مسافر امام کے پیچھے مقیم مقتدی اور مسبوق کی قراءت

مسافر امام کے پیچھے مقیم مقتدی اور مسبوق باقی رکعتوں میں سورہ پڑھے گا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر مسافر امام کے پیچھے مقیم مقتدی نے نماز عصر ادا کی تو مسافر امام کی نماز کے ختم ہونے کے بعد مقتدی اپنی بقیہ دو رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھے گا یا نہیں؟ مسافر امام کے پیچھے مقیم مسبوق اپنی نماز کس طرح مکمل کرے گا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

چار رکعت والی کسی بھی نماز میں اگر مقیم مقتدی، مسافر امام کے ساتھ دو رکعت ادا کرے، تو مسافر امام کے ساتھ دو رکعت ادا کرلینے کے بعد مقیم مقتدی اپنی بقیہ دو رکعتوں کی ادائیگی میں مطلقاً کچھ بھی قراءت نہیں کرے گا، بلکہ جتنی دیر میں سورہ فاتحہ پڑھی جاتی ہے، اُتنی دیر تک خاموش کھڑا رہے گا اور رکوع و سجدے کے ساتھ تیسری رکعت اور پھر اسی طرح چوتھی رکعت ادا کرکے آخر میں تشہد، درود و دعا پڑھ کر سلام پھیرے گا، کیونکہ مقیم مقتدی اُن آخری دو رکعتوں میں لاحق ہوگا جو کہ حقیقی مقتدی کی طرح ہوتا ہے اور امام کے پیچھے قراءت نہیں کرتا ہے، لہذا وہ بھی قراءت نہیں کرے گا۔

رہی بات مسافر امام کے پیچھے مقیم مسبوق کی نماز کی، یعنی مسافر امام کے ایک رکعت ادا کرلینے، یا دوسری رکعت کے بھی رکوع کے بعد مقیم اس کے ساتھ شریک ہوا ہو، تو یہ مقیم مقتدی کے لاحق مسبوق ہونے کی صورت ہوگی، اور لاحق مسبوق کیلئے حکم یہ ہے کہ اولاً وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد بغیر کچھ قراءت کے وہ رکعتیں ادا کرے جس میں وہ لاحق ہے، پھر اس کے بعد سورہ فاتحہ اور سورت کی قراءت کے ساتھ وہ رکعتیں ادا کرے جس میں وہ مسبوق ہے، جیسے اگر مسافر امام کے ایک رکعت ادا کرلینے کے بعد مقیم مقتدی اس کے ساتھ شامل ہوا ہو، تو مسافر امام کے سلام کے بعد مقیم مقتدی پہلے ایک رکعت بغیر قراءت کے ادا کر کے قعدے میں بیٹھے گا کہ یہ اُس کی دوسری رکعت ہے، پھر اس کے بعد بغیر قراءت کے ایک اور رکعت ادا کر کے اس پر بھی بیٹھے گا کہ یہ اگر چہ مقیم کے حق میں دوسری رکعت ہے، لیکن امام کے حساب سے یہ چوتھی رکعت ہے اور لاحق کیلئے اپنی فوت شدہ رکعات کو امام کی ترتیب پر ادا کرنا لازم ہوتا ہے، پھر اس کے بعد تیسری رکعت کو سورہ فاتحہ اور سورت کی قراءت کے ساتھ ادا کرے گا کہ یہ وہ رکعت ہے جس میں وہ مقیم مسبوق ہوا تھا، اور اس رکعت کے آخر میں قعدہ کرکے سلام پھیردے گا کہ یہ اس کی چوتھی رکعت ہے۔

مقیم شخص، مسافر امام کے پیچھے نماز ادا کرے تو اس کی حیثیت لاحق کی ہوگی، لہذا وہ بقیہ رَہ جانے والی رکعتوں میں قراءت نہیں کرے گا، چنانچہ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

و اللاحق هو من دخل معه وفاته كلها أو بعضها بأن عرض له نوم أو غفلة أو زحمة أو سبق حدث أو كان مقيما خلف مسافر و حكمه كمؤتم حقيقة فلا يأتی فيما يقضي بقراءة

