نابالغ کی امامت حدیث کی روشنی میں

کیا نابالغ بچہ بالغ افراد کی امامت کروا سکتا ہے؟ایک حدیث پاک کی شرح

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ کیا نابالغ بچہ بالغ افراد کی امامت کروا سکتا ہے،اگر نہیں ،تو اس کی وجہ کیا ہے؟نیز کیا ایسی حدیث موجود ہے کہ حضرت عمر بن سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ نابالغی کی حالت امامت کرواتے تھے،اگر ہے، تو اس کا جواب کیا ہے؟

سائل:احمد رضا(ٹینچ بھاٹہ،راولپنڈی)

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اصح مذہب کے مطابق نابالغ بچہ کسی بھی نماز میں بالغ افراد کی امامت نہیں کروا سکتا ،حتی کہ تراویح اور نوافل میں بھی۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’امام مقتدیوں کی نماز کا ضامن ،یعنی ان کی نماز امام کی نماز کے ضمن میں ہوتی ہے ‘‘اور قاعدہ یہ ہے کہ شے اپنے سے ادنیٰ چیز کو تو ضمن میں لئے ہوئے ہوتی ہے،لیکن اعلیٰ کو نہیں ۔اب نابالغ پر چونکہ نماز فرض نہیں ،اس لئے اس کے فرض بھی نفل ہی شمار ہوتے ہیں اور یہ بات واضح ہے کہ فرض کا مرتبہ نفل سے زیادہ ہوتا ہے،لہذا بالغ شخص کی فرض نماز نابالغ کے پیچھے نہیں ہوسکتی۔رہے نوافل!تو نابالغ کے نوافل کا درجہ بھی بالغ کے نوافل سے کم ہوتا ہے،یوں کہ نابالغ نفل شروع کر کے توڑ دے، تو اس پر قضا لازم نہیں، جبکہ بالغ پر قضا لازم ہوتی ہے،لہذا نابالغ نوافل میں بھی امامت نہیں کروا سکتا۔

حکمِ مسئلہ کا حدیث اور آثار سے ثبوت:

نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

الامام ضامن

ترجمہ:امام ضامن ہے۔(مسندِ احمد بن حنبل، ج 12، ص 89، مطبوعہ، مؤسسۃ الرسالہ)

اس حدیثِ پاک کے تحت عمدۃ القاری میں ہے:

بمعنى:يضمنها صحة وفسادا والفرض ليس مضمونا فی النفل

ترجمہ: معنی یہ ہے کہ امام صحت و فساد کے اعتبار سے مقتدیوں کی نماز کا ضامن ہوتا ہے اور فرض نفل کے ضمن میں نہیں آسکتے۔(عمدۃ القاری، ج5، ص239، مطبوعہ، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

اسی کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القوی ارشاد فرماتے ہیں:’’یعنی امام مقتدیوں کی نماز کا ذمہ دار ہے اور اپنی نماز کے ضمن میں ان کی نمازوں کو لیے ہوئے،اسی لئے امام کی قراءت مقتدی کی قراءت ہے،امام کے سہو سے مقتدی پرسجدہ ہے،مقیم امام کے پیچھے مسافرمقتدی پوری نماز پڑھے گا۔۔۔ اس سے معلوم ہوا کہ نفل والے کے پیچھے فرض والے کی نمازجائزنہیں، کیونکہ فرض نفل سے اعلیٰ ہے اور اعلیٰ کے ضمن میں ادنیٰ آسکتا ہے، نہ کہ ادنیٰ کے ضمن میں اعلیٰ۔ یونہی اگرمقتدی کی نماز امام کی نماز سے مختلف ہوتوجائزنہیں،کیونکہ کوئی نمازاپنے غیرکو اپنے ضمن میں نہیں لے سکتی،لہذا عصر پڑھنے والے کے پیچھے ظہرکی قضاءنہیں پڑھی جاسکتی،یہ بھی معلوم ہوا کہ امام کی نماز فاسد ہونے پر مقتدیوں کی نماز بھی فاسد ہوگی ، غرضکہ یہ حدیث بہت سے مسائل میں امام اعظم کی دلیل ہے۔‘‘ (مراٰۃ المناجیح، ج 1، ص 414، مطبوعہ، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

حضرتِ ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں:

