اھدنا الصراط المستقیم میں ہ کو زیر کے ساتھ پڑھنے سے نماز کا حکم

اھدنا الصراط المستقیم میں اھدنا کو زیر کے ساتھ پڑھا تو نماز کا حکم؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ اھدنا الصراط المستقیم میں لفظ اھدنا میں ھ پر ساکن کے بجا ئے غلطی سے زیر پڑھا تو نماز کا کیا حکم ہے؟ یعنی کیا اس طرح پڑھ دینے کی وجہ سے نماز فاسد ہوجائے گی؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں نماز فاسد نہیں ہوگی، کیونکہ اھدنا کے ھ پر سکون کے بجائے زیر پڑھنا ایک ایسی غلطی ہے جس سے معنیٰ فاسد نہیں ہورہا (یعنی دونوں صورتوں میں اس کا معنیٰ ایک ہی ہے اور وہ ہے ”ہمیں ہدایت پر چلا“) جبکہ قراءت کی اس طرح کی غلطی کی وجہ سے نماز اس وقت فاسد ہوتی ہے جب معنیٰ فاسد ہو ورنہ نہیں۔

خاتم المحققین علامہ سید ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ رد المحتار میں نماز میں قراءت کی غلطی کی وجہ سے نماز کے فساد و عدم فساد کے متعلق اصول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

و القاعدۃ عند المتقدمین أن ما غیّر المعنی تغییراً یکون اعتقادہ کفراً یفسد فی جمیع ذلک، سواء کان فی القرآن أو لا إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تامّ و ان لم یکن التغییر کذلک، فان لم یکن مثلہ فی القرآن و المعنی بعید متغیر تغیراً فاحشاً یفسد أیضاً کھذا الغبار مکان الغراب، و کذا إذا لم یکن مثلہ فی القرآن و لا معنی لہ کالسرائل باللام مکان السرائر، و ان کان مثلہ فی القرآن و المعنی بعید و لم یکن متغیراً فاحشاً تفسد أیضاً عند ابی حنیفۃ و محمد، و ھو الاحوط، و قال بعض المشائخ: لا تفسد لعموم البلوی، و ھو قول أبی یوسف، و ان لم یکن مثلہ فی القرآن و لکن لم یتغیر بہ المعنی نحو قیّامین مکان قوّامین فالخلاف علی العکس فالمعتبر فی عدم الفساد عند عدم تغیر المعنی کثیراً وجود المثل فی القرآن عندہ و الموافقۃ فی المعنی عندھما، فھذہ قواعد الأئمۃ المتقدمین

ترجمہ: اور متقدمین کے نزدیک قاعدہ یہ ہے کہ جو معنی کو اتناتبدیل کردے کہ جس کا اعتقاد کفر ہو تو تمام صورتوں میں نماز فاسد ہوجائے گی، چاہےوہ بدل قرآن میں ہو یا نہ ہو الا یہ کہ وقف تام کے ذریعے جملوں میں فصل کر کے جو تبدیلی ہو، اور اگر تبدیلی ایسی نہ ہو، تو اگر اس بدل لفظ کا مثل قرآن میں نہ ہو اور معنی بعید ہو اور تبدیلی فاحش جیسے غراب کی جگہ غبار تو بھی نماز فاسد ہو جائے گی، اسی طرح (نماز فاسد ہوگی) اگر قرآن میں اس کا مثل نہ ہو اور نہ ہی اس کا کوئی معنی ہو جیسے سرائر کی جگہ سرائل، اور اگر اس کی مثل قرآن میں ہو اور معنی بعید ہو اور تغیر فاحش نہ ہو تو بھی طرفین کے نزدیک فاسد ہوجائے گی، اور یہ احوط ہے، اور بعض مشائخ نے فرمایا: عمومِ بلوی کی وجہ سے فاسد نہیں ہوگی، اور یہ امام یوسف کا قول ہے، اور اگر اس کی مثل قرآن میں نہ ہو لیکن معنی تبدیل نہ ہو جیسے قوامین کی جگہ قیامین تو اختلاف برعکس ہوگا۔ تو معنی میں تغیر فاحش نہ ہونے کی صورت میں نماز فاسد نہ ہونے کے لیے امام یوسف کے نزدیک اس کی مثل قرآن میں ہونا معتبر ہے جبکہ طرفین کے نزدیک معنی میں موافقت معتبر ہے، تو یہ ہیں ائمہ متقدمین کے قواعد۔ (رد المحتار، ج 1، صفحہ 630، 631، دار الفکر، بیروت)

اعراب کی غلطی کی وجہ سے نماز کے فساد و عدم فساد کے متعلق، محقق عمر بن نجیم مصری حنفی علیہ الرحمۃ نہر میں امام ابن الہمام علیہ الرحمۃ کی زاد الفقیر کے حوالے سے لکھتے ہیں:

إن كان الخطأ في الإعراب و لم يتغير به المعنى ككسر قوامًا مكان فتحها و فتح باء نعبد مكان ضمها لا تفسد و إن غير كنصب همزة العلماء و ضم هاء الجلالة من قوله تعالى: {إنما يخشى الله من عباده العلماء} تفسد على قول المتقدمين

ترجمہ: اگر نماز میں کی جانے والی غلطی اعراب میں ہو اور اس کی وجہ سے معنیٰ متغیر نہ ہو جیسے قوام کے فتحہ کی جگہ کسرہ پڑھنا اور نعبد میں باء کے ضمہ کی جگہ فتحہ پڑھنا تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی اور اگر اس کی وجہ سے معنیٰ بدل جائے جیسے اللہ پاک کے فرمان

إنما يخشى الله من عباده العلماء

میں اللہ اسم جلالت کے ہاء پر ضمہ اور العلماء کے ہمزہ پر فتحہ پڑھنا تو اس سے متقدمین کے قول کے مطابق نماز فاسد ہوجائے گی۔ (النھر الفائق شرح کنز الدقائق، ج 01، ص 274، دار الكتب العلمية)

فتاوٰی عالمگیری میں ہے:

اذا لحن فی الاعراب لحنا لا یغیر المعنی بان قرا لا ترفعوا اصواتکم برفع التاء لا تفسد صلاتہ بالاجماع

ترجمہ: جب اعراب میں ایسی غلطی کی ہو جس سے معنی نہیں بدلتےجیسا کہ

لا ترفعوا اصواتکم

میں تاء کو رفع کے ساتھ پڑھا تو اس سے نماز بالاجماع فاسد نہیں ہوگی۔ (الفتاوی الھندیۃ، ج 01، ص 81، دار الکتب العلمیۃ)

بہار شریعت میں ہے: ”اس باب میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ اگر ایسی غلطی ہوئی جس سے معنی بگڑ گئے، نماز فاسد ہوگئی، ورنہ نہیں۔ مسئلہ ۱: اعرابی غلطیاں اگر ایسی ہوں جن سے معنی نہ بگڑتے ہوں تو مفسد نہیں، مثلاً

لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَا تِکُمْ، نَعْبَدُ

اور اگر اتنا تغّیر ہو کہ اس کا اعتقاد اور قصداً پڑھنا کفر ہو، تو احوط یہ ہے کہ اعادہ کرے۔“ (بہار شریعت، ج 01، ص 554، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: HAB-0405

تاریخ اجراء: 13 صفر المظفر 1446ھ / 19 اگست 2024ء