میٹرس پر نماز پڑھ سکتے ہیں؟

میٹرس پر نماز پڑھنے کا حکم

دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا جگہ کم ہونے کی وجہ سے عورت میٹرس پر نماز پڑھ سکتی ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

اگر میٹرس ایسا ہے کہ جس پر سجدہ کرنے میں پیشانی خوب نہیں جمتی اور مزید دبانے سے وہ میٹرس دبتا ہے، تو ایسے میٹرس پر سجدہ کرنے سے سجدہ نہیں ہوگا، جس کی وجہ سے نماز نہیں ہوگی اور اگر پیشانی تو خوب جَم جائے، لیکن ناک کی ہڈی تک نہ جمے، تو اب نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوگی یعنی ایسی نماز کو دوبارہ پڑھنا واجب ہوگا۔ لہذا اگر جگہ کم ہو تو اس میٹرس کو ہٹا دیا جائے اور زمین پر نماز پڑھ لی جائے، جبکہ زمین پاک صاف ہو، کہ جائے نماز بچھائے بغیر بھی زمین پر نماز پڑھ سکتے ہیں، بلکہ افضل بھی یہی ہے کہ جائے نماز وغیرہ بچھائے بغیر زمین پر ہی نماز پڑھی جائے کہ اس میں عاجزی زیادہ ہے۔ البتہ! اگر میٹرس ایسا ہے کہ جس پر سجدہ کرنے سے پیشانی اور ناک کی ہڈی خوب جم جاتی ہو کہ مزید دبانے سے نہ دبے اور زمین کی سختی کو محسوس کرے، تو پھر ایسے میٹرس پر سجدہ کرنا جائز ہوگا اور جب سجدہ کرنا جائز ہے، تو اس پر نماز پڑھنے سے نماز بھی ہوجائے گی جبکہ کوئی اور مانع نماز نہ پایا جائے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے

”ولو سجد على الحشيش أو التبن أو على القطن أو الطنفسة أو الثلج إن استقرت جبهته وأنفه ويجد حجمه يجوز وإن لم تستقر لا“

 ترجمہ: اور اگر گھاس، بھوسے، روئی، کپڑے یا برف پر سجدہ کیا، تو اگر سجدہ کرنے والے کی پیشانی اور ناک جم گئی اور وہ اس کی سختی کومحسوس کرے، تو اس پر سجدہ جائز ہوگا اور اگر پیشانی نہ جمے تو جائز نہیں۔ (الفتاوی الھندیۃ، جلد1، صفحہ70، مطبوعہ: بیروت)

فتاوی رضویہ میں سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ”اصل ان مسائل میں یہ ہے کہ جو چیز ایسی ہو کہ سجدہ میں سر اس پر مستقر ہوجائے یعنی اس کا دبنا ایک حد پر ٹھہرجائے کہ پھر کسی قدر مبالغہ کریں، اس سے زائد نہ دبے ایسی چیز پر نماز جائز ہے۔۔۔ علامہ ابراہیم حلبی غنیہ میں فرماتے ہیں: "ضابطہ ان لا یتسفل بالتسفیل، فحینئذ جاز سجودہ علیہ۔" ( اس کا ضابطہ یہ ہے کہ اگر دبانے سے نیچے نہ دبے، تواس صورت میں اس پر سجدہ جائز ہے۔ )(فتاوی رضویہ، جلد 5، صفحہ 346، 347، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

بہار شریعت میں ہے ”کسی نرم چیز مثلاً گھاس، روئی، قالین وغیرہا پر سجدہ کیا، تو اگر پیشانی جم گئی یعنی اتنی دبی کہ اب دبانے سے نہ دبے، تو جائز ہے، ورنہ نہیں۔ بعض جگہ جاڑوں میں مسجد میں پیال بچھاتے ہیں، ان لوگوں کو سجدہ کرنے میں اس کا لحاظ بہت ضروری ہے کہ اگر پیشانی خوب نہ دبی، تو نماز ہی نہ ہوئی اور ناک ہڈی تک نہ دبی، تو مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوئی، کمانی دار گدّے پر سجدہ میں پیشانی خوب نہیں دبتی، لہٰذا نماز نہ ہوگی، ریل کے بعض درجوں میں بعض گاڑیوں میں اسی قسم کے گدّے ہوتے ہیں اس گدّے سے اتر کر نماز پڑھنی چاہیے۔“ (بہار شریعت، جلد 01، حصہ 03، صفحہ 514، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے

”الصلاة على الأرض أفضل۔۔۔ لأن الصلاة سرها التواضع والخشوع وذلك في مباشرة الأرض أظهر وأتم“

 یعنی: (عذر نہ ہو تو) زمین پر نماز پڑھنا افضل ہے؛اس لئے کہ نماز کا راز تواضع اورخشوع ہے اور تواضع و خشوع کا حصول زمین پر ہی اظہر و اتم ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، صفحہ 268، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب : مولانا احمد سلیم عطاری مدنی

فتوی نمبر : WAT-4443

تاریخ اجراء : 26جمادی الاولی1447 ھ/18نومبر2025 ء