لا يؤم الغلام حتى يحتلم

ترجمہ: بچہ امامت نہ کروائے،یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائے۔ (مصنف عبد الرزاق، ج1، ص487، مطبوعہ، المکتب الاسلامی، بیروت)

حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:

ان عبد العزيز بن عمر بن عبد العزيز اخبره ان محمد بن ابی سويد اقامه للناس وهو غلام بالطائف فی شهر رمضان يؤمهم،فكتب بذلك الى عمر يبشره،فغضب عمر وكتب اليه: ما كان نولك ان تقدم للناس غلاما لم تجب عليه الحدود

ترجمہ: محمد بن سوید رضی اللہ تعالی عنہ نے رمضان المبارک میں طائف میں عبد العزیز رضی اللہ تعالی عنہ کو لوگوں کی امامت کے لئے کھڑا کردیا اور حضرتِ عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالی عنہ کی جانب بطورِ خوشخبری خط لکھا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالی عنہ غضبناک ہوئے اور واپس خط لکھا کہ ہم نے تمہیں اس چیز کا اختیار نہیں دیا کہ تم ایسے بچے کو امام بنا لوجس پر حدود واجب نہیں ہوتی۔ (مصنف عبد الرزاق، ج2، ص398، مطبوعہ، المکتب الاسلامی، بیروت)

فقہی جزئیات:

فقہِ حنفی کی مشہور ومعروف کتاب الہدایہ میں ہے:

ولا يجوز للرجال ان يقتدوا بامراة او صبی۔۔اما الصبی فلانه متنفل فلايجوز اقتداء المفترض به ۔۔والمختار انه لا يجوز فی الصلوات كلها،لان نفل الصبی دون نفل البالغ حيث لا يلزمه القضاء بالافساد بالاجماع ولا يبنی القوی على الضعيف

ترجمہ:مردوں کے لئے جائز نہیں کہ وہ عورت یا بچے کی اقتداء کریں۔بہرحال بچہ! تواس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نفل ادا کرنے والا ہے،لہذا فرض ادا کرنے والے کے لئے اس کی اقتداء جائز نہیں۔اور مختار یہ ہے کہ تمام نمازوں میں نابالغ کی اقتداء جائز نہیں،کیونکہ بچے کے نوافل کا درجہ بالغ کے نوافل کی بنسبت کم ہے، اس حیثیت سے کہ نابالغ نوافل فاسد کر دے،تو بالاجماع اس پر قضا ء لازم نہیں اور قوی کی بنیاد ضعیف پر نہیں ہو سکتی۔ (الہدایہ،ج1،ص57،مطبوعہ،دار احیاء التراث،بیروت)

اوراعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ارشاد فرماتے ہیں: ’’مگر (نابالغ) بالغوں کی امامت مذہب اصح میں مطلقاً نہیں کرسکتا، حتی کہ تراویح ونافلہ میں بھی۔ فی رد المحتار:

لایصح اقتداء الرجل بصبی مطلقا ولو فی نفل علی الاصح

ترجمہ:ردالمحتار میں ہے: اصح قول کے مطابق بالغ مرد کا نابالغ کی اقتداء کرناہرحال میں درست نہیں اگرچہ نفل نماز میں ہو۔ ہدایہ میں ہے:

المختار انہ لایجوز فی الصلوات کلھا

ترجمہ:مختار قول یہ ہے کہ سب نمازوں میں نابالغ کی امامت درست نہیں۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج6،ص477،مطبوعہ،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

اور جہاں تک حضرتِ عمرو بن سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی امامت کا معاملہ ہے،تو یہ مختلف کتبِ احادیث میں موجود ہے کہ آپ نے چھ یا سات سال کی عمر میں امامت کروائی،لیکن فقہاء اور محدثین نے اس کی مختلف توجیہات بیان فرمائی ہیں، ان میں سے دو درج ذیل ہیں:

(1) یہ معاملہ اس وقت کا ہے کہ جب مقتدی کی نماز امام کی نماز کے متعلق نہیں تھی، پھر جب یہ حکم آگیا کہ مقتدی کی نماز کا امام کی نماز کے ساتھ تعلق ہوتا ہے،تو سابقہ حکم باقی نہ رہا۔

