پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچ پانے والے مریض کی نماز کا حکم

مریض پیشاب کے چھینٹوں سے بچ نہ پائے تو اس کی نماز معاف ہو گی؟

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

ایک خاتون کو سلپ ڈسک اور سائٹیکا (Sciatica) کی بیماری ہے، جس کی وجہ سے وہ گزشتہ دو سال سے شدید جسمانی تکلیف میں مبتلا ہیں، ڈاکٹر نے انہیں آگے جھکنے یا نیچے بیٹھنے سے سختی سے منع کیا ہے، ورنہ حالت بگڑ سکتی ہے اور سرجری کی نوبت آ سکتی ہے۔ اس مجبوری کی حالت میں اس خاتون کو کرسی پر ہی پیشاب کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے پیشاب کی چھینٹیں کپڑوں پر لگ جاتی ہیں، اور اس طرح کپڑے اور بدن ناپاک ہو جاتے ہیں، اسی بنا پر وہ خاتون نماز اور قرآن پڑھنے سے محروم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسی حالت میں وہ نماز کیسے ادا کریں؟ یا معذوری کی وجہ سے ان سے معاف ہو گئی ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

واضح رہے کہ چند ایک مخصوص حالتوں کے علاوہ، اسلام میں نماز کسی بھی حال میں معاف نہیں ہے۔ لہذا پوچھی گئی صورت میں اس خاتون کو چاہیے کہ اگر ممکن ہو تو پیشاب کے دوران ایسا طریقہ اپنائیں جس سے پیشاب کی چھینٹیں کپڑوں پر نہ لگیں، مثلاً: کموڈ یوز کر لیا کرے، اسی طرح کموڈ کی طرح کی ایک کرسی ہوتی ہے، جو عارضی طور پر کہیں بھی منتقل کی جاسکتی ہے، اس کو بھی یوز کیا جاسکتا ہے، اس سے بھی چھینٹیں نہیں پڑتیں۔ یا پیشاب کے دوران کپڑوں کے نیچے کوئی پلاسٹک یا ناگو دار کپڑا (یعنی ایسا کپڑا جو پانی یا مائع کو جذب نہ کرے، یعنی واٹر پروف یا واٹر ریزسٹنٹ ہو، جیسے پلاسٹک یا ونیل کا کپڑا۔) رکھ دیں تاکہ پیشاب کی چھینٹیں پہنے ہوئے کپڑوں پر نہ لگیں اور کپڑے پاک رہیں۔ اور اگر بالفرض کوئی صورت حفاظت کی نہیں بنتی اور چھینٹیں کپڑوں اور بدن پر لگ جائیں، تو کپڑے کے صرف اس ناپاک حصے کو تین مرتبہ دھوئیں اور ہر مرتبہ اتنی قوت سےنچوڑیں کہ مزید نچوڑنے سے کوئی قطرہ نہ ٹپکے یاایک مرتبہ ہی اتنا زیادہ پانی بہائیں کہ نجاست کے زائل ہونے(ختم ہوجانے) کا غالب گمان ہوجائے، اس طرح کپڑے پاک ہو جائیں گے، اب انہی پاک کپڑوں میں نماز ادا کر لیں۔اور بدن کو تو دھونا بھی ضروری نہیں، تین کپڑے یا ٹشو وغیرہ بھگو کر بدن کو اس طرح اچھی طرح پونچھ ڈالیں کہ ظن غالب ہوجائے کہ نجاست باقی نہ رہی، تو بدن پاک ہوجائے گا۔بہرحال وہ خاتون مذکورہ عذر کی وجہ سے نماز نہیں چھوڑ سکتی، نماز پڑھنی ہی ہوگی۔

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ مریض کی نماز کے متعلق مسائل بیان کرنے کے بعد تنبیہاً فرماتے ہیں: ”مسلمان اس باب کے مسائل کو دیکھیں تو انھیں بخوبی معلوم ہو جائے گا کہ شرع مطہرہ نے کسی حالت میں بھی سوا بعض نادر صورتوں کے نماز معاف نہیں کی بلکہ یہ حکم دیا کہ جس طرح ممکن ہو پڑھے۔ آج کل جو بڑے نمازی کہلاتے ہیں ان کی یہ حالت دیکھی جا رہی ہے کہ بخار آیا ذرا شدت ہوئی نماز چھوڑ دی شدت کا درد ہوا نماز چھوڑ دی کوئی پھڑیا نکل آئی نماز چھوڑ دی، یہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے کہ دردِ سر و زکام میں نماز چھوڑ بیٹھتے ہیں حالانکہ جب تک اشارے سے بھی پڑھ سکتا ہو اور نہ پڑھے تو انھیں وعیدوں کا مستحق ہے جو شروع کتاب میں تارک الصلوٰۃ کے لیے احادیث سے بیان ہوئیں، والعیاذ باللہ تعالیٰ۔“ (بہارِ شریعت، جلد1، حصہ4، صفحہ725، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

