کیا مسجد میں دنیاوی میسج پڑھ سکتے ہیں؟

مسجد میں دنیاوی میسج پڑھنا کیسا ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ کہا جاتا ہے کہ مسجد میں دنیاوی گفتگو کرنا نیکیوں کو کھاجاتا ہے، تو کیا مسجد میں دنیاوی گفتگو پر مشتمل تحریر پڑھنا یا میسج کرنا بھی اسی حکم میں شامل ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

اولاً مسجد میں دنیاوی باتیں کرنے کے حوالہ سے حکم ذہن نشین کر لیجئے کہ دنیاوی باتیں کرنے کے لئے مسجد میں جانا اور اسی مقصد کے لئے وہاں جا کر بیٹھنا مکروہِ تحریمی، ناجائز اور گناہ ہے، اسی بارے میں کہا گیا ہے کہ مسجد میں دنیاوی باتیں کرنا نیکیوں کو کھا جاتا/ختم کر دیتا ہے۔البتہ اگر کوئی نماز وغیرہ عبادت کے لئے مسجد میں جاتا ہے اور ضمناًکوئی جائز دنیاوی بات کر لیتا ہے، تو یہ عمل بھی اگرچہ مکروہِ تنزیہی اور ناپسندیدہ ہے، لیکن یہ مذکورہ (نیکیاں ختم ہوجانے والی)وعید کے تحت داخل نہیں، نیز یہ حکم بھی عینِ مسجد کا ہے، فنائے مسجد میں دنیا کی جائز قلیل بات کر لینے میں حرج نہیں، جبکہ وہ جھگڑے اور کسی کی ایذا کا باعث نہ بنے۔

اور جہاں تک سوال کا تعلق ہے، تو یاد رہے کہ جو حکم دنیاوی گفتگو کا ہے، وہی دنیاوی گفتگو پر مشتمل تحریر پڑھنے یا میسج کرنے کا بھی ہے، یعنی اگر کوئی اسی کام کے لئے مسجد میں جاتا ہے، تو یہ ناجائز و گناہ اور نیکیاں ختم ہوجانے والی وعید میں داخل ہے، لیکن اگر عبادت کے لئے جاتا ہے اور ضمناً یہ کام کر لیتا ہے، تومذکورہ وعید میں داخل نہیں، لیکن مکروہِ تنزیہی اور ناپسندیدہ  ضرور ہوگا، کیونکہ اس مسئلہ کی علت یہ بیان کی گئی کہ مساجد اللہ تعالی کی عبادت کے لئے بنائی جاتی ہیں، مذکورہ کاموں کے لئے نہیں اور یہ علت دنیاوی گفتگو پر مشتمل تحریر پڑھنے اور میسج کرنے میں بھی پائی جاتی ہے، لہذا اس کا حکم بھی یہی ہوگا، اسی وجہ سے  علماء نے دنیاوی مطلب کے حصول کے لئے  مسجدمیں کوئی عمل کرنے سے بھی بچنے کا کہا ہے۔ہاں! فنائے مسجد میں کچھ جائز تحریر پڑھنے یا میسج کر لینے میں حرج نہیں۔

نبی کریم رؤوف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’ياتی على الناس زمان يكون حديثهم فی مساجدهم فی امر دنياهم، فلا تجالسوهم، فليس لله فيهم حاجة‘‘

 ترجمہ: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ ان کی دنیاوی گفتگو مساجد میں ہو گی، پس تم ان کے پاس نہ بیٹھو، اللہ تعالی کو ان کی کوئی حاجت نہیں ۔ (شعب الایمان، ج4، ص387، مطبوعہ، مکتبۃ الرشد)

امام محمد بن محمد الغزالی علیہ الرحمۃ نے ایک روایت نقل کی ہے:

’’الحديث فی المسجد ياكل الحسنات كما تاكل البهيمة الحشيش‘‘

ترجمہ: مسجد میں گفتگو نیکیوں کو کھاجاتی ہے، جیسے چوپایا گھاس کو کھا جاتا ہے۔ (احیاء علوم الدین، ج1، ص152، مطبوعہ، دار المعرفہ، بیروت)

مسجد میں گفتگو کے لئے جانا مکروہ ہے اور یہ عمل نیکیوں کو کھا جاتا/ختم کر دیتا ہے۔چنانچہ درر الحکام شرح غرر الاحکام اور البحر الرائق شرح کنز الدقائق میں ہے:

واللفظ للاٰخر’’وصرح فی الظهيرية بكراهة الحديث ای كلام الناس فی المسجد، لكن قيده بان يجلس لاجله وفی فتح القدير:  الكلام المباح فيه مكروه ياكل الحسنات وينبغی تقييده بما فی الظهيرية، اما ان جلس للعبادة، ثم بعدها تكلم فلا‘‘

 ترجمہ: فتاوی ظہیریہ میں صراحت کی گئی ہے کہ مسجد میں گفتگو یعنی لوگوں کا کلام مکروہ ہے، لیکن مصنف نے اسے اس صورت کے ساتھ مقید کیا ہے کہ بندہ اسی مقصد کے لئے بیٹھے اور فتح القدیر میں ہے: مسجد میں مباح باتیں مکروہ ہیں جو نیکیوں کو کھا جاتی ہیں۔ مناسب یہ ہے کہ اسے بھی اسی صورت کے ساتھ خاص کیا جائے، جو فتاوی ظہیریہ میں ہے۔ بہرحال اگر عبادت کے لئے بیٹھا، پھر اس کے بعد گفتگو کر لی، تو اس کا معاملہ اس جیسا نہیں۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق، ج 2، ص 39، مطبوعہ، دار الكتاب الاسلامی)

