڑو مت) سے زیادہ نہی میں تاکید والی ہے، کیونکہ یہ نماز کے شایان ِ شان وقار اور ادب کے منافی ہے۔ پھر اس کے بعد والے جملے سے حسن ادب کی طرف توجہ دلائی گئی۔ (فیض القدیر، جلد01، صفحہ 294، مطبوعہ مصر)

اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سُنَّت، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ/ 1921ء) لکھتے ہیں: ”شرع مطہر نے مسجد کو ہر ایسی آواز سے بچانے کا حکم فرمایا ہے، جس کے لئے مساجد کی بنا نہ ہو۔“ (فتاوی رضویہ، جلد8، صفحہ 408، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

ملفوظاتِ اعلی حضرت میں ہے: ’’مسجد میں دوڑنا یا زور سے قدم رکھنا، جس سے دھمک پیدا ہو، منع ہے۔‘‘ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت، ص318، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

مسجد میں شور کرنے کی ممانعت کے متعلق صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں: ”مسجد  میں اچھلنا، کودنا، شور کرنا منع ہے۔ مسجد کا احترام واجب ہے۔ جو شخص قادر ہو تو اس کو ضرور اچھلنے کودنے اور شور کرنے سے روکنا چاہیے۔“ (فتاوی امجدیہ، جلد 02، حصہ 04، صفحہ 49، مکتبہ رضویہ، کراچی)

صف میں کرسیاں کہاں رکھی جائیں، اس کے حوالے سے دار الافتاء اہلسنت کے رسالے "کرسی پر نماز پڑھنے کے احکام" میں لکھا ہے: کرسیاں صف کے کناروں پر رکھی جائیں، صف کے درمیان رکھنے کی وجہ سے بلاوجہ نمازیوں کو وحشت ہوگی، صف درست کرنے میں بعض اوقات درمیان میں رکھی ہوئی کرسی کی وجہ سے خلل آتا ہے، صف بناتے ہوئے کھڑے کھڑے سرکنا آسان ہوتا ہے مگر کرسی بیچ میں رکھی ہو تو اسے سَرکاتے ہوئے صف درست کرنا مشکل کام ہے، عام طور پر کرسیاں کنارے ہی پر رکھی جاتی ہیں یہی مناسب ہے۔“ (کرسی پر نماز پڑھنے کے احکام، صفحہ 11تا 12، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: OKR -0101

تاریخ اجراء: 07 ربیع الثانی 1447 ھ/02اکتوبر 2025 ء