
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلہ کے بارے میں کہ اگرکسی نے گھرکے ایک کمرے میں بیٹھ کرآیتِ سجدہ پڑھی، جس کی وجہ سے اس پرسجدۂ تلاوت واجب ہو گیا، پھر دوسرے کمرے میں بیٹھ کر وہی آیت دوبارہ پڑھی ،تو کیادو سجدے لازم ہوں گے یا دونوں کے لیے ایک سجدۂ تلاوت ہی کافی ہوگا؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
قوانینِ شرعیہ کے مطابق ایک آیتِ سجدہ کو ایک ہی مجلس ( مقام) میں جتنی دفعہ بھی پڑھا جائے، ایک ہی سجدۂ تلاوت واجب ہوتا ہے، لیکن اگر ایک آیت کو مختلف مجالس و مقامات میں پڑھا جائے، تو اتنے ہی سجدے واجب ہوں گے اور فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق گھر ایک کونے سے دوسرے کونے تک، یونہی ا س کے تمام کمرے ایک ہی مجلس شمار ہوتے ہیں، لہٰذا اگر ایک ہی گھر کے مختلف کمروں میں ایک ہی آیتِ سجدہ تلاوت کی، تو صرف ایک سجدۂ تلاوت واجب ہوگا، ہاں! اگر گھر بہت بڑا ہو، جیسے شاہی محل وغیرہ، تو اس کا حکم جداگانہ ہوگا۔
یاد رہے! ایک گھر کے مختلف کمروں میں ایک ہی آیتِ سجدہ تلاوت کرنے کی صورت میں مجلس تبدیل نہ ہونے کا حکم صرف اسی صورت میں ہے، جبکہ مجلس کی تبدیلی کا کوئی اور سبب نہ پایا جائے، لیکن اگر کسی نے گھر کے مختلف کمروں میں ایک ہی آیتِ سجدہ کی تلاوت کی، مگر درمیان میں کوئی ایسا عمل کیا، جس سے مجلس تبدیل ہو جاتی ہے، مثلاً ایک دفعہ تلاوت کے بعد دو لقموں سے زیادہ کھانا کھا لیا، لیٹ کر سو گیا یا سامان وغیرہ لینے چلا گیا، وغیرہ، تو اب اگرچہ اسی جگہ پر اسی آیتِ سجدہ کی دوبارہ تلاوت کرے، دوسرا سجدۂ تلاوت واجب ہوگا۔
ایک ہی مجلس میں ایک ہی آیتِ سجدہ کو جتنی دفعہ بھی پڑھا جائے،ایک ہی سجدۂ تلاوت کافی ہے، چنانچہ تنویر الابصار و در مختار میں ہے:
(و لو کررھا فی مجلسین،تکررت،و فی مجلس) واحد (لا) تتکرر بل کفتہ واحدۃ...و الأصل أن مبناها على التداخل دفعا للحرج بشرط اتحاد الآية و المجلس
ترجمہ: اگر کسی نے دو مجلسوں میں(ایک ہی) آیتِ سجدہ کا تکرار کیا، تو اس پر اتنے ہی سجدے واجب ہوں گے اور اگر ایک ہی مجلس میں (ایک) آیتِ سجدہ کی تکرار کی، تو اس کے لیے ایک ہی سجدۂ تلاوت کافی ہوگا اور سجدۂ تلاوت کے واجب ہونے میں اصل تداخل ہے،تاکہ حرج کو دور کیا جا سکے، بشرطیکہ آیت اور مجلس ایک ہی ہو۔ (تنویر الابصار و در مختار، کتاب الصلاۃ، جلد 2، صفحہ 712، 713، مطبوعہ کوئٹہ)
مذکورہ بالا عبارت’’بشرط اتحاد الآیۃ والمجلس‘‘ کے تحت رد المحتار میں ہے:
أي بأن يكون المكرر آية واحدة في مجلس واحد، فلو تلا آيتين في مجلس واحد أو آية واحدة في مجلسين فلا تداخل
