
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ہم نے سنا ہے کہ اگر کوئی نفل نماز بیٹھ کر پڑھتا ہے تو اس کی نماز اگرچہ ہوجاتی ہے، لیکن اس کا ثواب آدھا ہوجاتا ہے، کیا یہ بات درست ہے؟ اور یہ مسئلہ کہاں سے ثابت ہے؟ کیا عورت کیلئے بھی یہی حکم ہے کہ اس کا ثواب بھی آدھا ہوجائے گا یا اس میں فرق ہے؟ کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم بیٹھ کر نفل نہیں ادا فرماتے تھے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
نفل نماز کھڑے ہوکر اور بیٹھ کر دونوں طرح پڑھنا درست ہے، لیکن جب کوئی عذر نہ ہو، تو نفل نماز کھڑے ہوکر پڑھنی چاہئے کہ کھڑے ہو کر نفل نماز پڑھنا افضل ہے، جبکہ بغیر کسی شرعی عذر و مجبوری کے بیٹھ کر نفل پڑھنے میں کھڑے ہوکر پڑھنے کے مقابلے میں آدھا ثواب رہ جاتا ہے۔ یہ مسئلہ متعدد احادیث مبارکہ اور فقہائے کرام کی عبارات سے ثابت ہے، اس کے درست ہونے میں کوئی شک نہیں، نیز یہ حکم جس طرح مرد کیلئے ہے، عورت کیلئے بھی یہی حکم ہے کہ وہ بھی بلاعذر نفل بیٹھ کر نہ پڑھے ورنہ ثواب کم ہوجائے گا۔
رہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بیٹھ کر نفل نماز ادا فرمانا! تو وہ بھی متعدد احادیث مبارکہ سے ثابت ہے، لیکن یہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خصوصیات میں سے تھا، اس طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ثواب کم نہیں ہوتا تھا جبکہ ہمارے لیے اس معاملہ میں ترغیب یہ ہے کہ جب تک عذر نہ ہو اس وقت تک بیٹھ کر نفل نماز نہ پڑھیں تاکہ ثواب میں کمی نہ ہو۔
بلا عذر بیٹھ کر نفل نماز پڑھنا جائز لیکن اس سے ثواب آدھا ہوجاتا ہے، اس کے متعلق صحیح البخاری شریف میں ہے:
عن عمران بن حصین قال: سألت رسول الله صلى الله عليه و سلم عن صلاة الرجل قاعدا، فقال: إن صلى قائما فهو أفضل ومن صلى قاعدا، فله نصف أجر القائم
ترجمہ: حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے، کہتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مرد کے بیٹھ کر نماز پڑھنے کے متعلق سوال کیا تو آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: اگر اس نے کھڑے ہوکر نماز پڑھی تو یہ افضل ہے اور جس نے بیٹھ کر نماز پڑھی تو اس کے لئے کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والے کے ثواب کے مقابلے میں آدھا ثواب ہے۔ (صحیح البخاری، باب صلوٰۃ القاعد، ج 02، ص 47، دار طوق النجاۃ)
سنن ابن ماجہ کے الفاظ یوں ہے:
عن عمران بن حصين: أنه سأل النبي - صلى الله عليه و سلم - عن صلاة الرجل قاعدا فقال: صلاته قائما أفضل من صلاته قاعدا، و صلاته قاعدا على النصف من صلاته قائما
ترجمہ: حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کسی شخص کے بیٹھ کر نماز پڑھنے کے متعلق سوال کیا تو آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ اس کا کھڑے ہوکر نماز اداکرنا بیٹھ کر نماز ادا کرنے سے افضل ہے اور اس کا بیٹھ کر نماز پڑھنا کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کے مقابلے میں نصف ہے۔ (السنن لابن ماجۃ، باب فی صلوٰۃ القاعد، ج 02، ص 207، دار الرسالۃ العالمیۃ)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
