
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ قعدہ اولیٰ یا قعدہ اخیرہ میں بھول کر کھڑے ہونے کی صورت میں کتنا کھڑے ہوجانے سے سجدہ سہو واجب ہو جاتا ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
قعده اولیٰ یا قعدہ اخیرہ میں سے ہر ایک میں جب نمازی بھول کرپورا سیدھا کھڑا ہوجائے، یا ابھی پورا سیدھا کھڑا تو نہ ہوا ہو لیکن قیام کے قریب ہوچکا ہو یعنی نمازی کے بدن کا نچلا آدھا حصہ سیدھا ہوچکا ہو، مگر پیٹھ میں ابھی خم باقی ہو تو یہ قیام کے قریب ہونے کی صورت ہوگی، تو کھڑے ہونے کی ان دونوں صورتوں میں سجدہ سہو واجب ہوجائے گا، ہاں البتہ اگر نمازی اتنا کھڑا ہو کہ ابھی وہ بیٹھنے کے ہی قریب ہو یعنی بدن کا نچلا آدھا حصہ بھی سیدھا نہ ہوا ہو، اُس میں خم باقی ہو کہ نمازی کو قعدہ یاد آجائے اور وہ بیٹھ جائے تو اس صورت میں سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ قعدہ اولیٰ اور قعدہ اخیرہ سے بھول کر کھڑے ہوجانے کے بعد دوبارہ قعدے میں لوٹنا، تو اس میں دونوں کے درمیان کچھ فرق اور تفصیل ہے، وہ یہ کہ قعدہ اخیرہ سے بھول کر کھڑے ہونے کے بعد جب تک نمازی نے اگلی رکعت کا سجدہ نہ کیا ہو کہ اُسے قعدہ اخیرہ یاد آجائے، تو اُسے واپس قعدے میں لوٹنا لازم ہے۔ جبکہ قعدہ اولیٰ سے بھول کر کھڑے ہونےکی صورت میں واپس قعدے کی طرف لوٹنا دو صورتوں میں لازم ہوتا ہے، اور ایک صورت میں واپس لوٹنا جائز ہی نہیں، اس کی تفصیل یہ ہے:
(۱) اگر نمازی قعدہ اولیٰ بھول کر کھڑا ہونے لگا ہو، مگر ابھی بیٹھنے کے قریب ہی ہو کہ اُسے قعدہ اولیٰ کرنا یاد آجائے، تو بالاتفاق اُس پر قعدے میں لوٹنا لازم ہے۔
(۲) اگر نمازی قعدہ اولیٰ بھول کر کھڑا ہونے لگا ہو مگر ابھی پورا سیدھا کھڑا نہ ہوا ہو،بلکہ کھڑے ہونے کے قریب ہی ہو ، تو اس صورت میں واپس قعدے میں لوٹنے اور نہ لوٹنے میں فقہائے کرام کا اختلاف ہے۔ ظاہر الروایہ اور اصح قول کے مطابق اس صورت میں بھی نمازی کو واپس قعدے میں لوٹنا لازم ہے۔ یاد رہے کہ لوٹنے کا حکم اگرچہ ان دونوں صورتوں میں ہے، مگر سجدہ سہو اِن میں سے صرف دوسری والی صورت میں ہی لازم ہے، پہلی صورت میں نہیں ، جیسا کہ اوپر تفصیل سے بیان ہوا۔
)۳( باقی جس صورت میں واپس لوٹنا جائز نہیں، وہ یہ ہے کہ اگر نمازی قعدہ اولیٰ بھول کر پورا سیدھا کھڑا ہوچکا ہو یعنی پیٹھ میں بھی خم(جھکاؤ) باقی نہ ہو، تو اب اُسے واپس قعدے میں لوٹنا جائز نہیں ہے، اگر لوٹے گا تو گنہگار ہوگا، اور لوٹنے کے بعد بھی اس پر یہی واجب رہے گاکہ فوراً کھڑا ہوجائے، اگر بیٹھنے کے بعد کچھ پڑھے بغیر فوراً کھڑا ہوجاتا ہے تو اس صورت میں نماز کے آخر میں سجدہ سہو کرلینے سے ہی نماز درست ہوجائے گی، لیکن اگر بیٹھنے کے بعد فوراً کھڑا نہیں ہوتا بلکہ یہ سمجھتے ہوئے کہ مجھے تشہد پڑھنی ہے، تشہد پڑھ کر پھر کھڑا ہوتا ہے، تو اب یہ جان بوجھ کر فرض قیام میں تاخیر کا سبب ہوگا جس سے قصداً واجب کا ترک ہوگا، لہذا ایسی صورت میں سجدہ سہو کفایت نہیں کرے گا، بلکہ اُس نماز کو ہی دوبارہ پڑھنا لازم ہوگا۔
قعدہ اولیٰ بھول کر کھڑے ہونے سے متعلق تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:
(سها عن القعود الأول من الفرض ثم تذكره عاد إليه) وتشهد، ولا سهو عليه في الأصح(ما لم يستقم قائما) في ظاهر المذهب، و هو الأصح فتح (و إلا) أي وإن استقام قائما (لا) يعود لاشتغاله بفرض القيام (و سجد للسهو) لترك الواجب
ترجمہ:فرض کے پہلے قعدے کو بھول جائے پھر اسے یاد آئے تووہ لوٹ آئے اور تشہد پڑھے جب تک کہ وہ سیدھا کھڑا نہ ہوا ہو ظاہر مذہب کے مطابق اور یہی اصح قول ہے۔فتح۔ اور اس پر اصح قول کے مطابق سجدہ سہو لازم نہیں،ورنہ اگر وہ سیدھا کھڑا ہوجائے تو فرض قیام میں مشغول ہونے کی وجہ سے نہیں لوٹے گا اور(بھول کر) واجب (قعدے) کے ترک ہونے کی وجہ سے سجدہ سہو کرے گا۔
رد المحتارعلی الدرالمختار میں ہے:
(قوله و لا سهو عليه في الأصح)يعني إذا عاد قبل أن يستتم قائما وكان إلى القعود أقرب فإنه لا سجود عليه في الأصح وعليه الأكثر. و اختار في الولوالجية وجوب السجود، وأما إذا عاد و هو إلى القيام أقرب فعليه سجود السهو كما في نور الإيضاح و شرحه بلا حكاية خلاف فيہ وصحح اعتبار ذلك في الفتح بما في الكافي إن استوى النصف الأسفل وظهر بعد منحن فهو أقرب إلى القيام، و إن لم يستو فهو أقرب إلى القعود۔(قوله في ظاهر المذهب إلخ) مقابله ما في الهداية: إن كان إلى القعود أقرب عاد ولا سهو عليه في الأصح، ولو إلى القيام أقرب فلا وعليه السهو، و هو مروي عن أبي يوسف واختاره مشايخ بخارى و أصحاب المتون كالكنز وغيره ومشى في نور الإيضاح على الأول كالمصنف تبعا لمواهب الرحمن وشرحه البرهان. قال: ولصريح ما رواه أبو داود عنه - صلى اللہ عليه وسلم - «إذا قام الإمام في الركعتين، فإن ذكر قبل أن يستوي قائما فليجلس، و إن استوى قائما فلا يجلس ويسجد سجدتي السهو»
ترجمہ:(اور ان کا قول اصح قول کے مطابق اس پر سجدہ سہو نہیں) یعنی اگر وہ سیدھا کھڑا ہونے سے پہلے واپس بیٹھ گیاجبکہ وہ بیٹھنے کے قریب تھا، تو اصح قول کے مطابق اس پر سجدہ سہو واجب نہیں ہے، اور اکثر علماء کا بھی یہی قول ہے۔ اور ولو الجیہ میں سجدہ سہو کے واجب ہونے کو اختیار کیا ہے۔ اور اگر وہ واپس آیا جبکہ وہ قیام کے زیادہ قریب تھا، تو اس پر سجدہ سہو لازم ہے، جیسا کہ نور الايضاح اور اس کے شرح میں کسی اختلاف کو بیان کرے بغیر ہے۔ اور فتح القدیر میں اس بات کی تصحیح کی گئی ہے جو کافی میں ہے کہ اگر جسم کا نچلا حصہ سیدھا ہو جائے اور پیٹھ اس کے بعد جھکی ہوئی ہو، تو نمازی قیام کے زیادہ قریب ہوگا۔اور اگر نچلا حصہ سیدھا نہ ہو تو وہ بیٹھنے کے قریب ہوگا۔ (شارح کا قول کہ ظاہر مذہب میں) اس کے مقابل وہ قول ہے جو ہدایہ میں یہ ہے کہ اگر نمازی بیٹھنے کے قریب ہو تو وہ واپس بیٹھ جائے اور اس پر اصح قول کے مطابق سجدۂ سہو لازم نہیں ۔ اور اگر نمازی کھڑے ہونےکے قریب ہو تو واپس نہ بیٹھے اور اس پر سجدۂ سہو لازم ہوگا۔ یہ قول امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ سے مروی ہے، اور اسے بخارا کے مشائخ اور اصحاب متون نے اختیار کیا ہے جیسے صاحب كنز وغیرہ نے ، اور مواہب الرحمن اور اس کے شرح البرهان کی پیروی کرتے مصنف کی طرح نور الايضاح میں پہلے قول کو بیان کیا ہے۔ فرمایا ہے کہ (اس قول کی تائید میں) واضح حدیث ہونے کی وجہ سے جس کو ابو داؤد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ جب امام دو رکعتوں کے بعد کھڑا ہو جائے، تو اگر اسے سیدھا کھڑا ہونے سے پہلےیاد آجائے ، تو وہ ضرور بیٹھ جائے، اور اگر وہ سیدھا کھڑا ہو جائے، تو پھر نہ بیٹھے اور سجدۂ سہو کرے۔ (تنویر الابصار مع در مختار و رد المحتار، جلد 2، صفحہ 661، 662،دار المعرفۃ، بیروت)