ترجمہ: یعنی ایک مجلس میں ایک آیت کو بار بار پڑھا جائے،لہٰذا اگر ایک مجلس میں دو آیتوں کی تلاوت کی،یاایک آیت کی تلاوت دو مجلسوں میں کی تو اب تداخل نہیں ہوگا (یعنی ایک سجدہ کافی نہ ہوگا)۔(رد المحتار، کتاب الصلاۃ، جلد 2، صفحہ 713، مطبوعہ کوئٹہ)
بہار شریعت میں ہے: ’’ایک مجلس میں سجدہ کی ایک آیت کو بار بار پڑھا یا سنا،تو ایک ہی سجدہ واجب ہوگا، اگرچہ چند شخصوں سے سنا ہو۔۔۔ مجلس میں آیت پڑھی یا سُنی اور سجدہ کر لیا، پھر اسی مجلس میں وہی آیت پڑھی یا سُنی تو وہی پہلا سجدہ کافی ہے۔‘‘ (بھار شریعت، جلد 1، حصہ 4، صفحہ 735، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
گھر ایک کونے سے دوسرے کونے تک ایک ہی مجلس شمار ہوتا ہے، چنانچہ غنیۃ المتملی ، درمختار ، فتاویٰ عالمگیری وغیرہا کتبِ فقہ میں ہے،
و اللفظ للاوّل: و الاتحاد الحقیقی ظاھر، و الحکمی ھو الکائن بین اجزاء ما یطلق مکان واحد عرفاً کالمسجد و البیت و الحانوت، و کذا مشی اقل من ثلاث خطوات فی نحو الصحراء اذا عرفت ھذا فان وجد الاتحاد عند تکرار آیۃ السجدۃ حقیقۃً و حکماً او حکماً وجد التداخل وکفت سجدۃ واحدۃ والا لا، فمن ثم قالوا:... انتقل من زاویۃ البیت او المسجد الی زاویۃ اخری... ثم کررھا کفتہ سجدۃ واحدۃ
ترجمہ: حقیقتاً مجلس کا ایک ہونا،تو ظاہر ہے اور حکمی طور پر مجلس کے ایک ہونے سے مراد ایسے اجزا (مقامات)کا مجموعہ جن پر عرفی طور پر مکانِ واحد کا اطلاق کیا جاتا ہے ، جیسے مسجد ، مکان اور دوکان،یونہی میدان میں تین قدموں سے کم چلنا (بھی حکماً مجلسِ واحد ہے) اور جب تم نے یہ جان لیا، تو جب بھی کسی ایک آیتِ سجدہ کا تکرار حقیقتاً اور حکماً یا صرف حکماً ایک مجلس میں پایا جائے گا، تو تداخل ہوگا اور ایک سجدہ کافی ہوگا،وگرنہ نہیں۔ اسی وجہ سے فقہائے کرام نے فرمایا: اگر کوئی شخص ایک ہی آیتِ سجدہ کی تکرار کرتے ہوئے مکان یا مسجد کے ایک کونے سے دوسرے کونے کی طرف گیا ، تو ایک ہی سجدۂ تلاوت کافی ہے۔(غنیۃ المتملی، فصل فی سجدۃ التلاوۃ، جلد 3، صفحہ 28، مطبوعہ الجامعۃ الاسلامیۃ، ھند)
فتاویٰ قاضی خان اور خلاصۃ الفتاویٰ میں ہے:
واللفظ للثانی : و لو انتقل من زاویۃ المسجد او البیت الی زاویۃ اخری لا یتبدل المکان الا اذا کانت الدار کبیرۃ کدار السلطان . و لو انتقل في المسجد الجامع من زاوية الي زاوية لا يتكرر الوجوب ، ولو انتقل من دار الي دار ففي كل موضع يصح الاقتداء يجعل كمكان واحد و لا يتكرر الوجوب
