
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسجد میں بچوں کے آنے کے حوالے سے ہمیں تفصیلی معلومات عطا فرما دیں کہ کون سا بچہ مسجد میں آ سکتا ہے اور کون سا نہیں آ سکتا۔ جو بچہ اکثر مسجد میں آ کر شور کرتا رہتا ہو، اسے اور اس کے والد کو سمجھانے کے باوجود بھی اگر وہ شور اور مسجد کی بے ادبی سے باز نہ آتا ہو تو کیا اس بچےکو مسجد میں آنے سے روکا جاسکتا ہےیا نہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
بچوں کے مسجد میں آنے کے حوالے سے دو صورتیں ہیں: ایک صورت یہ ہے کہ بچہ ناسمجھ ہے تو ایسے بچے کے مسجد میں لانے سے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ اب اگر یہ ناسمجھ بچہ ایسا ہے کہ جس سے نجاست کا غالب گمان بھی ہے تو اب مسجد میں لانا مکروہ تحریمی ہوگا اور اگر ناسمجھ بچہ ایسا ہے کہ جس سے نجاست کا غالب گمان نہیں ہے تو یہ ممانعت کراہت تنزیہی تک رہے گی۔
دوسری صورت یہ ہے کہ بچہ سمجھدار ہے، سنِ تمییز تک پہنچ گیا، یہ عمر سات سال سے شروع ہوتی ہے تو ایسا بچہ یا اس سے زائد عمر کا بچہ اگر مسجد کے ادب کو پامال نہ کرے اور نمازیوں کی نماز میں خلل نہ ڈالے تو وہ مسجد میں آ سکتا ہے کہ سات سال کے بچے کیلئے والدین کو حکم ہے کہ وہ اسے نماز پڑھنے کا کہیں اور دس سال کا ہوجائے تو اسے ہلکی پھلکی مار کے ساتھ بھی نماز پڑھوانے کا حکم ہے، ظاہر ہے کہ جب بچے کو نماز کا حکم ہے تو بچوں کی تربیت کےلئے اسے مسجد میں آنے کی بھی اجازت ہے۔ نیز ایسے بچوں کی صف کا ذکر بھی محدثین کی تشریح کے مطابق حدیث میں موجود ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ سن تمییز تک پہنچنے والے یا اس سے زائد عمر کے بچے مسجد میں آ سکتے ہیں اور ان کی صف الگ بنائی جائے گی۔ اس کے علاوہ بھی متعدد احادیث ہیں جن میں بچوں کے مسجد میں آنے کا ذکر ہے۔
باقی رہی یہ بات کہ جو بچہ مسجد میں شورکرے اور ادب کو پامال کرے تو ایسا کرنے والا چاہے بچہ ہو یا بڑا، جب وہ نمازیوں کو اذیت دے رہا ہے اور مسجد کا ادب پامال کررہا ہے توکسی بڑے فتنے کا اندیشہ نہ ہو تو اسے مسجد میں آنے سے ضرور روکا جاسکتا ہے جب تک وہ اپنی اس قبیح حرکت سے باز نہ آ جائے۔
حدیث پاک میں ہے:
عن واثلة بن الأسقع،أن النبی صلى الله عليه وسلم قال:جنبوا مساجدكم صبيانكم، و مجانينكم، و شراءكم، و بيعكم، و خصوماتكم، و رفع أصواتكم، و اقامة حدودكم، وسل سيوفكم
ترجمہ: حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اپنی مساجد کو بچوں، پاگلوں، خرید و فروخت، جھگڑوں، اونچی آوازوں، حدود قائم کرنے اور تلوار کھینچنے سے بچاؤ۔ (سنن ابن ماجہ، صفحہ 174، مطبوعہ بیروت)
اتحاف الخیرۃ المھرۃ اورالمقاصد الحسنۃ میں اس حدیث پاک کے بارے میں ہے:
”و اللفظ للمقاصد“ و سنده ضعيف، و لكن له شاهد عند الطبرانی فی الكبير، والعقيلی وابن عدی بسند فيه العلاء بن كثير الشامی، وهو ضعيف من حديث مكحول، عن أبی الدرداء وأبی أمامة وواثلة“
