
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ دونوں سجدوں کے درمیان اور قعدے میں دونوں قدم کھڑے کرکے، ان کی ایڑیوں پر سرين رکھ کر بیٹھنا کیسا ہے؟ ایسی صورت میں مردوں کی نماز کا کیا حکم ہوگا؟ سنا ہے حدیث پاک میں اس سے منع کیا گیا ہے، برائے مہربانی اس حوالے سے رہنمائی فرما دیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
قعدے اور دونوں سجدوں کے درمیان بلاعذر دونوں قدموں کو پنجوں کے بل کھڑا رکھنا اور ان کی ایڑیوں پر بیٹھنا مکروہ تنزیہی ہے کہ ان دونوں حالتوں میں مسنون طریقہ افتراش ہے یعنی الٹا پاؤں بچھا کراس پر بیٹھےاورسیدھا پاؤں کھڑا کرکے اس کی انگلیاں قبلہ رُو رکھے، اور چونکہ مذکورہ طریقے کے مطابق بیٹھنے میں اس مسنون طریقے کی مخالفت پائی جاتی ہے، لہٰذا مکروہ تنزیہی ہے، ہاں عذر ہو، تو مکروہ نہیں۔
باقی جہاں تک حدیث پاک کا تعلق ہے، تو اس میں ”اقعاء“ کی ممانعت وارد ہے (اقعاء کی تفصیل جزئیات میں آرہی ہے) اور سوال میں بیان کردہ صورت صحیح قول کے مطابق اس ممانعت کے تحت داخل نہیں، ہاں خلافِ سنت ہونے کی وجہ سے مکروہ ہے۔
صحىح بخاری اور سنن نسائی میں حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہماسے روایت ہے، آپ فرماتے ہیں:
”إنما سنة الصلاة أن تنصب رجلك اليمنى، و تثني اليسرى“ و زاد النسائی ”و استقباله بأصابعها القبلة، و الجلوس على اليسرى“
ترجمہ: نماز میں سنت یہ ہے کہ تم اپنا دایاں پاؤں کھڑا رکھو اور بایاں پاؤں بچھاؤ، نسائی نے اتنا اضافہ کیا ہے: سیدھے پیر کی انگلیوں کو قبلہ رُو رکھنا اوربائیں پاؤں پر بیٹھنا سنت ہے۔ (صحیح البخاری، ج 01، ص 165، الطبعۃ السلطانية، بالمطبعة الكبرى الأميرية، ببولاق مصر۔ سنن النسائی، ج 02، ص 236، رقم: 1158، المكتبة التجارية الكبرى بالقاهرة)
سنن ترمذی میں ہے:مولیٰ المسلمین،مولیٰ مشکل کشاحضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نےمجھ سے ارشاد فرمایا:
يا علي أحب لك ما أحب لنفسي،و أكره لك ما أكره لنفسي، لا تقع بین السجدتین
ترجمہ: اے علی! میں تمہارے لئے وہی پسند کرتا ہوں جو اپنے لئے کرتا ہوں، تمہارے لئے وہی ناپسند کرتا ہوں جو اپنے لئے کرتا ہوں،تم دونوں سجدوں کے درمیاں اقعا ء نہ کرنا۔ (سنن ترمذی، ج 01، ص 315، رقم: 282 دار الغرب الاسلامي بيروت)
مذکورہ اقعاء کی تشریح کے حوالے سے بہار شریعت میں ہے: ”یعنی اس طرح نہ بیٹھنا کہ سرین زمین پر ہوں اور گھٹنے کھڑے۔“ (بہار شریعت، ج 01، ص 622، مکتبۃ المدینہ کراچی)
در مختار میں ہے:
(و إقعاؤه) كالكلب للنهي
نماز پڑھنے والے کا کتے کی طرح اقعاء کرنا مکروہ ہے کیونکہ حدیث میں اس کی ممانعت ہے۔
رد المحتار میں ہے:
قال في النهر: لنهيه صلی اللہ علیہ و الہ و سلم عن إقعاء الكلب و فسره الطحاوي:بأن يقعد على أليتيه و ينصب فخذيه ويضم ركبتيه إلى صدره واضعا يديه على الأرض و الكرخي: بأن ينصب قدميه و يقعد على عقبيه و يضع يديه على الأرض. و الأصح الذي عليه العامة هو الأول: أي كون هذا هو المراد بالحديث لا أن ما قاله الكرخي غير مكروه، و كذا في الفتح. قال في البحر: و ينبغي أن تكون الكراهة تحريمية على الأول تنزيهية على الثاني.