ترجمہ: اور لاحق مقتدی وہ ہے جو امام کے ساتھ نماز میں شریک ہو اور (پھر اقتدا کے بعد)اس کی ساری رکعتیں یا کچھ فوت ہوجائیں، اس طرح کہ اُسے نیند آجائے، یا غفلت، یا زحمت، یا بے وضو ہوجانے کے سبب ،یا وہ مسافر امام کے پیچھے مقیم ہو۔ اور لاحق کا حکم حقیقی مقتدی کی طرح ہے تو وہ اپنی رَہ جانے والی رکعتوں میں قراءت نہیں کرے گا۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، جلد 1، صفحہ 309، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

اگر مقیم شخص، مسافر امام کے ساتھ ایک رکعت ادا کرلینے، یا اس کے بھی بعد شامل ہو، تو اس کی حیثیت لاحق مسبوق کی ہوگی، چنانچہ بحر الرائق میں ہے:

و أما اللاحق المسبوق فهو من لم يدرك الركعة الأولى مع الإمام وفاته بعد الشروع ركعة أو أكثر

ترجمہ: اور بہرحال لاحق مسبوق تو یہ وہ شخص ہے جس نے امام کے ساتھ پہلی رکعت نہ پائی اور امام کے ساتھ نماز شروع کرنے کے بعد ایک یا زیادہ رکعتیں فوت ہوگئیں۔ (البحر الرائق، جلد 1، صفحہ 378،دار الکتاب الاسلامی، بیروت)

در مختار مع رد المحتارمیں ہے:

(مقیم ائتم بمسافر) أي فهو لاحق بالنظر للاخیرتین و قد یکون مسبوقا ایضا کما اذا فاتہ اول صلاۃ امامہ المسافر

ترجمہ: اگر مقیم نے مسافر کی اقتداء کی تو وہ آخری رکعتوں کے لحاظ سے لاحق ہے اور کبھی وہ مسبوق بھی ہوتاہے جیسا کہ جب مسافر امام کی نماز کی پہلی رکعت اس سے فوت ہوجائے۔ (در مختار مع رد المحتار، جلد 2، صفحہ 414، دار المعرفۃ، بیروت)

لاحق مسبوق پہلے بغیر قراءت کے وہ رکعتیں ادا کرے گا جن میں وہ لاحق ہے، پھر وہ رکعتیں قراءت کے ساتھ پڑھے گا جن میں وہ مسبوق ہوا تھا، رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

في شرح المنية وشرح المجمع أنه لو سبق بركعة من ذوات الأربع و نام في ركعتين يصلي أولا ما نام فيه ثم ما أدركه مع الإمام ثم ما سبق به فيصلي ركعة مما نام فيه مع الإمام و يقعد متابعة له لأنها ثانية إمامه ثم يصلي الأخرى مما نام فيه، و يقعد لأنها ثانيته ثم يصلي التي انتبه فيها، و يقعد متابعة لإمامه لأنها رابعة، و كل ذلك بغير قراءة لأنه مقتد ثم يصلي الركعة التي سبق بها بقراءة الفاتحة و سورة و الأصل أن اللاحق يصلي على ترتيب صلاة الإمام، و المسبوق يقضي ما سبق به بعد فراغ الإمام

ترجمہ: شرح المنیہ اور شرح المجمع میں ہے کہ اگر کوئی چار رکعت والی نماز میں ایک رکعت کے ساتھ مسبوق ہوجائے، اور دو رکعتوں میں سوتا رہ جائے، تو پہلے وہ رکعتیں پڑھے جن میں وہ سوگیا تھا ، پھر وہ پڑھے جو امام کے ساتھ پائی، پھر وہ پڑھے جس میں وہ مسبوق ہوا۔ لہذا پہلے وہ رکعت پڑھے گا جس میں وہ امام کے ساتھ اقتدا میں سوگیا تھا ،اور اس میں امام کی پیروی کرتے ہوئے بیٹھے گا، کیونکہ وہ امام کی دوسری رکعت ہے۔ پھر وہ دوسری رکعت پڑھے گا جس میں سویا، اور اس میں بیٹھے گا کیونکہ وہ اس کی اپنی دوسری رکعت ہے۔ پھر وہ رکعت پڑھے گا جس میں وہ بیدار ہوگیا، اور اس میں امام کی پیروی کرتے ہوئے بیٹھے گا، کیونکہ وہ امام کی چوتھی رکعت ہے۔ اور یہ سب رکعتیں بغیر قراءت (یعنی بغیر سورۂ فاتحہ اور سورت) کے ہوں گی کیونکہ وہ مقتدی ہے۔ پھر (آخر میں) سورتہ فاتحہ اور سورت کی قراءت کے ساتھ وہ رکعت پڑھے گا جس میں وہ مسبوق ہوا۔ اور اصل قاعدہ یہ ہے کہ لاحق (جس سے امام کی اقتدا کے بعد ایک یا کچھ رکعتیں رہ جائیں تو وہ) امام کی ترتیب پر نماز پڑھے گا، اور مسبوق (جو امام کی اقتدا سے پہلے کی کچھ رکعتیں نہ پا سکا تو) وہ امام کے فارغ ہونے کے بعد اپنی چھوٹی ہوئی رکعتیں ادا کرےگا۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد 2، صفحہ 416، 417، دار المعرفۃ، بیروت)

سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے سوال ہو اکہ اگر مقیم نے امام مسافر کی اقتدا کی اور ایک یادونوں رکوع نہ پائے مثلاً دوسری رکعت یاصرف التحیات میں شریک ہوا تو بعد سلام امام کے اپنی نماز کس طرح ادا کرے؟ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب ارشاد فرمایا: ’’یہ صورت مسبوق لاحق کی ہے وہ پچھلی رکعتوں میں کہ مسافر سے ساقط ہیں، مقیم مقتدی لاحق ہے

لانہ لم یدرکھما مع الامام بعد ما اقتدی بہ

(اس لئے کہ اس نے اقتداء کے بعد امام کے ساتھ ان دو رکعتوں کو نہیں پایا۔ ت) اور اس کے شریک ہونے سے پہلے ایک رکعت یادونوں جس قدرنماز ہوچکی ہے اس میں مسبوق ہے

لانھا فاتتہ قبل ان یقتدی

(اقتدا سے قبل اس نے اسے فوت کیا ہے۔ت) اور حکم اس کا یہ ہے کہ جتنی نماز میں لاحق ہے پہلے اسے بے قراء ت اداکرے یعنی حالت قیام میں کچھ نہ پڑھے بلکہ اتنی دیر کہ سورہ فاتحہ پڑھی جائے محض خاموش کھڑا رہے بعدہ، جتنی نماز میں مسبوق ہوا اُسے مع قراء ت یعنی فاتحہ و سورت کے ساتھ ادا کرے،

فی الدر المختار اللاحق یبدأ بقضاء مافاتہ بلاقراء ۃ ثم ماسبق بہ بھا ان کان مسبوقا ایضاً۔ ملخصا۔

در مختار میں ہے کہ پہلے لاحق فوت شدہ رکعات بغیرقراء ت کے ادا کرے پھر وہ رکعات جوامام کے ساتھ رہ گئی تھیں اگرمسبوق بھی ہوا ہو۔ ملخصاً(ت)

رد المحتار میں ہے:

قولہ ما سبق بہ بھا الخ ای ثم صلی اللاحق ما سبق بہ بقرأۃ ان کان مسبوقا ایضا بان اقتدی فی اثناء صلاۃ الامام ثم نام مثلا و ھذا بیان للقسم الرابع و ھو المسبوق اللاحق الخ۱؎

پھر

ماسبق رکعات الخ

یعنی اگر مسبوق ہے تو لاحق قرأت کے ساتھ سابقہ رکعات ادا کرے مثلاً اس نے امام کے ساتھ دوران نماز اقتداء کی پھر مثلاً سوگیا اور یہ چوتھی قسم کا بیان ہے جومسبوق لاحق ہے الخ۔ (ت) پس اگردونوں رکوع نہ پائے تھے تو پہلے دو رکعتیں بلاقرأت پڑھ کر بعد التحیات دو رکعتیں فاتحہ و سورت سے پڑھے، اور اگر ایک رکوع نہ ملاتھا توپہلے ایک رکعت بلاقرأت پڑھ کر بیٹھے اور التحیات پڑھے کیونکہ یہ اس کی دوسری ہوئی، پھر کھڑا ہو کر ایک رکعت اور ویسی ہی بلاقرأت پڑھ کر اس پر بھی بیٹھے اور التحیات پڑھے کہ یہ رکعت اگرچہ اس کی تیسری ہے مگر امام کے حساب سے چوتھی ہے اور رکعات فائتہ کونماز امام کی ترتیب پر ادا کرنا ذمہ لاحق لازم ہوتا ہے پھر کھڑا ہو کر ایک رکعت بفاتحہ وسورت پڑھ کر بیٹھے اور بعد تشہد نماز تمام کرے۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 8، صفحہ 239، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FAM-705

تاریخ اجراء: 15 شوال المکرم 1446ھ / 14 اپریل 2025ء