فتاوی ہندیہ میں ہے

" وإن كانت غير مرئية يغسلها ثلاث مرات. كذا في المحيط ويشترط العصر في كل مرة فيما ينعصر "

 ترجمہ: اور اگر نجاست غیرمرئیہ ہو تو اسے تین مرتبہ دھوئے گا اسی طرح محیط میں ہے اور جو چیز نچوڑی جا سکتی ہو اسے ہر مرتبہ نچوڑنا شرط ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ، کتاب الطہارۃ، الباب السابع في النجاسۃ و أحکامھا، الفصل الاول، جلد1، صفحہ42، 41، مطبوعہ: کوئٹہ)

منیۃ المصلی میں ہے

”ثم فی کل موضع شرط العصر ینبغی ان یبالغ فی العصر حتی یصیر الثوب بحال لو عصر بعد ذلک لا یسیل منہ الماء

ترجمہ: پھر ہر مقام میں نچوڑنے کی شرط ہے، اور چاہئے کہ نچوڑنے میں مبالغہ کرے یہاں تک کہ کپڑا ایسی حالت میں ہو جائے کہ اگر اس کے بعد اسے نچوڑا جائے تو اس سے پانی نہ بہے۔

اس کے تحت حلبۃ المجلی میں ہے

یتعرض لھا فی کل مرۃ من المرات الثلاث

ترجمہ: تینوں مرتبہ میں سے ہر مرتبہ اتنی قوت سے نچوڑے۔ (حلبۃ المجلی، صفحہ523، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

درمختار وردالمحتار میں ہے

(مابین الھلالین ماخوذ من ردالمحتار) "وهذا كله(أي: الغسل والعصر ثلاثة فيما ينعصر وتثليث الجفاف في غيره ط) إذا غسل في إجانة، أما لو غسل في غدير أو صب عليه ماء كثير، أو جرى عليه الماء طهر مطلقا بلا شرط عصر وتجفيف وتكرار غمس هو المختار."

ترجمہ: تین مرتبہ دھونا اور نچوڑنے کے قابل چیز کو تین مرتبہ نچوڑنا اور اس کے علاوہ چیز کو تین مرتبہ خشک کرنا، یہ سب اس صورت میں ہے جبکہ اسے ٹب میں دھویا جائے، بہرحال اگر اسے بڑے حوض میں دھویا جائے یا اس پر کثیر پانی بہایا جائے یا اس پر پانی جاری ہو تو بغیر نچوڑے، بغیر خشک کیے اور بار بار ڈبوئے بغیر مطلقا پاک ہوجائے گا، یہی مختار ہے۔ (الدرالمختار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، جلد1، صفحہ596، 597، مطبوعہ: کوئٹہ)

امام اہل سنت، امام احمدرضاخان رحمہ اللہ تعالی تحریر فرماتےہیں: "بدن سے نجاست دُور کرنے میں دھونا یعنی پانی وغیرہ بہانا شرط نہیں، بلکہ اگر پاک کپڑا پانی میں بھگو کر اس قدر پونچھیں کہ نجاست مرئیہ ہے تو اس کا اثر نہ رہے مگر اُتنا جس کا ازالہ شاق ہو اور غیر مرئیہ ہے تو ظن غالب ہوجائے کہ اب باقی نہ رہی اور ہر بار کپڑا تازہ لیں یا اُسی کو پاک کر لیا کریں تو بدن پاک ہوجائے گا اگرچہ ایک قطرہ پانی کا نہ بہے۔۔۔۔پچھنے لگائے اور موضع خون کو بھیگے ہوئے پاکیزہ کپڑ ے کے تین ٹکڑوں سے پونچھ دیاپاک ہوگیا۔" (فتاوی رضویہ، جلد4، صفحہ 464، 467، رضا فاؤنڈیشن، لاہور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4308

تاریخ اجراء: 14ربیع الثانی1447 ھ/08اکتوبر2025 ء