
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص نے نماز میں آیتِ سجدہ تلاوت کی اور پھر اس کے بعد تقریباً دس آیتوں تک جان بوجھ کر سجدہ تلاوت نہیں کیا، آیتِ سجدہ کے بعد مسلسل دس آیتیں پڑھتا رہتا، دس آیتوں کے بعد سجدہ تلاوت کیا اور پھر باقی نماز عام نارمل روٹین کے مطابق پڑھی، شرعی رہنمائی فرما دیں کہ اس شخص کی نماز کا کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں اس شخص کی نماز مکروہ تحریمی ہوگئی ہے، جس کا اعادہ اس پر لازم ہے، نیز نماز میں آیتِ سجدہ پڑھنے کے بعد تین آیات سے زیادہ تاخیر کرنا ناجائز وگناہ ہے، لہٰذا اس کی توبہ بھی اس پر لازم ہے۔
مسئلے کی تفصیل جاننے کے لیے یہ تمہید ذہن نشین رکھیں کہ سجدہ تلاوت فی نفسہٖ واجب ہے، کہ بیرونِ نماز آیتِ سجدہ پڑھی جائے، تو سجدہ تلاوت واجب تو ہوجاتا ہے ، لیکن فوراً کرنا واجب نہیں ہوتا اور اگر نماز میں آیتِ سجدہ پڑھی جائے تو یہ نماز کا جزو بن جاتا ہے اور واجباتِ نماز میں شمار ہوتا ہے، یعنی نماز میں آیتِ سجدہ پڑھنے پر سجدہ تلاوت کے لیے دیگر واجباتِ نماز کی طرح ایک مقام و محل خاص ہوجاتا ہے اور وہ تین آیات سے پہلے تک ہے، اسی محل میں اسے ادا کرنا واجب ہے اور تین آیات سے زیادہ تاخیر کرنے سے یہ اپنے مقام سے مؤخر ہوجاتا ہے، اسی وجہ سے فقہائے کرام نے صراحتاً فرمایا ہے کہ اگر بھولے سے سجدہ تلاوت اپنے مقام سے مؤخر ہوا ، تو ترکِ واجب کی وجہ سے سجدہ سہو لازم ہوجائے گا، جس کا مفاد یہی ہے کہ اگر جان بوجھ کر اس کے محل سے مؤخر کیا ، تو نماز مکروہ تحریمی، واجب الاعادہ ہوجائے گی، کیونکہ نماز کے کسی بھی واجب کو قصداً اس کے مقام سے مؤخر کرنا مکروہ تحریمی ، ناجائز و گناہ ہے، جس سے نماز مکروہ تحریمی، واجب الاعادہ ہوجاتی ہے، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں اس شخص نے آیتِ سجدہ پڑھنے کے بعد قصداً دس آیات تک سجدہ تلاوت نہیں کیا، تو یہ واجب کو اس کے محل سے قصداً مؤخر کرنا ہوا، جس وجہ سے اس شخص کی نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوگئی ہے، نیز چونکہ یہ ترکِ واجب قصداً تھا جو ناجائز و گناہ ہے، لہٰذا اس کی توبہ بھی اس شخص پر لازم ہے۔
تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:
(و هي على التراخي) على المختار ويكره تأخيرها تنزيها (إن لم تكن صلوية) فعلى الفور لصيرورتها جزءا منها ويأثم بتأخيرها
ترجمہ: مختار قول کے مطابق سجدہ تلاوت اگر بیرونِ نماز ہو تو علی التراخی واجب ہوتا ہے (یعنی فوراً کرنا ضروری نہیں ، البتہ ) تاخیر کرنا مکروہ تنزیہی ہے ( اور اگر نماز میں ہو) تو پھر فوراً واجب ہوتا ہے، کیونکہ پھر یہ نماز کا جزو بن جاتا ہے ، جس کو مؤخر کرنے سے گنہگار ہوگا۔
اس کے تحت علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
(و يأثم بتأخيرها إلخ) لأنها وجبت بما هو من أفعال الصلاة. وهو القراءة وصارت من أجزائها فوجب أداؤها مضيقا كما في البدائع ولذا كان المختار وجوب سجود للسهو لو تذكرها بعد محلها كما قدمناه في بابه عند قوله بترك واجب فصارت كما لو أخر السجدة الصلبية عن محلها، و مثله: ما لو أخر القراءة إلى الأخريين على القول بوجوبها في الأوليين وهو المعتمد ملخصاً
ترجمہ: ( سجدہ تلاوت مؤخر کرنے سے گنہگار ہوگا ) کیونکہ یہ اس چیز کے سبب واجب ہوا ہے ، جو افعالِ نماز میں سے ہے اور وہ قراءت ہے، تو یہ بھی اجزائے نماز میں سے ہوگیا ، تو اس کی ادائیگی بھی محدود وقت میں واجب ہوگئی، جیسا کہ بدائع الصنائع میں ہے، اسی وجہ سے مختار قول یہ ہے کہ اگر سجدہ تلاوت اس کے محل کے بعد یاد آیا تو پھر سجدہ سہو لازم ہوجائے گا ، جیسا کہ ہم نے ترکِ واجب کے قول کے وقت اس کے باب میں ذکر کیا ہے، تو یہ ایسے ہی ہوجائے گا، جیسا کہ نماز کے اصلی سجدے کو اس کے محل سے مؤخر کر دیا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جس قول کے مطابق نماز کی پہلی دو رکعت میں قراءت واجب ہے اور معتمد بھی یہی ہے، تو آخری دو رکعت تک قراءت کو مؤخر کیا ( تو سجدہ سہو واجب ہوتا ہے)، جیسا کہ ہم نے اس کی تحقیق واجباتِ نماز میں کر دی ہے۔ اچھی طرح سمجھ لیں۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصلوٰۃ، باب سجود التلاوۃ، جلد 2، صفحہ 704، مطبوعہ کوئٹہ)
