دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
نماز کے دوران ریح کا غلبہ ہو تو نماز توڑ دینی چاہیے، اس غلبہ سے کیا مراد ہے؟ نیز اگر نماز نہ توڑی اور مکمل کر لی تو کیا نماز واجب الاعادہ ہو گی؟ رہنمائی فرما دیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نماز کے دوران ریح کے غلبہ سے مراد یہ ہے کہ: "ریح کی اتنی شدت ہو کہ نمازی کا دل بٹے، توجہ اس کی طرف ہوجائے۔"
اور غلبہ ریح کی صورت میں وقت کے ختم ہونے کا خوف نہ ہو تو نماز کو توڑنا واجب ہے، خواہ جماعت فوت ہوتی ہو، اور اگر نماز نہ توڑی اور اسی حالت میں نماز پڑھ لی، تو نماز مکروہ تحریمی ہوئی، جس کو دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔
اور اگر پاخانہ یا پیشاب معلوم ہو ا مگراس کی شدت نہیں تو نماز توڑ دینا واجب نہیں لیکن بہتر ہے، بشرطیکہ وقت و جماعت نہ فوت ہو، اور اگر بلاوجہ اسی حالت میں نماز پڑھ لی تومکروہ تنزیہی ہے۔
رد المحتار میں ہے
"(قوله وصلاته مع مدافعة الأخبثين إلخ) أي البول والغائط. قال في الخزائن: سواء كان بعد شروعه أو قبله، فإن شغله قطعها إن لم يخف فوت الوقت، وإن أتمها أثم لما رواه أبو داود «لا يحل لأحد يؤمن بالله واليوم الآخر أن يصلي وهو حاقن حتى يتخفف»،۔۔۔وما ذكره من الإثم صرح به في شرح المنية وقال لأدائها مع الكراهة التحريمية."
ترجمہ: بول و براز کی حاجت ہو تو نماز پڑھنا مکروہ ہے اور خزائن میں فرمایا کہ برابرہے کہ یہ حاجت نماز شروع کرنے سے پہلے ہو یا بعد میں، پس اگر یہ کیفیت اس کے دل کو مشغول کر دے تو نماز توڑ دے جبکہ وقت فوت ہونے کا خوف نہ ہو اور اگر یونہی نماز مکمل کر لی تو گناہ گار ہوا کیونکہ ابو داؤد نے یہ حدیث روایت کی ہے کہ "جو اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کے لئے حلال نہیں کہ وہ نماز پڑھے اس حال میں کہ وہ پیشاب روکنے والا ہو یہاں تک کہ اس سے فارغ ہوجائے" اورگناہ کا جو ذکر کیا ہے تو اس کی تصریح شرح منیہ میں کی گئی ہے، انہوں نے فرمایا: کراہت تحریمی کے ساتھ نماز اداکرنے کی وجہ سے (گنہگارہے)۔ (رد المحتار، ج2، ص492، مطبوعہ: کوئٹہ)
بہارِ شریعت میں ہے ”جس بات سے دل بٹے اور دفع کر سکتا ہو اسے بے دفع کيے ہر نماز مکروہ ہے مثلاً پاخانے یا پیشاب یا ریاح کا غلبہ ہو۔“ (بہارِ شریعت، جلد1، حصہ3، صفحہ457، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
مزید بہار شریعت میں ہے ”شدت کا پاخانہ پیشاب معلوم ہوتے وقت، یا غلبہ ریاح کے وقت نماز پڑھنا، مکروہ تحریمی ہے۔“ (بہارِ شریعت، جلد1، حصہ3، صفحہ625، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
ہر وہ نماز جو کراہتِ تحریمی کے ساتھ ادا کی گئی اس کا اعادہ واجب ہے۔ جیسا کہ در مختار میں ہے
”کذا کل صلاۃ ادیت مع کراھۃ التحریم تجب اعادتھا“
یعنی: اسی طرح ہر وہ نماز جسے کراہت تحریمی کے ساتھ ادا کیا گیا ہو، اس کا اعادہ بھی واجب ہے۔
"کذا کل صلاۃ۔۔۔۔الخ" کے تحت ردالمحتار میں ہے ”الظاهر انه يشمل نحو مدافعة الاخبثين مما لم يوجب سجودا اصلاً“
ترجمہ: ظاہر یہ ہے کہ وجوبِ اعادہ کا حکم اس صورت کو بھی شامل ہوگا جس میں اصلاً سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا، مثلاً پیشاب اور پاخانہ کی شدت کی حالت میں نماز پڑھنا۔ (رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، جلد1، صفحہ457، مطبوعہ: بیروت)
اگرحاجت کی شدت نہ ہوتواس کے متعلق بہار شریعت میں ہے: "پاخانہ پیشاب معلوم ہوا یا کپڑے یا بدن میں اتنی نجاست لگی دیکھی کہ مانع نماز نہ ہو، یا اس کو کسی اجنبی عورت نے چھو دیا تو نماز توڑ دینا مستحب ہے، بشرطیکہ وقت و جماعت نہ فوت ہو اور پاخانہ پیشاب کی حاجت شدید معلوم ہونے میں تو جماعت کے فوت ہو جانے کا بھی خیال نہ کیا جائے گا، البتہ فوت وقت کا لحاظ ہوگا۔" (بہار شریعت، ج1، ص637، مکتبۃ المدینہ کراچی)
امام اہلسنت شاہ احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن جد الممتار میں فرماتے ہیں:
" أقول: لا شك أن ما لا يشغله لكن في الطبع نوع طلب للتخلي فالكراهة حاصلة ولو تنزيهية، وفي عدم كونه مسوغا نظر-ألا ترى- أن القطع مستحب للخروج من الخلاف، وهو ليس إلا مستحبا، وترك المستحب لا يوجب الكراهة، فكيف فيما يوجبها"
یعنی میں کہتا ہوں کہ شک نہیں کہ دل کو مشغول نہ کرنے والی کیفیت میں بھی طبعیت میں ایسی نوع ہوتی ہے جو تخلی(خلاصی) کی طالب ہوتی ہے تو کراہت حاصل ہے اگرچہ تنزیہی ہے لہذا اسے توڑنے کے لئے مسوغ قرارنہ دینے میں نظر ہے، کیا آپ نہیں دیکھتے کہ خلاف سے نکلنے کے لئے نماز توڑنا مستحب ہےاور خلاف سے نکلنا صرف مستحب ہی ہے اور ترک مستحب، کراہت کو ثابت نہیں کرتا، تو اس میں نماز توڑنے کی اجازت کیسے نہیں ہوگی جو کراہت کو ثابت کرے ۔ (جد الممتار، ج3ص421، مکتبۃ المدینہ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد ابو بکر عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4371
تاریخ اجراء: 06جمادی الاولی1447 ھ/29اکتوبر2025 ء