ترجمہ: اگر کوئی شخص مسجد یا مکان کے ایک کونے سے دوسرے کونے کی طرف گیا، تو مجلس نہیں بدلے گی، مگر جب کہ گھر بہت بڑا ہو ، جیسے شاہی محل۔ اور اگر کوئی بڑی مسجد کے ایک گوشے سے دوسرے گوشے کی طرف گیا ، تو (دوبارہ آیتِ سجدہ پڑھنے کے سبب) دوبارہ سجدۂ تلاوت واجب نہیں ہوگا اور اگر ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف گیا اور ان گھروں کے درمیان فاصلہ اتنا ہے کہ اقتدا درست ہو سکتی ہے، تو یہ ساری جگہ مکانِ واحد کہلائے گی اور دوبارہ سجدۂ تلاوت واجب نہیں ہوگا۔ (خلاصۃ الفتاویٰ، فصل فی وجوب سجدۃ التلاوۃ، جلد 1، صفحہ 189، مطبوعہ کوئٹہ)
علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1252ھ/ 1836ء) فتاویٰ قاضی خان اور خلاصۃ الفتاویٰ کی عبارات کامفاد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
(قوله بخلاف زوايا مسجد) أي ولو كبيرا على الأوجه و كذا البيت. وفي الخانية والخلاصة إلا إذا كانت الدار كبيرة كدار السلطان. حلية وظاهر أن الدار التي دونها لها حكم البيت وإن اشتملت على بيوت
ترجمہ: شارح علیہ الرحمۃ کا قول: "بر خلاف مسجد کے گوشوں کے" یعنی اگرچہ مسجد بڑی ہی ہو، زیادہ موافق قول کے مطابق (اس کے تمام گوشے مکانِ واحد ہیں)، یہی حکم مکان یعنی کمرے کا ہے۔ اور خانیہ اور خلاصۃ الفتاویٰ میں ہے: مگر یہ کہ گھر بہت بڑا ہو، جیسے شاہی محل (تو وہ مکانِ واحد کے حکم میں نہیں ہوگا)، حلیہ۔ اور ظاہر یہ ہے کہ جو گھر شاہی محل سے چھوٹا ہو، اگرچہ کئی کمروں پر مشتمل ہو، اس کا حکم کمرے والا ہوگا (یعنی وہ سارا گھر ایک ہی مجلس و مکان شمار ہوگا اور مختلف کمروں میں ایک آیتِ سجدہ پڑھنے کے سبب ایک ہی سجدۂ تلاوت لازم ہوگا)۔ (رد المحتار، باب سجود التلاوۃ، جلد 2، صفحہ 715، مطبوعہ کوئٹہ)
بہارِ شریعت میں ہے: ”دو ایک لقمہ کھانے، دو ایک گھونٹ پینے، کھڑے ہوجانے،دوایک قدم چلنے، سلام کا جواب دینے،دو ایک بات کرنے، مکان کے ایک گوشہ سے دوسرے کی طرف چلے جانے سے مجلس نہ بدلے گی، ہاں اگر مکان بڑا ہے جیسے شاہی محل تو ایسے مکان میں ایک گوشہ سے دوسرے میں جانے سے مجلس بدل جائے گی۔ کشتی میں ہے اور کشتی چل رہی ہے، مجلس نہ بدلے گی۔ ریل کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے، جانور پرسوار ہے اور وہ چل رہا ہے تو مجلس بدل رہی ہے ہاں اگر سواری پر نماز پڑھ رہا ہے تو نہ بدلے گی، تین لقمے کھانے، تین گھونٹ پینے، تین کلمے بولنے ، تین قدم میدان میں چلنے، نکاح یا خرید و فروخت کرنے، لیٹ کر سو جانے سے مجلس بدل جائے گی“۔ (بھارِ شریعت، حصہ 4، صفحہ 736، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-9261
تاریخ اجراء: 11جمادی الثانی1446ھ/14دسمبر2024ء