وتر کے بعد نفل کی جگہ صلوٰۃ التوبہ پڑھنا کیسا؟

وتر کے بعد والے نفل کی جگہ صلوٰۃ التوبہ پڑھ سکتے ہیں؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ عشاء کی نماز میں وتر کے بعد کے نوافل کی جگہ صلاۃ التوبہ ادا کرسکتے ہیں؟

سائل: محمد ضمیر(فیصل آباد)

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اگر کسی شخص نے عشاکے آخری نوافل پڑھنے کی بجائے ان کی جگہ فقط”صلاۃ التوبہ“کی نیت کی،توصرف صلاۃ التوبہ ادا ہوگی، عشا کے آخری دو نفل ادا نہیں ہوں گے، لیکن اگر دو رکعت نفل میں” عشاء کے نفل “ میں ”نمازِ توبہ “ کی اکٹھی نیت کر لی، تو ضابطہ شرعیہ کی روشنی میں عشا کے نوافل کے ضمن میں صلاۃ التوبہ بھی ادا ہو جائے گی اور دونوں کا ثواب حاصل ہوگا نیز کسی بھی فرض یا واجب یا سنت یا نفل نماز کے ساتھ نماز توبہ کی نیت کرلی تو نمازِ توبہ بھی ادا ہوجائے گی اور جداگانہ صلاۃ التوبہ پڑھنے میں بھی یہ یاد رہے کہ یہ عشا کے وقت کے ساتھ خاص نہیں ،بلکہ اِسے دیگر اوقات میں بھی پڑھا جاسکتا ہے،بلکہ اگر خدانخواستہ کوئی گناہ ہوجائے،تو مکروہ وقت نہ ہونے کی صورت میں فوراً دو نفل پڑھ کر توبہ کرنی چاہیےکہ یہ قبولیت کے زیادہ قریب عمل ہے۔

مسئلہ کی مزید تفصیل یہ ہے کہ ”جمع بین العبادتین“( ایک ہی نیت میں مختلف عبادات کو جمع کرنے) کے حوالے سے ”ضابطہ شرعیہ“ یہ ہے کہ ایک ہی نیت میں جن دو مستقل عبادات کو جمع کیا جا رہا ہو ، اگر ان میں سے کوئی ایک اقوی ہو ، تو اس کی نیت درست قرار پائے گی اور ادنی کی نیت لغو ہو جائے گی اور اگر دونوں برابر ہوں، تو دونوں لغو ہو جائیں گی اور کوئی بھی عبادت شروع نہیں ہو گی اور اگر ایک نماز مستقل و مقصودی ہو اور دوسری ضمنی ، تو مستقل کے ضمن میں غیر مستقل نماز بھی ادا ہو جائے گی اور صلاۃ التوبہ چونکہ مستقل و مقصودی نماز نہیں،بلکہ ضمنی ہے،لہٰذایہ عشا کے نوافل کے ضمن میں ادا ہوجائےگی۔

مذکورہ بالا ضابطہ کی مختصر وضاحت مع امثلہ ملاحظہ کیجیے!

(۱) اگر دونوں عبادتیں اپنی حیثیت کے اعتبار سے اصل اور مستقل ہوں اور ان میں سے کسی ایک کی ترجیح کے لیے مرجح بھی پایا جائے ، مثلاً:ایک اقوی ہو،تواقوی کی ادائیگی درست کہلائے گی اور دوسرے عمل کی نیت لغو ہو جائے گی، جیساکہ فرض اور چاشت کے نفل کی نیت کی، تو فرض نماز کی نیت درست ہو گی ، یونہی ادا اور قضا نماز کی نیت کی، تو اگر وقت میں گنجائش ہواور یہ صاحبِ ترتیب ہو،تو قضا کو ترجیح ملےگی اور صاحبِ ترتیب نہیں یاوقت میں گنجائش نہیں ہے، تو وقتیہ نماز کی نیت درست مانی جائے گی، کیونکہ ایسی صورت میں وقتیہ کو ترجیح حاصل ہے، اِسی طرح عام فرض عین نماز اور جنازہ کی اکٹھی نیت کی، تو فرضِ عین کی نیت درست قرار پائےگی، کیونکہ یہاں مرجِح پایا جارہا ہے اور وہ یہ کہ وقتیہ فرض نماز ذات الارکان یعنی رکوع و سجود والی حقیقی نماز ہے، جبکہ جنازہ مطلق نماز نہیں، بلکہ یہ حقیقتاً دعا اور مجازاً نماز ہے۔