(و من صلى) أي: النافلة ( قاعدا) أي: بغير عذر كما قاله سفيان الثوري و غيره( فله نصف أجر القائم) قال ابن الملك: هذا الحديث محمول على المتنفل قاعدا مع القدرة على القيام: لأن المتنفل قاعدا مع العجز عن القيام يكون ثوابه كثوابه قائما. اهـ. و محله أن نيته لولا العذر لفعل لما في الأحاديث الصحيحة: إن العذر يلحق صاحبه التارك لأجله بالفاعل في الثواب
ترجمہ: اور جس نے نفل نماز بغیر عذر بیٹھ کر پڑھی، جیسا کہ امام سفیان ثوری اور دیگر ائمہ نے فرمایا ہے تو اس کیلئے کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والے کے ثواب کا آدھا ہے، علامہ ابن ملک نے فرمایا: یہ حدیث قیام پر قدرت ہونے کے باوجود بیٹھ کر نفل پڑھنے والے پر محمول ہے، کیونکہ جو قیام سے عاجز ہونے کی وجہ سے بیٹھ کر نفل نماز پڑھے تو اس کا ثواب ایسا ہی ہے جیساکہ کھڑے ہوکر پڑھنے کا ثواب ہوتا ہے (امام ابن ملک کا کلام ختم ہوا) اور اس کا محل یہ ہے کہ اس کی نیت یہ ہو کہ اگر عذر نہ ہوتا تو وہ ضرور کھڑے ہوکر نماز پڑھتا، کیونکہ احادیث صحیحہ میں یہ بات موجود ہے کہ جو عذر کی وجہ سے کوئی نیکی ترک کردے تو عذر، صاحب عذر کو ثواب میں نیکی کرنے والے کے ساتھ ملادیتا ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، باب القصد فی العمل، ج 03، ص 936،دار الفکر)
نور الایضاح میں ہے:”يجوز النفل قاعدا مع القدرة على القيام لكن له نصف أجر القائم إلا من عذر“ترجمہ: قیام پر قدرت کے باوجود بیٹھ کر نفل ادا کرنا جائز ہے لیکن بیٹھ کر نوافل ادا کرنے والے کو ،کھڑے ہو کر نوافل ادا کرنے والے کی بنسبت آدھا ثواب ملے گا، مگر کوئی عذر ہو (تو بیٹھ کر بھی نوافل ادا کرنے میں مکمل ثواب ملے گا)۔ (نور الایضاح، کتاب الصلاۃ، فصل فی الصلاۃ جالسا، ص 81، المكتبة العصرية)
بلاشبہ حضور پرنور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بیٹھ کر نفل نماز ادا کرنا ثابت ہے، جیساکہ مسند احمد کی ایک حدیث پاک میں ہے، حضرتِ امِ سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا ارشاد فرماتی ہیں:
ان النبی صلى اللہ عليه وسلم كان يركع ركعتين بعد الوتر و هو جالس
ترجمہ: بے شک حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وتر کے بعد دو رکعتیں بیٹھ کر ادا فرماتے تھے۔ (مسند احمد، ج 44، ص 177، حدیث 26553، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ)
لیکن یہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خصوصیات میں سے تھا، اس طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ثواب کم نہیں ہوتا تھا، چنانچہ صحیح مسلم شریف کی حدیث پاک ہے، حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں:
حدثت ان رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم قال:صلاة الرجل قاعدا نصف الصلاة،قال: فاتيته، فوجدته يصلي جالسا،فوضعت يدی على راسه، فقال: ما لك؟ يا عبد اللہ بن عمرو! قلت:حدثت يا رسول اللہ! انك قلت:"صلاة الرجل قاعدا على نصف الصلاة" و انت تصلی قاعدا، قال: اجل ولكنی لست كاحد منكم