نماز میں آیتِ سجدہ پڑھنے پر فوراً سجدہ تلاوت واجب ہونے اور تاخیر مکروہ تحریمی ہونے سے متعلق حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:
"فتجب فورية فيها" حتى لو أطال التلاوة يأثم فيكره تحريما تأخيرَ الصلاتية عن وقت القراءة
ترجمہ: (نماز میں آیتِ سجدہ پڑھنے سے) سجدہ تلاوت فوراً واجب ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ اگر تلاوت کو طویل کیا، تو گنہگار ہوگا، لہٰذا نماز کے سجدہ اصلی کی طرح سجدہ تلاوت کو بھی قراءت سے مؤخر کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، باب سجود التلاوۃ، صفحہ 480، مطبوعہ بیروت)
غنیۃ المستملی میں سجدہ تلاوت کو واجباتِ نماز میں شمار کرتے ہوئے شیخ ابراہیم حلبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
و منھا سجدۃ التلاوۃ فانھا مع کونھا واجبۃ فی نفسھا فھی من واجبات الصلاۃ ایضاً اذا تلیت فیھا حتی لو اخرھا عن محلھا سھواً یجب علیہ سجود السھو لانھا من مکملات الرکن وھو القراءۃ و مکمل الفرض واجب
ترجمہ: واجباتِ نماز میں سے ایک واجب سجدہ تلاوت بھی ہے، باوجود اس کے کہ یہ فی نفسہٖ واجب ہے، لیکن جب نماز میں آیتِ سجدہ پڑھی جائے، تو یہ نماز کا واجب بھی ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ اگر بھولے سے اس کو اس کے مقام سے مؤخر کیا، تو سجدہ سہو لازم ہوجائے گا ، کیونکہ یہ رکن کو مکمل کرنے والا ہوتا ہے اوروہ رکن قراءت ہے اور فرض کو مکمل کرنے والا واجب ہوتا ہے۔ (غنیۃ المستملی فی شرح منیۃ المصلی، واجبات الصلاۃ، صفحہ 258، مطبوعہ کوئٹہ)
طوالع الانوار میں ہے:
و فی الولوالجیۃ : المصلی اذا تلی آیۃ السجدۃ و نسی ان یسجد لھا ثم ذکرھا و سجد وجب علیہ سجود السھو لانہ تارک للوصل و ھو واجب
ترجمہ: ولوالجیہ میں ہے کہ نمازی نے جب آیتِ سجدہ پڑھی اور سجدہ تلاوت کرنا بھول گیا ، پھر اسے یاد آیا اور سجدہ تلاوت کیا ، تو اس پر سجدہ سہو بھی لازم ہے ، کیونکہ اس نے (سجدہ تلاوت کو آیتِ سجدہ کے ساتھ) وصل کو ترک کر دیا ہے ، جو واجب ہے۔ (طوالع الانوار، باب سجود السھو، جلد 1، صفحہ 257، مخطوطہ)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”سجدۂ تلاوت نماز میں فوراً کرنا واجب ہے، تاخیر کرے گا، گنہگار ہو گا اور سجدہ کرنا بھول گیا ، تو جب تک حرمتِ نماز میں ہے (یعنی کوئی ایسا کام نہ کیا ہو، جو نماز کے مخالف ہو، تو سجدۂ تلاوت) کر لے، اگرچہ سلام پھیر چکا ہو اور سجدۂ سہو کرے۔ تاخیر سے مراد تین آیت سے زیادہ پڑھ لینا ہے، کم میں تاخیر نہیں۔“ (بھارِ شریعت، حصہ4، جلد 1، صفحہ 733، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
مذکورہ بالا عباراتِ فقہاء میں سجدہ تلاوت کی تاخیر پر سجدہ سہو لازم ہونے کو سہو کے ساتھ مقید کیا ہے ، جس کا مفاد یہی ہے کہ اگر عمداً ایسا ہو تو پھر سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا ، بلکہ عمداً ترکِ واجب والا حکم ہوگا ، کیونکہ کلامِ فقہاء میں مفہومِ مخالف معتبر ہوتا ہے، جیسا کہ سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”عبارات کتب میں مفہوم مخالف بلاشبہہ معتبر ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد 5، صفحہ 634، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
ہر واجب کو اس کے مقام پر ادا کرنا بھی واجب ہے ، جیسا کہ صدر الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ واجباتِ نماز شمار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:” (۴۰) ہر واجب و فرض کا اس کی جگہ پر ہونا۔“ (بھارِ شریعت، حصہ 3 ، جلد 1، صفحہ 518، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
اور قصداً ترکِ واجب سے متعلق فرماتے ہیں:”واجبات نماز میں جب کوئی واجب بھولے سے رہ جائے تو اس کی تلافی کے ليے سجدۂ سہو واجب ہے ۔قصداً واجب ترک کیا تو سجدۂ سہو سے وہ نقصان دفع نہ ہو گا ، بلکہ اعادہ واجب ہے۔ يوہيں اگر سہواً واجب ترک ہوا اور سجدۂ سہو نہ کیا جب بھی اعادہ واجب ہے۔ملخصاً“ (بھارِ شریعت، حصہ 4، جلد 1، صفحہ 708، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: Aqs-2823
تاریخ اجراء: 30 صفر المظفر 1447ھ / 25 اگست 2025ء