(٢) اگر دونوں عمل جن کی اکٹھی نیت کی،مساوی یعنی برابر ہوں، کوئی اقوی، اضعف نہ ہو، تو وہ عمل لغو ہوجائے گا، جیساکہ دو فرض قضا نمازوں کی اکٹھی نیت کی،تو اگر یہ صاحبِ ترتیب نہیں، تو کوئی بھی نماز نہیں ہو گی، کیونکہ دونوں نمازوں کا الگ الگ پڑھنا شریعت مطہرہ کو مطلوب ہے، اسی طرح وہ نوافل جو مساوی ہوں، ان میں بھی یہی حکم ہے، جیساکہ احرام کی نمازمستقل نماز ہے، یونہی اشراق، چاشت کی نمازیں مستقل طورپر الگ الگ نمازیں ہیں اور مساوی ہیں ،لہٰذا کوئی ایک دوسری میں شامل نہیں ہوسکتی۔

(٣) مذکورہ بالا ضابطے اور عباراتِ فقہاء کی روشنی میں تیسری صورت یہ واضح ہوتی ہے کہ اگر دونوں عبادتیں اصل نہ ہوں،بلکہ ایک مقصودی اور مستقل ہو اور دوسری ضمنی اور تبعی ہو،تو تبعی، مستقل کے ضمن میں ادا ہو جائے گی،لہٰذا ایک ہی نیت میں ایسی مختلف نمازوں کو جمع کرنا درست ہوگا،جیساکہ تحیۃ المسجد اور تحیۃ الوضوکی نماز مستقل نمازنہیں،اس لیے فقہائے کرام نے صراحت فرمائی کہ وضو کرنے کے بعد مسجد میں آکر فرض ، واجب ، سنت یا کوئی اور نفل نماز ادا کی اور اسی میں تحیۃ المسجد اور تحیۃ الوضوکی نیت کی تو وہ بھی ادا ہو جائے گی بلکہ اگر تحیۃ المسجد و تحیۃ الوضو کی نیت نہ بھی کی تب بھی حق مسجد اور حق وضو ادا ہوگیا کہ نئے سرے سے نماز کی حاجت نہیں۔

نماز توبہ کے ضمنی ہونے کی تحقیق:

نمازِتوبہ کی مشروعیت پر غور کیا جائےتو صلاة التوبہ سے اصل مقصود عملی طور پر رجوع الی اللہ ہے،(جیسا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمۃ نے بیان کیا ۔)یعنی گناہ ہو جائے ،تو توبہ کے ساتھ ساتھ عملی طور پر بھی کوئی نیکی و عبادت کی جائے تاکہ وہ نیکی اس گناہ کو مٹا دے اور یہ رجوع الی اللہ کسی بھی نیک عمل سے حاصل ہو جاتا ہے،قرآن کریم میں گناہوں سے استغفار کا طریقہ یہ بیان ہوا کہ گناہ ہونے کے بعد اس پر ڈٹا نہ رہے،بلکہ فرمایاکہ ذکرِ الہٰی کرےاور اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی مانگے اور علمافرماتے ہیں کہ ذکر الہٰی کی بہترین صورت نماز ہے جیساکہ قرآن کریم میں بھی فرمایا گیا:

(اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ یعنی میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ۔)

اسی طرح حدیث پاک میں بھی توبہ کا ایک طریقہ یہ بیان ہواکہ نماز ادا کر کے توبہ واستغفار کی جائے اور طبرانی کی ایک حدیث پاک واضح ہوتا ہےکہ کسی بھی نماز میں توبہ والی نیت کی جاسکتی ہے، خواہ وہ فرض ہو یا غیر فرض، (جیساکہ ذیل میں حدیث آئےگی۔)

اس تفصیل کے مطابق بالترتیب جزئیات ملاحظہ کیجیے:

حلبی اور اشباہ کے حوالے سے”جمع بین العبادتین“ کا ضابطہ شرعیہ بیان کرتے ہوئے علامہ احمد بن محمد طَحْطاوی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1231ھ/1815ء) لکھتے ہیں:

و الضابط أنه إذا جمع بين عبادتين في نية واحدة فإن كانت إحداهما أقوى كان شارعًا فيها، و إن استويا لغت ولا يكون شارعا في واحدة منهما

