نماز میں لَفِیْ خُسْر کی جگہ لَفِی الْخُسْر پڑھنا کیسا؟

نماز میں اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ کی جگہ لَفِی الْخُسْر پڑھ دیا تو نماز کا حکم؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ کسی شخص نے نماز میں غلطی سے اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ کی جگہ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِی الْخُسْر پڑھ دیا، تو کیا نماز ہو جائے گی یا دوبارہ پڑھنی ہو گی؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

نماز میں غلطی سے

اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ

کی جگہ

اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِی الْخُسْر

پڑھنے کی صورت میں نماز صحيح طور پر ادا ہو جائے گی اور اس کا اعادہ بھی لازم نہیں ہو گا۔

مذکورہ مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ مذکورہ شخص نے لفظ”خُسْرٍ“ پر ”الف لام“ کا اضافہ کیا ہے، جو کہ اسم پر داخل ہونے کی صورت میں زائد شمار ہوتا ہے اور معنی میں خرابی پیدا نہیں کرتا اور جب قراءت کرتے ہوئے غلطی سے چند ایسے حروف کا اضافہ ہو جائے، جن سے معنی میں خرابی کی صورت نہ بن رہی ہو، تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔

چنانچہ اسم پر داخل ہونے والا الف لام نحوی اعتبار سے زائد ہوتا ہے اس کے حذف و اضافہ سے معنیٰ میں خلل اور نماز میں فساد نہیں آتا چنانچہ حذف کے متعلق المحیط البرھانی میں ہے:

أن الألف و اللام في الأسماء زوائد و ترك الزائد لا يفسد الصلاة

 ترجمہ: اسماء میں الف لام زائد ہوتا ہےاور زائد کو ترک کر دینا، نماز کو فاسد نہیں کرتا۔ (المحیط البرھانی، جلد 1، صفحہ 334، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

اسم پر الف لام کے داخل ہونے سے نماز کے فاسد نہ ہونے کے متعلق در مختار میں ہے:

و منها زلة القارئ۔۔۔ بزيادة حرف فأكثر نحو: الصراط الذين۔۔۔ لم تفسد

ترجمہ: اور اس (نماز کے مفسدات) میں سے قراءت کرنے والے شخص کا غلط پڑھنا بھی ہے۔۔۔ ایک یا اس سے زائد حروف کے اضافے کے ساتھ جیسے کہ الصراط الذین۔۔۔ تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔ (در مختار شرح تنویر الابصار، صفحہ 86، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

یونہی حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

و كثيرا ما يقع في قراءة بعض القرويين و الأتراك و السودان و ياك نعبد بواو مكان الهمزة و الصراط الذين بزيادة الألف واللام وصرحوا في الصورتين بعدم الفساد

ترجمہ: اکثر اوقات بعض دیہاتیوں، ترکوں اور سوڈانیوں کی قراءت میں ”وياك نعبد“ ہمزہ کی جگہ ”واو“ کے ساتھ اور” الصراط الذين“الف لام کے اضافے کے ساتھ پڑھا جاتا ہے اور علماء نے دونوں صورتوں میں صراحت کی ہے کہ اس سے (نماز) فاسد نہیں ہوتی۔(حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح، صفحہ 340، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

حروف کی زیادتی کی صورت میں معنی تبدیل نہ ہوں ، تو نماز فاسد نہیں ہوتی، چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:

(و منها) زيادة حرف إن زاد حرفا فإن كان لا يغير المعنى لا تفسد صلاته

ترجمہ: اور ان (قراءت کرنےو الے کی غلطیوں) میں سے حرف کا اضافہ کرنا بھی ہے۔ اگر کسی نے ایسے حرف کا اضافہ کیا جس سے معنی تبدیل نہیں ہوتے، تو نماز فاسد نہیں ہو گی۔ (الفتاوی العالمگیریہ، جلد 1، صفحہ 79، مطبوعہ المطبعۃ الکبری، مصر)

نماز میں قراءت کی غلطی کے مسائل کو بیان کرتے ہوئے، صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ / 1947ء) لکھتے ہیں: اس باب میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ اگر ایسی غلطی ہوئی جس سے معنی بگڑ گئے، نماز فاسد ہوگئی، ورنہ نہیں۔ (بھار شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 554، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-9551

تاریخ اجراء: 14 ربیع الثانی 1447ھ / 08 اکتوبر 2025ء