اس مسئلہ میں کراہت کی تفصیل بیان کرتے ہوئے علامہ شامی علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:

’’وظاهر الوعيد ان الكراهة فيه تحريمية‘‘

 ترجمہ: اس وعید کا ظاہر یہ ہے کہ یہاں کراہت تحریمی ہے۔ (فتاوی شامی، ج2، ص450، مطبوعہ، دار الفکر، بیروت)

غز عیون البصائر، فتاوی شامی اور فتاوی ہندیہ میں اس مسئلہ کی علت یوں بیان کی گئی ہے:

واللفظ للھندیہ ’’الجلوس فی المسجد للحديث لا يباح بالاتفاق، لان المسجد ما بنی لامور الدنيا‘‘

ترجمہ:  مسجد میں بات چیت کے لیے بیٹھنا بالاتفاق جائز نہیں، کیونکہ مسجد دنیاوی کاموں کے لیے نہیں بنائی گئی ۔  (فتاوی ہندیہ، ج05، ص321، مطبوعہ، دار الفکر)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ارشاد فرماتے ہیں: ’’مسجد میں شورو شر کرنا حرام ہے اور دنیوی بات کے لئے مسجد میں بیٹھنا حرام اور نماز کے لئے جاکر دنیوی تذکرہ مسجد میں مکروہ۔‘‘ (فتاوی رضویہ، ج8، ص112، مطبوعہ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

مزید ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں: ’’دنیا کی باتوں کے لئے مسجدمیں جاکر بیٹھنا حرام ہے۔ اشباہ ونظائر میں فتح القدیر سے نقل فرمایا: مسجد میں دنیا کی کلام نیکیوں کو ایسا کھاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔یہ مباح باتوں کا حکم ہے، پھر اگر باتیں خود بری ہوئیں، تو اس کا کیا ذکر ہے، دونوں سخت حرام در حرام، موجبِ عذابِ شدید ہے ۔ (فتاوی رضویہ، ج8، ص112، مطبوعہ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

فنائے مسجد میں دنیوی جائز قلیل بات کی مخصوص شرائط کی موجودگی میں اجازت ہے۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ارشاد فرماتے ہیں: ’’فصیلِ مسجد بعض باتوں میں حکمِ مسجد میں ہے، معتکف بلا ضرورت اس پر جا سکتا ہے، اس پر تھوکنے یا ناک صاف کرنے یا نجاست ڈالنے کی اجازت نہیں، بیہودہ باتیں، قہقہے سے ہنسنا وہاں بھی نہ چاہئے اور بعض باتوں میں حکمِ مسجد نہیں، اس پر اذان دیں گے، اس پر بیٹھ کر وضو کر سکتے ہیں، جب تک مسجد میں جگہ باقی ہو، اس پر نمازِ فرض میں مسجد کا ثواب نہیں، دنیا کی جائز قلیل بات جس میں چپقلش ہو نہ کسی نمازی یا ذاکر کی ایذا، اس میں حرج نہیں۔‘‘ (فتاوی رضویہ، ج 16، ص 495، مطبوعہ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

مسجد میں دنیاوی مقصد کے لئے کوئی عمل کرنے سے بچنا چاہیے۔چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے سوال ہوا:  اعمالِ حب وبغض وحاجات وغیرہ مسجدمیں پڑھے جائیں یا خارج؟ بعض کہتے ہیں مسجد میں پڑھنے سے عبادت میں شمار ہوتے ہیں؟

تو اس کے جواب میں ارشاد فرمایا:  اعمال مسجد وخارج مسجد دونوں جگہ جائز ہیں، جبکہ اس کے لئے مسجد کی جگہ نہ روکے، کہ یہ جائز نہیں اور وہ عمل بھی جائز ہو اور اس سے مقصود بھی امر جائز ہو اور اگر عمل اصلاً یا قصداً ناجائز ہو، تو مسجد میں اور بھی سخت تر حکم رکھے گا، مثلاً زن وشو میں بغض پیدا کرنا، اس کے لئے عمل حرام ہے، تو اسے مسجد میں پڑھنا حرام تر ہوگا، یوہیں اعمالِ سفلیہ کہ اصل میں حرام ہیں، مقصود محمود کے لئے بھی مسجد میں حرام تر ہوں گے، پھر جو جائز عمل جائز نیت سے ہے، اس میں حالتیں دو ہیں۔ایک اہل علم کی:  کہ وہ اسماء الٰہیہ سے تو سل اور اپنے جائز مقصد کے لئے اللہ عزوجل کی طرف تضرع کرتے ہیں یہ دعا ہے اور دعا مغز عبادت ہے، مسجد میں ہو خواہ دوسری جگہ۔ دو م: عوام نافہم: کہ ان کا مطمحِ نظر اپنا مطلب دنیوی ہوتاہے اور عمل کو نہ بطور دعا، بلکہ بطورِ تد بیر بجالاتے ہیں ولہذا جب اثر نہ دیکھیں، اس سے بے اعتقاد ہوجاتے ہیں، اگر دعا سمجھتے، بے اعتقادی کے کیا معنٰی تھے، کہ حاکم پر حکم کس کا، ایسے اعمال نہ مسجد میں عبادت ہوسکتے ہیں، نہ غیر میں، بلکہ جب کسی دنیوی مطلب کے لئے ہوں، مسجد میں نہ پڑھنا چاہئے

’’فان المساجد لم تبن لھذہ‘‘

ترجمہ: اس لئے کہ مساجد اس کام کے لئے نہیں بنائی گئیں۔‘‘(فتاوی رضویہ، ج23، ص398، مطبوعہ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب : محمد فرحان افضل عطاری

مصد ق: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر : FSD-9455

تاریخ اجراء  04ربیع الاول1447ھ29اگست2025ء