ترجمہ: اور ضابطہ یہ ہے کہ جب دو عبادتوں کو ایک نیت میں جمع کرے،تو اگر ان میں سے ایک اقوی ہو،تو وہ اسی کو شروع کرنے والا قرار پائے گا اور اگر دونوں برابرہوں، تو دونوں میں کسی کو بھی شروع کرنے والا نہیں کہلائے گا۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، صفحہ 113، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان)

قوی و ضعیف نمازوں کی اکٹھی نیت کی تو قوی ادا ہو گی، جیسا کہ در مختار میں ہے،

و بین القوسین عبارۃ رد المحتار:  و لو نوی فرضین مکتوبة و جنازة فللمكتوبة (اى: لقوتھا لفرضیتھا عینا و لکونھا صلاۃ حقیقة والجنازة كفاية و ليست بصلاة مطلقة) و لو مکتوبتین ( ای: احداھما وقتیة والاخری لم یدخل وقتها کما لو نوی وقت الظھر ظھر ھذا الیوم و عصرہ) فللوقتیة۔۔۔ و لو فرضا و نفلا فللفرض

ترجمہ: اور اگر دو فرضوں یعنی فرض نماز اور جنازہ کی اکٹھی نیت کی، تو فرض نماز ادا ہوگی، کیوں کہ یہ فرض عین اور حقیقی نماز ہونے کی وجہ سے قوی ہے اور نماز جنازہ، فرض کفایہ ہے اور نمازِ مطلقہ نہیں۔ اور اگر دو فرض نمازوں کی نیت جن میں سے ایک وقتی نماز ہو اور دوسری وہ کہ جس کا وقت ہی شروع نہیں ہوا، جیسا کہ کسی نے(ظہر کے وقت میں) آج کی ظہر اور عصر کی نیت کی تو وقتی نماز ہو گی۔۔۔ اور اگر فرض اور نفل کی اکٹھی نیت کی تو فرض نماز ہو گی۔ (الدر المختار مع رد المختار، فروع فی النیۃ،جلد 2، صفحہ153،مطبوعہ کوئٹہ)

اور اگر دونوں مساوی ہوں تو لغو ہو جائیں گی ، جیساکہ در مختار میں ہے:

و لو فائتتین فللاولی لو من اھل الترتیب و الا لغا

ترجمہ: اور اگر دو فوت شدہ نمازوں کی نیت کی ، تو اگر یہ شخص صاحبِ ترتیب ہے تو پہلی ادا ہو جائے گی، ورنہ کوئی بھی ادا نہیں ہوگی۔(الدر المختار مع رد المختار، فروع فی النیۃ،جلد 2، صفحہ154، مطبوعہ کوئٹہ)

مذکورہ بالا عبارت کے تحت علامہ طَحْطاوی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ لکھتے ہیں:

قوله:(و الا لغا) لأنه لا يمكن أداؤهما معًا، لأن كلا منهما مطلوب الفعل على حدة وجعله مؤديا لأحدهما ترجيح من غير مرجح ولم يعتبروا أولوية الترتيب حتى يكون شارعًا في الأولى منهما

ترجمہ: (ورنہ دونوں لغو ہو جائیں گی) اس لیے کہ ان دونوں کو اکٹھا ادا کرنا ممکن نہیں، کیوں کہ دونوں میں سے ہر ایک کی ادائیگی الگ طور پر مطلوب ہے، ان میں سے کسی ایک کو درست قرار دینا ترجیح بلا مرجِح ہے، حالانکہ فقہائے کرام نے ترتیب کے اولی ہونے کا اعتبار نہیں کیا کہ دونوں میں سے پہلی کو شروع کرنے والا قرار پائے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر، صفحہ 113، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

جو نفل مستقل اور مقصود بالذات ہوں وہ کسی دوسری نماز کے ضمن میں ادا نہیں ہو سکتے، جیساکہ استخارہ اور احرام کی نماز، چنانچہ محقق شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:

هل تنوب عنهما صلاة غيرهما كالتحية أم لا؟ ثم رأيت في شرح لباب المناسك أن صلاة ركعتي الاحرام سنة مستقلة كصلاة استخارة وغيرها مما لا تنوب الفريضة منابها،بخلاف تحية المسجد وشكر الوضوء فإنه ليس لهما صلاة على حدة كما حققه في الحجة

