سورۂ فاتحہ کے بعد صرف آیتِ درود پڑھنے سے نماز ہوجائے گی؟

سورۂ فاتحہ کے بعد صرف آیتِ درود پڑھنے سے نماز کا حکم ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

  کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرا یہ سوال ہے کہ امام صاحب نے مغرب کی دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد صرف آیت درود

اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا

پڑھی اور رکوع کر دیا ہے، تو کیا ہماری نماز ہو گئی یادوبارہ پڑھنی ہو گی ؟اس کے متعلق رہنمائی فرما دیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں سب کی نماز ہو گئی، اسے دوبارہ پڑھنا لازم نہیں۔

مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ فرائض کی پہلی دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ کے بعد کوئی چھوٹی سورت یا کم از کم تین چھوٹی آیات یا ایک ایسی بڑی آیت جو تین چھوٹی آیتوں کے برابر ہوں، پڑھنا واجب ہے۔ تین چھوٹی آیات کی مقدار علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے حروف کے اعتبار سے 30 حروف بیان کی، جبکہ امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن نے 25 حروف بیان کی اور اسی کو مناسب قرار دیا ہے، لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ نےعلامہ شامی کے قول کے مطابق قراءت کرنے کو بہتر قرار دیا، چونکہ آیت درود  میں 30 سے زیادہ حروف ہیں، لہذا صورتِ مسئولہ میں سورۂ فاتحہ کے بعد صرف آیت درود پڑھنے سے دونوں اقوال کے مطابق  واجب قراءت کی مقدار  ادا ہونے سے نماز ہوگئی۔

سورہ فاتحہ کے بعد تین چھوٹی آیات یا ایک ایسی بڑی آیت پڑھنا، واجب ہے ، جو تین چھوٹی آیتوں کے برابر ہو، جیساکہ بدائع الصنائع، بحر الرائق، فتاوی عالم گیری اور تنویر الابصار و در مختار وغیرھا کتب  میں ہے:

واللفظ للآخر: ”و ضم اقصر سورۃ کالکوثر او ما قام مقامھا و ھو ثلاث آیات قصار نحو’’ثم نظر، ثم عبس و بسر، ثم ادبر واستکبر“و کذا لو کانت الآیۃ او الآیتان تعدل ثلاثا قصارا “

ترجمہ: (واجبات نماز میں سے ایک واجب سورہ فاتحہ کے بعد) سب سے چھوٹی سورت جیسا کہ سورۂ کوثر یا جو اس سورت کے قائم مقام تین چھوٹی آیات کا ملانا ہے، جیسے ’’ثم نظر، ثم عبس و بسر، ثم ادبر واستکبر“ اور اسی طرح اگر ایک آیت یا دو آیتیں ہو ں، تو وہ تین چھوٹی آیتوں کے برابر ہیں ۔

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک چھوٹی تین آیتوں کی مقدار 30 حروف ہیں، جیسا کہ شارح علیہ الرحمۃ کے قول: ”تعدل ثلاثا قصارا “ کے تحت رد المحتار میں ہے:

”أي مثل ﴿ثم نظر﴾ [المدثر: ٢١]- إلخ وهي ثلاثون حرفا، فلو قرأ آية طويلة قدر ثلاثين حرفا يكون قد أتى بقدر ثلاث آيات“

ترجمہ: یعنی اس (چھوٹی تین آیتوں) کی مثال ”ثم نظر“ سے آخر (استکبر) تک ہے اور یہ 30 حروف ہیں، لہذا اگر کسی نے (نماز میں) 30 حروف کی مقدار کے برابر  ایک بڑی آیت کی قراءت کی، تو وہ چھوٹی تین آیتوں کے برابر تلاوت کرنے والا شمار ہوگا۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد 2، صفحہ 185، مطبوعہ کوئٹہ )

اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن کے نزدیک تین چھوٹی آیتوں کی مقدار 25 حرو ف ہیں، جیساکہ جد الممتار میں ہے:

