مسجد کو ختم کر کے مدرسہ بنانا کیسا؟

مسجد کو ختم کر کے اس کی جگہ مدرسہ بنانا کیسا ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے گاؤں میں ایک مسجد کافی عرصے سےبنی ہوئی ہے، اب بالکل اس کے ساتھ ایک بازار چھوڑ کر ایک اور نئی بڑی مسجد تعمیر کی گئی، پہلی مسجد میں بھی نمازیں پڑھی جا رہی ہیں اور نئی مسجد میں بھی نماز ِپنچ وقتہ کا باقاعدہ اہتمام ہوگیا ہے۔ہمارے گاؤں میں لڑکیوں کا کوئی ایسا مدرسہ نہیں جس میں شرعی تقاضوں کے مطابق تعلیم و تربیت کا سلسلہ ہو، اس کی کمی ہمیں بہت محسوس ہوتی ہے، گاؤں کے کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ پہلی مسجد کو ختم کر کے اس کی جگہ لڑکیوں کے لیے مدرسہ بنالیتے ہیں، کیونکہ نمازوں کے لیے اب بڑی مسجد موجود ہے اور اس طرح ہماری بچیوں کی تعلیم و تربیت کا بھی باقاعدہ کوئی سلسلہ ہو جائے۔ہمیں رہنمائی فرمادیں کہ ہم پہلی مسجد کو ختم کرکے وہاں لڑکیوں کے لیے مدرسہ بنا سکتے ہیں ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

دین ِ اسلام میں مسجد کی حرمت کا بہت زیادہ خیال رکھا گیا ہے، کیوں نہ ہو کہ یہ اللہ پاک کا باعظمت، عزت والا مبارک گھر ہے، قوانین ِ شرعیہ کے مطابق جو جگہ ایک مرتبہ مسجد قرار دے دی جائے وہ قیامت تک تحت الثریٰ سے آسمان کی بلندی تک مسجد ہی رہتی ہے، اسے مسجد کے علاوہ کسی دوسرے مصرف میں استعمال نہیں کرسکتے۔ لہٰذا پوچھی گئی صورت میں آپ کا اپنے گاؤں میں لڑکیوں کے لیے مدرسہ بنانے کا ارادہ بہت اچھا ہے، نیز ایسی جگہ جہاں شریعت کے تقاضوں کے مطابق لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے کوئی مدرسہ نہ ہو وہاں ایسے مدرسے کی اہمیت اور دینی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے، لیکن اس ضرورت کوپورا کرنے کے لیے مسجد کو ختم کرنا کسی صورت جائز نہیں ہے، بلکہ ایسا کرنا حرام اور سخت گناہ کا کام ہے۔ آپ نے دوسری جگہ بھی مسجدبنالی ہے، لہذا اب دونوں کو آباد کرنا اور ان کی حرمت کا خیال رکھنا آپ پر فرض ہے۔مدرسہ کی تعمیر کے لیے کوئی اور مناسب جگہ دیکھ لی جائے۔

 چنانچہ اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فر ماتا ہے:

﴿وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنْ یُّذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ وَسَعٰی فِیْ خَرَابِہَاؕ            اُولٰٓىٕكَ مَا كَانَ لَهُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْهَاۤ اِلَّا خَآىٕفِیْنَ۬ؕ                لَہُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّلَہْمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾

 ترجمہ کنزالایمان: اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ کی مسجدوں کو روکے ان میں نامِ خدا لئے جانے سے اور ان کی ویرانی میں کوشش کرے ان کو نہ پہنچتا تھا کہ مسجدوں میں جائیں مگر ڈرتے ہوئے ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں بڑا عذاب۔ (سورۃ البقرۃ، پ01، آیت114)

 اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: ”مسجد کو کسی بھی طرح ویران کرنے والا ظالم ہے۔ بلاوجہ لوگوں کو مسجد میں آنے یا مسجد کی تعمیر سے روکنے والا، مسجد یا اس کے کسی حصے پرقبضہ کرنے والا، مسجد کو ذاتی استعمال میں لے لینے والا، مسجد کے کسی حصے کو مسجد سے خارج کرنے والا یہ سب لوگ اس آیت کی وعید میں داخل ہیں۔ (تفسیر صراط الجنان، ج1، ص199، ، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

کسی جگہ کے مسجد ہو جانے کے بعد وہ جگہ تحت الثری سے لے کر آسمان کی بلندیوں تک مسجد ہے، چنانچہ در مختار میں ہے: انہ مسجد الی عنان السماء“ ترجمہ: بے شک وہ آسمان کی بلندیوں تک مسجد ہے۔

اس کے تحت رد المحتار میں ہے: ” وکذا الی تحت الثری” یعنی: اسی طرح تحت الثری تک مسجد ہے۔ (در مختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ، جلد2، صفحہ516تا517، مطبوعہ کوئٹہ)

اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سُنَّت، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں: ’’جو زمین مسجد ہو چکی اس کے کسی حصہ کسی جز کا غیر مسجد کر دینا اگرچہ متعلقات مسجد ہی سے کوئی چیز ہو حرام قطعی ہے۔قال اللہ تعالیٰ : "وان المسجد للہ" (اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بے شک مسجدیں اللہ تعالیٰ کی ہیں)۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 16، صفحہ482، رضا فاؤنڈیشن، لاہور )

 خلیل ملت، مفتی محمد خلیل خان قادری برکاتی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1405ھ/1985ء)سے اسی طرح کا ایک سوال ہوا کہ ایک مسجد کے ہوتے ہوئے دوسری مسجد بنالی اور قدیم مسجد کی جگہ کو کسی دوسرے مصرف میں استعمال کرلیا تو کیا حکم ہے؟

آپ رحمۃ اللہ علیہ  جواباً لکھتے ہیں: ”جبکہ اس مسجدِ جدید کو بھی مسلمانوں نے مسجد کرلیا یہ بھی مسجد ہوگئی، اور اب مسجد اوّل  اور اس جدید مسجد، دونوں کی حفاظت اور آبادی فرض ہے۔مسجد اوّل کو منہدم کرکے تعمیر دنیاوی ہی نہیں، تعمیر ِدینی میں بھی شامل کر دینا حرام حرام سخت حرام ہے۔جنہوں نے ایسا کیا ہو اور جو اس میں مشیر ہوں اور جو اسے جائز رکھیں سب اس آیہ کریمہ کے تحت ہیں

"وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنْ یُّذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ وَسَعٰی فِیْ خَرَابِہَاؕ                  اُولٰٓئِکَ مَا کَانَ لَہُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْهَاۤ اِلَّا خَآئِفِیْنَ۬ؕ               لَہُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّلَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ"

فرض فرض قطعی ہے کہ مسجد اوّل کو بھی مسجد رکھیں ۔“ (فتاوی خلیلیہ، جلد02، صفحہ 541، ضیاء القرآن پبلیشر، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: OKR-0088

تاریخ اجراء: 24 ربیع الاول 1447 ھ/18ستمبر 2520 ء