مسجد کی پرانی چٹائی اور قالین بیچنا

مسجد کا پرانا قالین اور پرانی چٹائیاں بیچ سکتے ہیں ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ مسجد کے چندے سے  قالین، چٹائیاں وغیرہ خریدی گئیں۔ طویل عرصہ استعمال میں رہنے کی وجہ سے اب یہ اشیاء بالکل بوسیدہ اور پھٹ چکی ہیں اور مزید قابلِ استعمال نہیں رہیں،  تو ان اشیاء کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ براہِ کرم اس حوالے سے شرعی رہنمائی فرما دیں تاکہ احکامِ شرعیہ کی روشنی میں درست اقدام کیا جا سکے۔             سائل:قاری ظہور حسین عطاری(فیصل آباد)

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں اگر مذکورہ بالا اشیاء (قالین، چٹائیاں) مسجد کے عمومی چندے سے خریدی گئیں اور بوسیدہ ہونے کی وجہ سے اب مزید قابلِ استعمال نہیں رہیں، تو انہیں بیچ کر حاصل شدہ رقم کو مسجد کی ضروریات میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ مسجد کے عمومی چندے سے خریدی گئی وہ اشیاء جو آلاتِ مسجد کی قبیل سے ہوں، مثلاًقالین، دریاں، ٹوپیاں وغیرہ، اگر  یہ ناقابلِ استعمال ہو جائیں یا قابلِ استعمال تو ہوں، لیکن مسجد کی ضرورت سے زائد ہوں اور آئندہ بھی ان کے استعمال کی امید نہ ہویا امید تو ہو، مگر وقتِ ضرورت تک رکھنے سے ان کے خراب یا ضائع ہونے کا اندیشہ ہو، تو قابلِ اعتماد متولی یا انتظامیہ انہیں مارکیٹ ریٹ پر بیچ کر حاصل شدہ رقم مسجد کی ضروریات میں استعمال کر سکتے ہیں، البتہ یہ اشیاء کسی ایسے مسلمان کو بیچی جائیں جو انہیں بے ادبی کی جگہ (مثلاً بیت الخلاء وغیرہ میں) استعمال نہ کرے۔

آلاتِ مسجد میں سے کوئی چیز ناقابلِ استعمال ہو جائے، تو اسے بیچنے سے متعلق فتاوی عالمگیری میں ہے:

جنازة أو نعش لمسجد فسد باعه أهل المسجد قالوا: الأولى أن يكون البيع بأمر القاضي، والصحيح أن بيعهم لا يصح بغير أمر القاضي“

ترجمہ: کسی مسجد کا تابوت یا جنازے والی چارپائی خراب ہو گئی، پھر اہلِ محلہ نے اسے بیچ دیا، تو فقہائے کرام فرماتے ہیں:بہتر یہ ہے کہ یہ بیع قاضی کی اجازت سے ہو اور صحیح قول یہ ہے کہ قاضی کی اجازت کے بغیر ان کا بیچنا درست نہیں۔ (الفتاوى الھندیۃ، جلد2،  صفحہ459، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

فی زمانہ قاضی نہیں، لہٰذا عام مسلمانوں کا فیصلہ قاضی کے قائم مقام ہے، جیسا کہ امام فخر الدین قاضی خان حسن بن منصور اَؤزجندی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:259ھ) لکھتےہیں:

ان بیعھم بغیر امر القاضی لا یصح الا ان یکون فی موضع لا قاضی ھناک

 ترجمہ: اہلِ محلہ کا قاضی کی اجازت کے بغیر بیچنا درست نہیں، لیکن اگر کوئی ایسی جگہ ہو جہاں قاضی موجود نہ ہو (تو اب اہلِ محلہ کا بیچنا درست ہے)۔ (فتاوی قاضی خان، جلد3، صفحہ193، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

اگر قالین، چٹائیاں وغیرہ مسجد کےچندے سے لی گئیں ہوں، تو ناقابلِ استعمال ہونے کی وجہ سے انہیں بیچ سکتے ہیں، چنانچہ اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں: آلات یعنی مسجد کا اسباب، جیسے بوریا، مصلی، فرش، قندیل، وہ گھاس کہ گرمی کے لئے جاڑوں میں بچھائی جاتی ہے وغیر ذٰلک، اگر سالم وقابل انتفاع ہیں او رمسجد کو ان کی طرف حاجت ہے، تو ان کے بیچنے کی اجازت نہیں اور اگر خراب وبیکار ہوگئی یا معاذا بوجہ ویرانیِ مسجد ان کی حاجت نہ رہی، تو اگر مال مسجد سے ہیں، تو متولی اور متولی نہ ہو،  تو اہل محلہ متدین امین باذن قاضی بیچ سکتے ہیں۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد16، صفحہ265، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

ایک مقام پر حاصل شدہ رقم کو مسجد کی ضروریات میں استعمال کرنے سے متعلق لکھتے ہیں: ”(مسجد کا)فرش جو خراب ہوجائے کہ مسجد کے کام کا نہ رہے،  جس نے وہ فرش مسجد کو دیا تھا وہ اس کا مالک ہوجائے گا جو چاہے کرے اور اگر مسجد ہی کے مال سے تھا،  تو متولی بیچ کر مسجد کے جس کام میں چاہے لگادے۔(فتاویٰ رضویہ، جلد16، صفحہ406، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

مسجد کی اشیاء ایسی جگہ استعمال نہیں کرنی چاہیے جہاں بے ادبی کا اندیشہ ہو، چنانچہ علامہ علاؤالدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1088 ھ/1677ء) لکھتےہیں:

”حشيش المسجد وكناسته ‌لا ‌يلقى ‌في ‌موضع يخل بالتعظيم“

 ترجمہ : مسجد کی گھاس اور کوڑا ایسی جگہ نہ ڈالا جائے جہاں بے ادبی ہو۔ ( درمختار، کتاب الطھارۃ، جلد 1، صفحہ 355، مطبوعہ کوئٹہ )

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) سے سوال ہوا کہ ”مسجد کی کوئی چیز مسجد کے کام سے فاضل ہو اور وہ چیز اس مسجد کے کام میں آنے کی نہیں ہے اور وہ چیز ایسی ہے کہ کثر مدت تک بے کار رہنے سے نقصان ہونے کا اندیشہ ہے، تو ایسی صورت میں وہ چیز بیع کرنا جائز ہے یا نہیں؟ تو جواباً ارشاد فرمایا: جب وہ چیز بے کار ہے اور اندیشۂ نقصان ہے، تو فروخت کر کے قیمت مسجد میں صرف کریں اور وہ اگر مسجد کے استعمال میں آچکی ہے، تو بے ادبی کے موقع پر مشتری اس کے استعمال سے بچے اور ایسی چیز کافر کو بھی نہ دی جائے کہ وہ اس کا ادب ملحوظ نہ رکھے گا۔“                 (فتاویٰ امجدیہ، جلد3، صفحہ110، مطبوعہ مکتبہ رضویہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب : مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD- 9419

تاریخ اجراء28 محرم الحرام1447ھ/24 جولائی2025ء