ترجمہ: اس حدیث کی سند ضعیف ہے مگر امام طبرانی رحمہ اللہ نے المعجم الکبیر میں اس کا شاہد ذکرفرمایا ہے، اسی طرح امام عقیلی، امام ابن عدی نے ایسی سند کے ساتھ بیان کیا ہے جس میں علاء بن کثیرشامی راوی موجود ہے اور یہ ضعیف ہے اس حدیث میں جو حضرت مکحول نے ،حضرت ابو درداء، ابو امامہ اور حضرت واثلہ رضی اللہ عنھم اجمعین سے روایت کی ہیں۔ (المقاصد الحسنہ، جلد 2، صفحہ 360، مطبوعہ سعودیہ)
حدیث میں ”صبی“ سے مراد ناسمجھ بچہ ہے۔ امام اہلسنت امام احمدرضا خان رحمہ اللہ بچوں کو مسجد میں تعلیم دینے اور نہ دینے کے دو اقوال میں تطبیق کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
و التوفیق مااشرنا الیہ ان لوکانوا غیرما مونین علی المسجد لم یجز مطلقا والاجاز حسبۃً لاباجر والدلیل علیہ استدلالہ بالحدیث وقد قرنوافیہ بالمجانین فالمراد فی الحدیث من لایعقل اولایؤمن علیہ
ترجمہ: ان دونوں میں تطبیق وہ ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے کہ اگر بچوں سے مسجد میں نجاست کا غالب گمان ہے تو مطلقا جائز نہیں ہےورنہ بلااجرت پڑھانا جائز ہے، اجرت کےساتھ نہیں، اس تطبیق پر دلیل ،فقہاء کا حدیث سے استدلال ہے کہ صبی کے ساتھ مجنون کو بھی ملایا ہے تو حدیث میں صبی سے مراد وہ بچہ ہوگا جو عقل نہ رکھتا ہو یا اس سے نجاست کا غالب گمان ہو۔ (فتاوی رضویہ جلد 16، صفحہ 460، مطبوعہ رضا فاونڈیشن لاہور)
ناسمجھ بچہ سے نجاست کا غالب گمان ہو تو مسجد میں لانا، ناجائزوگناہ ہے ورنہ مکروہ تنزیہی ہے۔درمختار مع ردالمحتار میں ہے:
(يحرم إدخال صبيان ومجانين حيث غلب تنجيسهم)لما أخرجه المنذری مرفوعا:”جنبوا مساجد كم صبيانكم ومجانينكم، وبيعكم وشراءكم، ورفع أصواتكم، وسل سيوفكم، واقامة حدودكم، و جمروها فی الجمع، واجعلوا على أبوابها المطاهر“ بحر۔۔۔۔۔۔۔ (و إلا فيكره) أی تنزيها
ترجمہ:ناسمجھ بچوں اور پاگلوں کو مسجد میں لانا حرام ہے جب ان سے نجاست کا غالب گمان ہو،امام منذری رحمہ اللہ نے مرفوعا حدیث پاک کو ذکر کیا کہ: ”اپنی مساجد کو بچوں، پاگلوں، خریدوفروخت،اونچی آوازیں، تلوار کھینچنے، حدود قائم کرنے سے بچاؤ اور اجتماعات میں ان مساجد کو خوشبودار رکھواور ان کے دروازوں پر طہارت حاصل کرنےکے اسباب مہیا کرو۔“ اگر ان سے نجاست کا غالب گمان نہ ہو تو ان کا مسجد میں لانا مکروہ تنزیہی ہے۔ (ردالمحتار جلد 2، صفحہ 429، مطبوعہ بیروت)
امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”اگر نجاست کا ظن غالب ہوتو انہیں مسجد میں آنے دینا حرام اور حالت محتمل ومشکوک ہوتو مکروہ۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 16، صفحہ 458، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
سات سال کے بچے کو نماز کا حکم ہے کہ یہ اس کا سنِ تمییز ہے۔حدیث پاک میں ہے:
قال النبی عليه السلام: مروا الصبی بالصلاة إذا بلغ سبع سنين، واذا بلغ عشر سنين فاضربوه عليها
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو نماز نہ پڑھنے پر مارو۔ (سنن ابی داؤد، صفحہ 169، مطبوعہ بیروت)
اس حدیث پاک کے تحت شرح ابوداؤد للعینی میں ہے
و انما عين السنة السابعة لأنها سنة التمييز، ألا يرى أن الحضانة تسقط عند انتهاء الصبی الى سبع سنين؟