(2) حضرتِ عمرو بن سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت سے نہیں،بلکہ اپنی رائے اور اجتہاد سے امام بنایا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو یہ فرمایا کہ تم میں سے زیادہ قرآن جاننے والا امامت کروائے، نہ یہ کہ نابالغ کو بھی امام بنا لیا جائے۔اب قبیلے میں چونکہ نابالغ ہونے کے باوجود حضرت عمرو بن سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ ہی سب سے زیادہ قرآن جانتے تھے،اس لئے انہیں امام بنا لیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر اور حضرتِ ابن عباس و ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہم جیسے کِبار اور فقہاء صحابہ نے اس کی مخالفت کی اور فرمایا کہ بالغ ہونے سے پہلے بچہ امامت نہیں کروا سکتا۔

حدیثِ عمر و بن سلمہ اور اس کی توجیہات:

حضرت عمرو بن سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے اسلام قبول کیا،تو واپس آکر فرمایا:

جئتكم واللہ من عند النبی صلى اللہ عليه وسلم حقا،فقال:"صلوا صلاة كذا فی حين كذا وصلوا صلاة كذا فی حين كذا،فاذا حضرت الصلاة فليؤذن احدكم وليؤمكم اكثركم قرآنا"فنظروا فلم يكن احد اكثر قرآنا منی لما كنت اتلقى من الركبان، فقدمونی بين ايديهم وانا ابن ست او سبع سنين وكانت علی بردة،كنت اذا سجدت تقلصت عنی،فقالت امراة من الحی:الا تغطوا عنا است قارئكم؟فاشتروا فقطعوا لی قميصا،فما فرحت بشیء فرحی بذلك القميص

ترجمہ:اللہ کی قسم!میں تمہارے پاس ایک سچے نبی کے پاس سے آیا ہوں، انہوں نے فرمایا:فلاں نماز فلاں وقت میں اس طرح پڑھو اور فلاں نماز فلاں وقت میں اس طرح پڑھو،پس جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی ایک شخص اذان دے اور تمہاری امامت وہ کروائے جو تم میں سے زیادہ قرآن جانتا ہو، پس لوگوں نے دیکھا،تو انہیں مجھ سے زیادہ قرآن جاننے والا نہ ملا،کیونکہ میں قافلے والوں سے مل کر (قرآن یاد کر لیا کرتا تھا)، پس لوگوں نے مجھے امامت کے لے آگے کر دیا، حالانکہ اس وقت میری عمر چھ یا سات سال تھی، میرے پاس ایک ہی چادر تھی،جب میں سجدہ کرتا، تو وہ اوپر ہوجاتی (اور پیچھے کی جگہ نظر آنے لگتی)،پس اس قبیلہ کی ایک عورت نے کہا: کیا تم اپنے قاری کے سرین ہم سے نہیں چھپاؤ گے؟پس انہوں نے کپڑا خریدا اور میرے لئے قمیص بنائی، تو میں کسی چیز سے اتنا خوش نہیں ہوا،جتنا اس قمیص کی وجہ سے ہوا۔ (صحیح بخاری، ج 5، ص 150، مطبوعہ، دار طوق النجاۃ)

اس حدیث پاک کے تحت شرح ابی داؤد للعینی میں ہے:

والجواب عن الحديث: ان ذلك كان على عهد رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم فی ابتداء الاسلام حين لم تكن صلاة المقتدی متعلقة بصلاة الامام

ترجمہ:اور حدیثِ پاک کا جواب یہ ہے کہ یہ معاملہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں ابتدائے اسلام میں ہوا،جب مقتدی کی نماز امام کی نماز کے متعلق نہیں تھی۔(شرح ابی داؤد للعینی، ج3، ص86، مطبوعہ،ریاض)

اسی حدیث کے مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح میں ہے:

واما امامة عمرو فليس بمسموع من النبی صلى اللہ عليه وسلم وانما قدموه باجتهاد منهم۔۔فكيف يستدل بفعل الصبی على الجواز وقد قال هو بنفسه وكانت علی بردة الخ والعجب من الشافعية انهم لم يجعلوا قول ابی بكر الصديق وعمر الفاروق وغيرهم من كبار الصحابة حجة واستدلوا بفعل صبی مثل هذا حاله