ترجمہ: مجھے یہ خبر پہنچی کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: بیٹھ کر پڑھنے والے کی نماز آدھی ہے (یعنی اسے آدھا ثواب ملے گا) فرماتے ہیں: اس کے بعد میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی بارگاہ میں آیا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بیٹھ کر نماز پڑھتے دیکھا، تو میں نے اپنا ہاتھ آپ کے سر انور پر رکھ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اے عبد اللہ بن عمر و! کیا ہوا؟ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے خبر پہنچی ہے کہ آپ نے فرمایا: بیٹھ کر پڑھنے والے کی نماز آدھی ہے، حالانکہ آپ خود بیٹھ کر نماز ادا فرما رہے ہیں۔ فرمایا: ہاں، لیکن میں تم جیسا نہیں ہوں۔ (صحیح المسلم، ج 1، ص 253، حدیث 735، مطبوعہ دار احیاء التراث، بیروت)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
(و لكنى لست كأحد منكم) يعني هذا من خصوصياتي أن لا ينقص ثواب صلواتي على أي وجه تكون من جلواتي، وذلك فضل الله يؤتيه من يشاء، قال تعالى:{و كان فضل الله عليك عظيما}
ترجمہ: حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ”لیکن میں تم میں سے کسی کی طرح نہیں ہوں“ مراد یہ ہے کہ یہ میری خصوصیات میں سے ہے کہ میری نمازوں کا ثواب چاہے میرے طریقوں میں سے کوئی بھی صورت ہو، کم نہیں ہوتا اور یہ اللہ کا فضل ہے وہ جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اور تم پر اللہ کا فضل بڑا ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، باب القصد فی العمل، ج 03، ص 939، دار الفکر)
بلا عذر بیٹھ کر نفل پڑھنے کی صورت میں ثواب آدھا رہ جاتا ہے، اس حکم میں عورت کے شامل ہونے کے متعلق، مرآۃ المناجیح میں ہے: ”اس ساری حدیث میں نماز سے مراد نماز نفل ہے مرد کا ذکر اتفاقًا ہے ورنہ عورت کا بھی حکم یہی ہے۔ یعنی ثواب کی کانٹ چھانٹ تمہارے لئے ہے ہم کوبیٹھ کرنفل پڑھنے میں وہ ثواب ملتا ہے جو تمہیں کھڑے ہو کر پڑھنے میں نہیں ملتا یا یہ معنی ہیں کہ ہمیں جتنا ثواب کھڑے ہو کر پڑھنے میں ملتا ہے اتنا ہی بیٹھ کر۔“ (مرآۃ المناجیح، ج 02، ص 268، نعیمی کتب خانہ)
بہار شریعت میں ہے ”کھڑے ہو کر پڑھنے کی قدرت ہو جب بھی بیٹھ کر نفل پڑھ سکتے ہیں مگر کھڑے ہو کر پڑھنا افضل ہے کہ حدیث میں فرمایا: ''بیٹھ کر پڑھنے والے کی نماز کھڑے ہو کر پڑھنے والے کی نصف ہے۔'' اور عذر کی وجہ سے بیٹھ کر پڑھے تو ثواب میں کمی نہ ہوگی۔ یہ جو آج کل عام رواج پڑ گیا ہے کہ نفل بیٹھ کر پڑھا کرتے ہیں بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاید بیٹھ کر پڑھنے کو افضل سمجھتے ہیں ایسا ہے تو ان کا خیال غلط ہے۔ وتر کے بعد جو دو رکعت نفل پڑھتے ہیں ان کا بھی یہی حکم ہے کہ کھڑے ہو کر پڑھنا افضل ہے اور اس میں اُس حدیث سے دلیل لانا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ عليہ و سلم نے وتر کے بعد بیٹھ کر نفل پڑھے۔ صحیح نہیں کہ یہ حضور (صلی اللہ تعالیٰ عليہ و سلم) کے مخصوصات میں سے ہے۔ امام ابراہیم حلبی و صاحب درمختار و صاحب ردالمحتار نے فرمایا: کہ یہ حکم حضور (صلی اللہ تعالیٰ عليہ و سلم) کے خصائص سے ہے۔“ (بہار شریعت، ج 1، حصہ 4، ص 671، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: HAB-0398
تاریخ اجراء: 22 محرم الحرام 1446ھ / 29 جولائی 2024ء