ترجمہ: تحیۃ الوضو کے علاوہ کوئی نماز تحیۃ الوضو کی دو رکعات کے قائم مقام ہو سکتی؟ تو میں نے شرح لباب المناسک میں دیکھا کہ احرام کی دو رکعتیں سنت مستقلہ ہیں، جس طرح نمازِ استخارہ وغیرہ کہ جن کے قائم مقام فرض نماز نہیں ہوتی، برخلاف تحیۃ الوضو و تحیۃ المسجد کے کہ یہ دونوں مستقل نمازیں نہیں ہیں،جیسا کہ حجہ میں اس کی تحقیق فرمائی۔ (الدر المختار مع رد المختار، مطلب:سنۃ الوضو،جلد 2، صفحہ563،مطبوعہ کوئٹہ)

اسی بات کو مزيد شرح وبسط کے ساتھ منحۃ الخالق میں لکھا۔ (منحۃ الخالق علی بحر الرائق، جلد 2، صفحہ 563، مطبوعہ کوئٹہ)

جو نماز مستقل نہ ہو بلکہ ضمنی ہو ، جیسے تحیۃ المسجد (اور صلاۃ التوبہ بھی ضمنی ہی ہے۔) اس کو دیگر نمازوں کے ساتھ جمع کر سکتے ہیں، جیسا کہ علامہ علاؤالدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات: 1088ھ/ 1677ء)لکھتےہیں:

و لو نافلتين كسنة فجر وتحية مسجد فعنهما

ترجمہ: اگر کسی شخص نے دو(الگ الگ)نفل کی نیت کی،جیسے فجر کی سنتیں اور تحیۃ المسجد، تو دونوں نمازیں ہوگئیں۔ اوپر ذکر کردہ درمختار کی عبارت(ولو نافلتين)کےتحت علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات: 1252ھ/1836ء) نے لکھا:

قد تطلق النافلة على ما يشمل السنة وهو المراد هنا

ترجمہ: نفل کا اطلاق کبھی سنت پر بھی ہوتا ہے اور یہاں پر یہی مراد ہے۔(رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، جلد 2، صفحہ 155، مطبوعہ کوئٹہ)

طحطاوی علی الدرمیں كسنة فجر وتحية مسجد فعنهما کے تحت لکھا:

و فی كلام الشارح نظر فإن تحية المسجد لا تطلب في وقت كراهة،وأجيب بأنها هنا على وجه التبعية والممنوع استقلالها

ترجمہ:اور شارح کا کلام محلِ نظر ہے، کیونکہ تحیۃ المسجد وقتِ کراہت میں ادا نہیں ہوتی، تو اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ یہاں بطورِ تبعیت ہے، جبکہ ممانعت اس کے مستقل ہونے کی بنا پر ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، صفحہ 113، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان)

موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:

إن أشرك عبادتين في النية،فإن كان مبناهما على التداخل كغسلي الجمعة و الجنابة، أو الجنابة و الحيض،أو غسل الجمعة والعيد،أو كانت إحداهما غير مقصودة كتحية المسجد مع فرض أو سنة أخرى، فلا يقدح ذلك في العبادة،لأن مبنى الطهارة على التداخل،والتحية وأمثالها غير مقصودة بذاتها،بل المقصود شغل المكان بالصلاة،فيندرج في غيره

ترجمہ: اگر کسی نے نیت میں دو عبادتوں کو اکٹھا کیا، پس اگر ان دونوں کی بنیاد تداخل پر ہو، جیسےجمعہ اورجنابت یا جنابت اور حیض کا غسل یا جمعہ اور عید کا غسل یا ان دونوں میں سے ایک غیر مقصودہ عبادت ہو ،جیسے فرض یا کسی دوسری سنت نماز کے ساتھ تحیۃ المسجد کی نیت کرنا، تو شرعاً ایسی عبادت کوئی نقص نہیں آئے گا، كيونکہ طہارت کی بنیاد تداخل پر ہے،جبکہ تحیۃ المسجداور دیگر نوافل غیر مقصودہ عبادات ہیں۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ، جلد 12، صفحہ 24، مطبوعہ وزارتِ اوقاف، کویت)