ترجمہ: بہرحال عمرو بن سلمہ کی امامت کا معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مسموع نہیں،ان افراد نے اپنی رائے سے عمرو بن سلمہ کو امامت کے لئے آگے کیا تھا۔پس ایک بچے کے فعل سے جواز پر کیسے استدلال کیا جا سکتا ہے،حالانکہ انہوں نے خود کہا ہے کہ مجھ پر ایک چادر تھی(جس کی وجہ سے ستر ظاہر ہوجاتا تھا)؟اور شوافع سے تعجب ہے کہ انہوں نے حضرتِ ابو بکر و عمر اور ان کے علاوہ بڑے بڑے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کے قول کو حجت نہیں بنایا اور ایسے بچے کے فعل سے استدلال کر لیا،جس کی حالت بیان ہوئی۔(مرقاۃ المفاتیح، ج3، ص870، مطبوعہ، دار الفکر،بیروت)

البنایہ شرح الہدایہ میں ہے:

واما عدم جواز الاقتداء بالصبی فلانه متنفل والذی يقتدي به مفترض(فلا يجوز اقتداء المقترض به)ای بالمتنفل،لان صلاة الامام متضمنة صلاة المقتدی صحة وفسادا،لقوله عليه السلام "الامام ضامن"ولا شك ان الشیء انما يتضمن ما هو دونه لا ما هو فوقه،فلم يجز اقتداء البالغ بالصبی ۔۔ وقال الحسن والشافعی:تصح امامته ۔۔لما روى البخاری عن عمرو بن سلمة۔۔وقد خالفه امثال الصحابة وقد قال عمرو: كنت اذا سجدت خرجت استی وهذا غير بالغ والعجيب انهم لم يجعلوا قول ابی بكر الصديق وعمر الفاروق وكبار الصحابة رضی اللہ عنهم وافعالهم حجة و استدلوا بفعل صبی عمره ست سنين ولا يعرف فرائض الوضوء والصلاة، فكيف يتقدم فی الامامة؟ ومنعه احوط فی الدين وعن ابن عباس رضی اللہ عنه لا يؤم الغلام حتى يحتلم وعن ابن مسعود: لا يؤم الغلام الذی لا تجب عليه الحدود رواهما الاثرم فی سننه

ترجمہ: بہرحال نابالغ کی اقتداء کا عدمِ جواز اس لئے ہے ،کیونکہ وہ متنفل یعنی نفل ادا کرنے والا ہےاور اس کی اقتداء کرنے والا مفترض یعنی فرض ادا کرنے والا ہے،لہذا مفترض کے لئے متنفل کی اقتداء جائز نہیں،کیونکہ صحت و فساد کے اعتبار سے امام کی نماز مقتدی کی نماز کو متضمن ہوتی ہے،کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:امام ضامن ہوتا ہے۔ اور اس میں شک نہیں کہ شے اپنے سے کم درجہ والی چیز کو متضمن ہوتی ہے،نہ کہ اوپر والی کو،پس اسی وجہ سے بالغ کا نابالغ کی اقتداء کرنا جائز نہیں۔۔ اور امام حسن اور امام شافعی علیہما الرحمۃ نے فرمایا:نابالغ کی امامت صحیح ہے،کیونکہ امام بخاری علیہ الرحمۃ نے حضرت عمرو بن سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت نقل کی ہے۔۔ (ہم کہتے ہیں:) تحقیق اس حدیث کی بڑے بڑے صحابہ نے مخالفت کی ہےاور خود عمرو بن سلمہ نے کہا:جب میں سجدہ کرتا،تو میری سرین ظاہر ہو جاتی اور یہ بالغ نہیں تھےاور حیرت ہے کہ نابالغ کی امامت کے قائلین نے ابو بکر و عمر اور بڑے بڑے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال و افعال کو حجت نہیں مانا اور ایک چھوٹے سے بچے کے فعل سے دلیل پکڑ لی،جس کی عمر چھ سال تھی اور اتنا چھوٹا بچہ وضو و نماز کے فرائض کو بھی نہیں جانتا،تو اسے امامت کے لئے کیسے آگے کیا جا سکتا ہے؟ نابالغ کی امامت کا ممنوع ہونا ہی دین میں احوط ہے۔ اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے،وہ فرماتے ہیں:بچہ امامت نہ کروائے، یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائے اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے،وہ فرماتے ہیں:جس بچے پر حدود واجب نہیں ہوتی،وہ امامت نہیں کروا سکتا۔ (البنایہ شرح الہدایہ، ج2، ص344، مطبوعہ، دار الکتب العلمیہ،بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: محمد فرحان افضل عطاری

مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: PIN-7542

تاریخ اجراء: 11جمادی الثانی1446ھ/14دسمبر2024ء