
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا مسافر امام کے مقیم مقتدی کے لیے آخری دو رکعتوں میں قراءت نہ کرنا واجب ہے؟ اور ان آخری دو رکعتوں میں بھولے سے واجب چھوٹنے کی صورت میں سجدہ سہو واجب ہوگا یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
مسافر امام کے پیچھے مقیم مقتدی کے لئے آخری دو رکعتوں میں قراءت نہ کرنا واجب ہے کہ وہ قراءت کے معاملے میں ان رکعات میں لاحق کی طرح ہے اور لاحق حکما مقتدی اور مقتدی کو قراءت ممنوع۔ اور اگر آخری دو رکعتوں میں بھولے سے اس سے کوئی واجب چھوٹ جائے تو اس پر سجدہ سہو لازم ہونے میں علما کا اختلاف ہے اور زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ اس پر سجدہ سہو لازم ہوگا کہ یہ صرف قراءت کے معاملے میں لاحق کی طرح ہے۔
درمختار میں ہے
و المقيم خلف المسافر كالمسبوق، و قيل كاللاحق.
ترجمہ: اور مقیم، مسافر کے پیچھے مسبوق کی طرح ہے اور کہا گیا ہے کہ لاحق کی طرح ہے۔
اس کے تحت ردالمحتارمیں ہے
(قوله و المقيم إلخ) ذكر في البحر أن المقيم المقتدي بالمسافر كالمسبوق في أنه يتابع الإمام في سجود السهو ثم يشتغل بالإتمام. و أما إذا قام إلى إتمام صلاته و سها فذكر الكرخي أنه كاللاحق فلا سجود عليه، بدليل أنه لا يقرأ. وذكر في الأصل أنه يلزمه السجود وصححه في البدائع لأنه إنما اقتدى بالإمام بقدر صلاة الإمام، فإذا انقضت صار منفردا و إنما لا يقرأ فيما يتم لأن القراءة فرض في الأوليين و قد قرأ الإمام فيهما. اهـ. قال في النهر: وبهذا علم أنه كاللاحق في حق القراءة فقط. اهـ.
ترجمہ: بحر میں ذکر کیا کہ: مسافر امام کا مقیم مقتدی اس معاملے میں مسبوق کی طرح ہے کہ سجدہ سہو میں امام کی اتباع کرے گا پھر نماز پوری کرنے میں مشغول ہوگا، اور جب وہ اپنی نماز پوری کرنے کھڑا ہو اور اسے سہو ہو جائے تو کرخی نے ذکر کیا کہ وہ لاحق کی طرح ہے تو اس پر سجدہ سہو لازم نہیں، اس دلیل کی وجہ سے کہ وہ قراءت نہیں کرے گا، اور اصل میں ذکر کیا کہ اس پر سجدہ سہو لازم ہوگا اور بدائع میں اسی کو صحیح قرار دیا، کیونکہ وہ امام کا مقتدی صرف امام کی نماز کی حد تک تھا پھر جب امام کی نماز مکمل ہوگئی تو وہ منفرد ہوگیا اور بقیہ نماز پوری کرتے ہوئے قراءت اس لئے نہیں کرے گا کہ قراءت صرف پہلی دو رکعتوں میں فرض ہے اور امام ان رکعتوں میں قراءت کرچکا، اھ، نہر میں فرمایا: اس سے معلوم ہوا کہ وہ فقط قراءت کے حق میں لاحق کی طرح ہے۔ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ، ج 02، ص 660، مطبوعہ: کوئٹہ)
ردالمحتار کی عبارت
لأن القراءة فرض في الأوليين و قد قرأ الإمام فيهما
پر جد الممتار میں امام اہل سنت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
أقول: هذا إنّما يقتضي عدم الافتراض فلا يؤمر بأن يقرأ، لا أنّه يؤمر بأن لا يقرأ والواقع هنا هو الأخير، فقد قدّم الشارح والمحشّي إدخاله في اللاحق فتأمّل. والصواب ما في "الهداية": (أنّه مقتدٍ تحريمةً لا فعلاً)، فبالنظر إلى جهة الاقتداء تحرم القراءة، و بالنظر إلى أنّه منفردٌ حقيقةً تستحبّ؛ لأنّ الفرض قد تأدّى، وإذا دار الأمر بين الحرمة والندب وجب الترك
ترجمہ: میں کہتا ہوں کہ : یہ بات تو قراءت کے فرض نہ ہونے کا تقاضا کرتی ہے لہذا اسے حکم نہیں دیا جائے گا کہ وہ قراءت کرے، اس کا تقاضا نہیں کرتی کہ اسے حکم دیاجائے کہ وہ قراءت نہ کرے جب کہ یہاں پرواقع آخری والی بات ہے، تحقیق یہ بات شارح اور محشی نے پہلے بیان کر دی ہے کہ یہ شخص لاحق کے حکم میں داخل ہے، پس اس بارے میں غور کرو۔ اور درست وہ ہے جو ہدایہ میں ہے کہ یہ شخص تکبیر تحریمہ کے اعتبارسے مقتدی ہے نہ کہ بالفعل۔ پس اقتدا کی جہت کی طرف دیکھیں تو قراءت حرام ہوگی اور اس طرف دیکھیں کہ وہ حقیقی طورپر منفرد ہے تو پھر قراءت کرنا مستحب ہوگا اس لئے کہ قراءت کا فرض تو تحقیق ادا ہو چکا، پس جب ایک چیز حرمت اور استحباب کے درمیان دائر ہو تو پھر اس کو چھوڑنا واجب ہوتا ہے۔ (جد الممتار، جلد 3، صفحہ 534، 535، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)
اور ردالمحتار کی عبارت
وبهذا علم أنه كاللاحق في حق القراءة فقط. اهـ.