فتاوی نوریہ میں سوال ہوا کہ چار رکعت نماز ادا کرتے ہوئے ،ساتھ ہی تحیۃ المسجد اور تحیۃ الوضو کی بھی نیت کر لی جائے تو کیا ایسا کرنا درست ہے؟ یعنی پڑھے گا چار رکعتیں اور نیت آٹھ کی کررہا ہے،تو اس کے جواب میں تحیۃ المسجد اور تحیۃ الوضو کا ضمنی اور غیر مستقل ہونا حدیث پاک کی روشنی میں واضح کرتے ہوئے مفتی محمد نور اللہ نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1403ھ/ 1982ء) لکھتے ہیں: پھر یہ سنت بھی یوں مستقل سنت نہیں کہ اس کا علیحدہ بہ نیتِ سنت پڑھنا ضروری ہو یا صرف مطلق نماز کی نیت سے استقلال ضروری ہو کہ حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے "رکعتین" حکم فرمایا ہے اور "رکعتین" نکرہ ہے تو ہر وہ نماز جو دو رکعت پرمشتمل ہو،فرض ہو یا سنت، ادا ہو یا قضاء اس کے پڑھنے سے "رکعتین" کا پڑھنا صادق آجائے گا اور تعمیل ارشاد ہو جائے گی،اگر چہ تحیۃ المسجد کی بھی نیت نہ کرے۔ ۔۔امام نووی اور قسطلانی:

و النظم للقسطلاني و تحصل بفرض او بنفل اخر سواء نويت معہ ام لا لان المقصود وجود صلوة قبل الجلوس وقد وجدت بما ذكر ولا يضره نیة التحية لانها سنۃ غير مقصودة بخلاف نية فرض وسنة مقصودة فلا تصح۔(فتاویٰ نوریہ، جلد 1، صفحہ 574، 575، مطبوعہ دار العلوم حنفیہ فریدیہ، بصیر پور)

صلوٰۃ التوبہ کے متعلق تفصیل یہ ہے کہ گناہوں سے معافی کا عمدہ طریقہ یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کر کے توبہ و استغفار کی جائے، جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

(وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ)

ترجمہ کنز العرفان: اور وہ لوگ کہ جب کسی بے حیائی کا ارتکاب کرلیں یا اپنی جانوں پر ظلم کرلیں تواللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ (پارہ 3، سورہ آل عمران، الایۃ: 135)

اس کے تحت تفسیر نسفی میں فرمایاکہ خواہ وہ ذکرزبان سے ہو یا دل سے، چنانچہ تفسیر نسفی میں ہے:

{‌ذَكَرُوا الله} بلسانهم أو بقلوبهم ليبعثهم على التوبة۔ (تفسیر نسفی، جلد1، صفحہ293، مطبوعہ دارالکلم الطیب، بیروت)

اور ذکر کی بہترین صورت نماز ہے، یہی وجہ ہےکہ حدیث مبارک میں نماز کی ترغیب ارشادفرمائی گئی، چنانچہ جامع ترمذی، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ،صحىح ابن خزیمہ،سنن کبریٰ للبیہقی،مسند احمد،مسند حمیدی، مصنف ابن شیبہ اور دیگر کتبِ احادیث میں ہے،و اللفظ للاوّل: حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

ما من رجل يذنب ذنبا ثم يقوم فيتطهر،ثم يصلي،ثم يستغفر اللہ إلا غفر اللہ له ثم قرأ هذه الآية:(وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ)

ترجمہ: جس شخص سے گناہ ہو جائے، پھر وہ وضو کرے اور نماز پڑھے ، پھر اللہ پاک سے بخشش کی دعا کرے، تو اللہ پاک اسے بخش دے گا، پھر نبی کریم ﷺ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: "اور وہ لوگ کہ جب کسی بے حیائی کا ارتکاب کرلیں یا اپنی جانوں پر ظلم کرلیں تواللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ (جامع الترمذی، ابواب الصلاۃ، باب ماجاء فی الصلاۃ عند التوبۃ، جلد 1، صفحہ 202، مطبوعہ لاھور)

اور نمازِ توبہ جُداگانہ طور پر ادا کرنا ضروری نہیں، جیساکہ طبرانی کی اس حدیث پاک سے واضح ہوتا ہے، چنانچہ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:

سمعت النبي صلى اللہ عليه وسلم يقول: ما من مسلم يذنب ذنبا فيتوضأ، ثم يصلي ركعتين، أو أربعا، مفروضة أو غير مفروضة، ثم يستغفر اللہ إلا غفر اللہ له