أقول: إنما كانت تنزيهية على الثاني بناء على أن هذا الفعل ليس بإقعاء، و إنما الكراهة بترك الجلسة المسنونة كما علل به في البدائع، اهـ كلام النهر. و الحاصل أن الاقعاء مكروه لشيئين: للنهي عنه ولأن فيه ترك الجلسة المسنونة، فإن فسر بما قاله الطحاوي و هو الأصح كان مكروها تحريما لوجود النهي عنه بخصوصه؛ و كان بالمعنى الذي قاله الكرخي مكروها تنزيها لترك الجلسة المسنونة لا تحريما لعدم النهي عنه بخصوصه۔
و قال العلامة قاسم في فتاواه: وأما نصب القدمين والجلوس على العقبين فمكروه في جميع الجلسات بلا خلاف نعرفه إلا ما ذكره النووي عن الشافعي في قول له إنه يستحب بين السجدتين
ترجمہ: نہر میں فرمایا کیونکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کتے کی طرح بیٹھنے سے منع فرمایا،طحاوی نے اس کی یہ تفسیر بیان کی:دونوں سرینوں پر بیٹھے،دونوں رانوں کوکھڑا رکھے، اور ہاتھوں کو زمین پر رکھ کر دونوں گھٹنوں کو سینے سے ملائے، جبکہ کرخی نے اس کی تفسیر یہ بیان کی: زمین پر ہاتھ رکھتے ہوئے دونوں پیروں کوکھڑا کرکے ایڑیوں پر بیٹھ جائے، ان میں سے اصح جس پر عامۃ العلماء ہیں وہ پہلا قول ہے، ان معنوں میں کہ حدیث پاک میں یہی مراد ہے، نہ کہ ان معنوں میں کہ کرخی نے جو کہا وہ مکروہ نہیں، اسی طرح فتح میں ہے۔ بحر میں فرمایا: پہلی صورت مکروہ تحریمی اور دوسری مکروہ تنزیہی ہونی چاہئے۔
میں کہتا ہوں: دوسری صورت مکروہ تنزیہی اس وجہ سے نہیں کہ یہ اقعاء نہیں، بلکہ اس وجہ سے ہے کہ اس میں جلسہ مسنونہ کا ترک پایا جائے گا،جیسا کہ بدائع نے اس کی یہی علت بیان کی، نہر کا کلام یہاں ختم ہوا۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اقعاء دو چیزوں کے سبب مکروہ ہے، حدیث پاک میں ممانعت کی وجہ سے، اور جلسۂ مسنونہ کےترک کی وجہ سے، طحاوی کی تفسیر جو کہ اصح ہے، اگر اسے لیا جائے، تو یہ مکروہ تحریمی ہوگا، کیونکہ حدیث پاک میں خاص اس سے منع فرمایا ہے، اور کرخی کا بیان کردہ معنی مکروہ تنزیہی ہوگا کہ اس میں جلسۂ مسنونہ کا ترک ہے، مکروہ تحریمی نہیں، کیونکہ حدیث پاک میں خاص اس کی ممانعت نہیں۔
علامہ قاسم بن قطلوبغا نے اپنے فتاوی میں فرمایا:دونوں قدموں کو کھڑا رکھ کر ایڑیوں پر بیٹھنا نماز کے تمام جلسوں میں بالاتفاق مکروہ ہے، ہمیں اس بارےمیں کسی کے اختلاف کا علم نہیں،سوائے امام نووی کے کہ انہوں نے امام شافعی کے ایک قول کے مطابق دونوں سجدوں کے درمیان اس طرح بیٹھنے کو مستحب قرار دیا ہے۔ (در مختار مع رد المحتار ملتقطاً، ج 01، ص 643 - 644، دار الفکر)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: HAB-0535
تاریخ اجراء: 10 رمضان المبارک 1446ھ / 11 مارچ 2025ء