”اقول: بلیٰ! فقولہ تعالیٰ: ’’قم فانذر، و ربک فکبر، و ثیابک فطھر‘‘ ثمانیۃ و عشرون حرفا مقروءا و خمسۃ و عشرون مکتوبا و قولہ تعالیٰ:

’’و الفجر، و لیال عشر ، و الشفع و الوتر ‘‘

خمسۃ و عشرون حرفا و المکتوب ستۃ و عشرون، فاذن ینبغی ادارۃ الحکم علیٰ خمسۃ و عشرین حرفا سواء اریدت المقروءات کما ھو الالیق او المکتوبات“

 ترجمہ: میں کہتا ہوں: کیوں نہیں (علامہ شامی کی بیان کردہ 30 حروف والی آیات سے چھوٹی تین آیات بھی موجود ہیں)، اور وہ یہ ہیں کہ  اللہ پاک کا فرمان:

’’قم فانذر، و ربک فکبر، و ثیابک فطھر‘‘

 ان آیات میں پڑھے جانے والے حروف اٹھائیس ہیں اور لکھے جانے والے حروف پچیس ہیں اور اللہ پاک کا یہ فرمان:

’’و الفجر، و لیال عشر ، و الشفع و الوتر‘‘

 میں بھی پچیس حروف ہیں اور لکھے جانے والے چھبیس حروف ہیں، تو اب حکم کا مدار پچیس حروف پر ہونا، مناسب ہے، خواہ پڑھے جانے والے حروف مراد ہوں، جیسا کہ یہی زیادہ لائق ہے، یا لکھے جانے والے حروف ہوں۔ (جد الممتار، جلد 3، صفحہ 153، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی )

قراءت کی وجوبی مقدار میں تیس حروف والے قول کے مطابق قراءت کرنا، بہتر ہے، جیساکہ فتاوی رضویہ میں ہے: ”یوں سولہویں رکعت میں یہ دونوں آیتیں واقع ہوں گی:

”فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ، ذَوَاتَاۤ اَفْنَانٍ“

بہتر یہ ہے کہ ان کے ساتھ ایک آیت اور ملائی جائے، کہ ان میں صرف ستائیس حرف ہیں اور رد المحتار میں کم از کم تیس حرف درکار بتائے۔

و ان کان فیہ کلام بیناہ علی ھامشہ مع ان المقروات فیھما ثلٰثون (اگرچہ اس میں کلام ہے۔ جیسے ہم نے حاشیہ رد المحتار میں تحریر کیا ہے، علاوہ ازیں ان آیات میں مقروات تیس ہیں۔ )  ‘‘ ( فتاویٰ رضویہ، جلد 6، صفحہ 348، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

اس مسئلہ کی نظیر:

”لقد جاءکم رسول من انفسکم۔۔۔الخ والی آیت ہے کہ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ زید نے بعد ِسورہ فاتحہ نماز  میں آیت

”لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ“

پڑھی، عمر کہتا ہے کہ اسے پڑھنے سے  نماز نہیں ہو گی، تو اس کے جواب میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا: ” نماز درست ہو گئی۔ ’’تین آیت پڑھنا واجب ہے‘‘ اس کا یہ مطلب ہے کہ تین چھوٹی آیتیں ہوں یا ان کے برابر، بلکہ اگر آدھی آیت تین چھوٹی آیات کے برابر ہو، جب بھی نماز ہوجائے گی۔ تین چھوٹی آیت کی مثال فقہاء نے یہ دی ہے:

ثم نظر، ثم عبس و بسر، ثم ادبر و استکبر،

 کہ ان آیات کے حروف کل تیس ہیں، لہٰذا اگر تیس حروف کی ایک آیت پڑھ دی، واجب ادا ہوگیا۔‘‘ (فتاویٰ امجدیہ، جلد 1، صفحہ 97، مطبوعہ مکتبہ رضویہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-9514

تاریخ اجراء23 ربیع الاول 1447ھ /17 ستمبر 2025ء