پر جد الممتار میں امام اہلسنت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
و الحق أن تضعيفه سهو، وإنما الضعيف قول الكرخي بعدم الإيجاب؛ لأنه خلاف ظاهر الرواية المصرح بها في "الأصل"، المصححة في "البدائع"و"الفتح" المؤيدة بكلمات "الهداية" و "الكافي" و "التبيين" و إن ذكر في "الخانية" قول الكرخي مقتصرا عليه،"
ترجمہ: درست بات یہ ہے کہ اسے ضعیف قرار دینا سہو ہے، ضعیف تو امام کرخی کا "لازم نہ کرنے"والا قول ہے، کیونکہ وہ اس ظاہر الروایہ کے خلاف ہے، جس کی اصل میں صراحت کی گئی ہے، جس کی بدائع اور فتح میں تصحیح کی گئی ہے، ہدایہ کافی اور تبیین کے کلمات سے جس کی تائید کی گئی ہے، اگرچہ خانیہ میں کرخی کا قول اس پراقتصارکرتے ہوئے ذکرکیا ہے۔ (جد الممتار، جلد 3، صفحہ 535، 536، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)
فتاوی رضویہ میں ہے "مقیم کہ بعد سلامِ مسافر رکعتین اخیرتین اداکرے بجائے قراءت ساکت رہے کہ وہ ان رکعات میں لاحق ہے اور لاحق حکمًامقتدی اور مقتدی کو قراءت ممنوع۔" (فتاوی رضویہ، ج 07، ص 241، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
فتاوی رضویہ میں ہے "اورمقیم مذکورکوبعدفراغِ امام جوسہوہوا۔۔۔ اگران دورکعت میں ہے جن میں اسے حکم لاحق دیاگیا تولزوم سجدہ میں علماء مختلف ہیں اور اصح لزوم ہے، بحرالرائق ہے:
المقیم اذا اقتدٰی بالمسافر ثم قام لاتمام صلاتہ وسھا ذکر فی الاصل انہ یلزم سجود السھو و صححہ فی البدائع ۱ھ ملخصاً۔
( وہ مقیم جس نے مسافر کی اقتدا کی جب وہ اتمام نماز کے لئے کھڑا ہو ااوربھول گیا تو اصل میں ہے کہ اس پر سجدہ سہو لازم ہے، بدائع میں اس کی تصحیح کی ۱ھ تلخیصاً)"
بہار شریعت میں ہے ”لاحق وہ کہ امام کے ساتھ پہلی رکعت میں اقتدا کی مگر بعد اقتدا اس کی کل رکعتیں یا بعض فوت ہوگئیں، خواہ عذر سے فوت ہوں، جیسے غفلت یا بھیڑ کی وجہ سے رکوع سجود کرنے نہ پایا، يا نماز میں اسے حدث ہوگیا یا مقیم نے مسافر کے پیچھے اقتدا کی۔۔۔ لاحق مدرک کے حکم میں ہے کہ جب اپنی فوت شدہ پڑھے گا، تو اس میں نہ قراء ت کرے گا، نہ سہو سے سجدۂ سہو کرے گا۔“ (بہارِ شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 588، 589، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا اعظم عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4135
تاریخ اجراء: 25 صفر المظفر 1447ھ / 20 اگست 2025ء