ترجمہ:میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ کوئی مسلمان ایسا نہیں کہ جس سے گناہ ہوجائے پھر وہ وضو کرے اور دو یا چار رکعت نماز ادا کرے، خواہ فرض نمازہویا فرض کے علاوہ، پھر اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا مانگے، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا۔ (المعجم الأوسط للطبراني، جلد 5، صفحہ186، مطبوعہ دار الحرمین، قاھرۃ)

گناہ ہوجانے کے بعد نماز ادا کرنے سے اصل مقصود رجوع الی اللہ ہے، خواہ وہ کسی بھی صورت میں ہو، چنانچہ مشہور محدث حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1176ھ/1762ء) لکھتے ہیں:

صلاة التوبة، و الأصل فيها أن الرجوع إلى اللہ لا سيما عقيب الذنب قبل أن يرتسخ في قلبه رين الذنب مكفر مزيل عنه السوء

ترجمہ: صلاۃ التوبہ میں اصل مقصود رجوع الی اللہ ہے،بالخصوص گناہ ہو جانے کے بعد اُس كی نحوست دل میں راسخ ہونے سے پہلے صلاۃ التوبہ کا ادا کر لینا دل سے گناہ کو مٹانے والا ہے۔(حجۃ اللہ البالغہ، النوافل ،جلد2 ، صفحہ 31، مطبوعہ دار الجیل، بیروت)

اسی بات کو علامہ سلیمان بن محمد بُجَيرمی شافعی (سال وفات:1221ھ)لکھتے ہیں:

(وركعتا التوبة) أي من الذنب و لو صغيره كما هو ظاهر ثم يستغفر اللہ عقبها۔۔۔فإن الصلاة وسيلة لقبول التوبة و الوسيلة مقدمة على المقصد، فاندفع ما يقال إن المبادرة إلى التوبة واجبة فكيف يقدم الصلاة عليها،و حاصل الجواب أن الصلاة لما كانت وسيلة كان المصلي شارعا فيها۔

ترجمہ: مفہوم واضح ہے۔ (حاشية البجيرمي على الخطيب، جلد 1، صفحہ 428، مطبوعہ دار الفکر)

توبہ و دعا سے پہلے عملِ صالح شریعت کو مطلوب ہے،جیساکہ امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ/ 1921ء) لکھتے ہیں:  یہ وقت (نماز کے بعد) تو خاص مظنہ نفحاتِ ربانیہ ہے کہ عملِ صالح خصوصاً نماز حالتِ رحمت ورحمتِ الٰہی سبب اجابت،و لہذا دُعا سے پہلے تقدیم عمل صالح مطلوب ہوئی،

کما فی الحصن قال القاری وتقدیم عمل صالح ای قبل الدعاء لیکون سببالقبولہ کما فی حدیث ابی بکر رضی ﷲ تعالٰی عنہ فی صلٰوۃ التوبۃ۔

جیسا کہ حصن حصین کی شرح میں مولانا علی قاری نے فرمایا: عملِ صالح کی تقدیم، یعنی دُعا سے قبل نیک کام کی بجا آوری تاکہ قبولِ دعاء کا سبب ہو، جیسا کہ نمازِ توبہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲتعالیٰ عنہ کی حدیث میں ہے۔(فتاویٰ رضویہ، جلد 9، صفحہ 230، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

نماز توبہ مستحب نماز ہے،جیساکہ اوپر ذکر کردہ حدیث کے تحت شیخِ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلوی حنفی بخاری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:1052ھ) لکھتےہیں:

و هذه تسمى صلاة الاستغفار، ولو قرأ فيها من آيات القران ما فيها ذكر الاستغفار والمغفرة والرحمة لكان أنسب،وقراءته صلى اللہ عليه وسلم الآية المذكورة كأنه دليل على استحباب الصلاة و الاستغفار بعد وقوع الذنب

ترجمہ: اور اس نماز کو صلاۃ الاستغفار کہاجاتا ہے اور اگر اس میں وہ آیات قرآنیہ پڑھے جن میں استغفار و بخشش اور رحمت کا ذکر ہے ،تو زیادہ مناسب ہےاور نبی پاک ﷺ کا حدیث میں مذکور آیتِ مبارکہ کو پڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ گناہ ہوجانے کے بعد نماز توبہ کا ادا کرنا مستحب ہے۔(لمعات التنقیح، باب آداب الخلاء، الفصل الثانی، جلد 3، صفحہ 434، مطبوعہ دار النوادر، دمشق)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: Fsd-9119

تاریخ اجراء: 03 ربیع الاخر 1446ھ / 07 اکتوبر 2024ء