ترجمہ: حدیث پاک میں ساتویں سال کو معین کیا، کیونکہ یہی سال تمییز کا سال ہوتا ہے ،کیا تو نہیں دیکھتا کہ ماں کی پرورش کا دورانیہ بھی اس وقت ختم ہوجاتا ہے جب بچہ سات سال کا ہوجاتا ہے۔ (شرح ابی داؤد جلد 2، صفحہ 127، مطبوعہ بیروت)
حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:
أقل سن يعتبر فيه التمييز سبع سنين
ترجمہ: سب سے کم عمرجس میں تمییز کا اعتبار ہوتا ہے وہ سات سال کی ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، صفحہ 600، مطبوعہ بیروت)
مراہقین اور سن تمییز تک پہنچنے والے بچوں کی الگ سے صف بنانے کا حکم ہے۔ حدیث پاک میں ہے:
استووا ولا تختلفوا فتختلف قلوبكم ليلينی منكم أولوا الأحلام والنهى ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم
ترجمہ: صفیں سیدھی کرو، اس میں اختلاف نہ کرو، تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا ہوجائے گا،مجھ سے سب سے قریب وہ لوگ کھڑے ہوں جو عاقل وبالغ ہیں، پھر وہ جو، ان کے قریب ہوں، پھر وہ جو، ان کے قریب ہوں۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 432، صفحہ 217، مطبوعہ بیروت)
اس حدیث پاک کے تحت لمعات التنقیح اور مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
و اللفظ للمرقاۃ: (ثم الذين يلونهم): كالمراهقين، أو الذين يقربون الأولين في النهى و الحلم، (ثم الذين يلونهم): كالصبيان المميزين، أو الذين هم أنزل مرتبة من المتقدمين حلما و عقلا۔
ترجمہ: (پھر وہ جو، ان سے قریب ہوں) جیسے مراہقین یا وہ لوگ جو اگلی صف والوں سے عقل وحلم میں قریب ہوں۔ (پھر وہ جو، ان سے قریب ہوں) جیسے سن تمییز تک پہنچے ہوئے بچے، یا وہ لوگ جو اگلی صف والوں سے حلم وعقل میں کم درجے کے ہوں۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد 3، صفحہ 154، مطبوعہ بیروت)
مرآۃ المناجیح میں فرمایا: فقہاء جو فرماتے ہیں کہ نماز میں پہلے مردوں کی صف ہو، پھربچوں کی، پھر خنثوں کی، پھر عورتوں کی، اس کا ماخذ بھی یہی حدیث ہے۔ (مرآۃ المناجیح جلد 2، صفحہ 166، مطبوعہ لاہور)
عمدۃ القاری میں ہے:
أن الصبی اذا ملك نفسه وضبطها عن اللعب وعقل الصلاة وشرع له حضور العيد و غيره
ترجمہ:بچہ جب اپنے خود پرضبط کرنا سیکھنے لگےاور خود کو کھیل سے روکے اور نماز کو سمجھے تو اس کیلئے عیدکی نماز اور اس کے علاوہ اجتماعات میں حاضر ہونا، مشروع وجائزہے۔ (عمدۃ القاری جلد 6، صفحہ 223، مطبوعہ بیروت)
شور کرنے والے اور مسجد کا ادب پامال کرنے والے چاہے بچے ہوں یا بوڑھے ہوں، سب کومسجد میں آنے سے روکا جاسکتا ہے۔ امام اہلسنت امام احمدرضا خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”اگر بچے بلکہ بوڑھے بھی بے تمیز، نامہذب ہوں غل مچائیں، بے حرمتی کریں، مسجد میں نہ آنے دئے جائیں۔۔۔۔۔ اور اگر ایسے نہ ہوں تو انہیں مسجد میں غیر اوقاتِ نماز میں پڑھانا مضائقہ نہیں رکھتا۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 16، صفحہ 458، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور(
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابومحمد محمد فراز عطاری مدنی
مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: OKR-0080
تاریخ اجراء: 18 ربیع الاول 1447ھ/ 12 ستمبر 2025ء