نور الايضاح مع مراقی الفلاح میں ہے:
(فإن عاد) من سها عن القعود(وهو إلى القيام أقرب) بأن استوى النصف الأسفل مع انحناء الظهر وهو الأصح في تفسيره (سجد للسهو)لترك الواجب
ترجمہ:وہ شخص جو قعدہ بھول گیا ہو اگر وہ قعدے میں لوٹے اور وہ کھڑے ہونے کے قریب ہو، اس طرح کہ پیٹھ کے جھکے ہونے کے ساتھ اس کا نچلا حصہ سیدھا ہو چکا ہو اور یہی اس کی صحیح تفسیر ہے، تو وہ واجب کے ترک ہونے کی وجہ سے سجدہ سہو کرے گا۔
حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:
قوله: (وهو إلى القيام أقرب)ظاهره أنه إن لم يستو قائما يجب عليه العود ثم يفصل في سجود السهو فإن كان إلى القيام أقرب سجد له وإن كان إلى القعود أقرب لا فحكم السجود متعلق بالقرب وعدمه و حكم العود متعلق بالاستواء وعدمه
ترجمہ:ان کا قول کہ وہ قیام کے زیادہ ہو تو اس کا ظاہر یہ ہے کہ اگر نمازی مکمل طور پر سیدھا کھڑا نہ ہوا ہو تو اس پر قعدے کی طرف لوٹنا واجب ہے، پھر سجدۂ سہو کے بارے میں تفصیل یہ کی جائے گی کہ اگر وہ کھڑے کے زیادہ قریب ہو تو سجدۂ سہو کرے گا، اور اگر بیٹھنے کے زیادہ قریب ہو تو سجدۂ سہو نہیں کرے گا۔ تو سجدۂ سہو کا حکم قیام کے قریب ہونے اور نہ ہونے سے متعلق ہے اور قعدے کی طرف لوٹنے کا حکم سیدھا کھڑا ہونے اور نہ ہونے سے متعلق ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، جلد 1، صفحہ 466،دار الکتب العلمیہ، بیروت)
قعدہ اولیٰ سے بھول کر سیدھا کھڑا ہونے کے بعد واپس قعدہ اولیٰ میں لوٹنے سے متعلق تنویر الابصار مع در مختار و رد المحتار میں ہے:
و بین الھلالین عبارۃ رد المحتار: فلو عاد الی القعودبعد ذلک لاتفسد لکنہ یکون مسیئا ویسجد لتأخیر الواجب(الاولی أن یقول لتاخیر الفرض وھو القیام)
ترجمہ: پس اگر اس کے بعد(یعنی پوراسیدھا کھڑا ہونے کے بعد) قعدے کی طرف لوٹا تو نماز فاسد نہیں ہوگی لیکن وہ گنہگار ہوگااور واجب میں تاخیر کی وجہ سے سجدہ سہو کرے گا۔(علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ)اولیٰ یہ تھا کہ وہ (واجب میں تاخیر کہنے کے بجائے)یوں کہتے کہ فرض یعنی قیام میں تاخیر کی وجہ سے سجدہ سہو کرے گا۔ (تنویر الابصار مع در مختار و رد المحتار، جلد 2، صفحہ 662،دار المعرفۃ، بیروت)
سیدھا کھڑا ہونے کے بعد واپس قعدہ اولیٰ میں لوٹنے پر چونکہ فرض قیام میں جان بوجھ کر تاخیر کرنا ہے، لہذا سجدہ سہو لازم نہیں ،بلکہ نماز واجب الاعادہ ہوگی، چنانچہ رد المحتار کی عبارت پر اشکال وارد کرتے ہوئے اور درست عبارت کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے، سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ جد الممتار میں ارشاد فرماتے ہیں:
انہ مامور بعد العود بالعود الی القیام فوراً، فان عاد فقد ترک القعود فیسجد لترک الواجب و ان لم یعد فقد أخر القیام فیسجد لتأخیر الفرض۔ ثم اقول: لکن یرد علیہ أن ھذا التاخیر وقع منہ عمدا فکیف یجزیہ سجود السھو،بل یجب اعادۃ الصلاۃ؟ فلعل الصحیح أن یقول: یکون مسیئا بالعود الی القعود و یجب علیہ العود الی القیام و یسجد لترک واجب القعود
ترجمہ: (جو شخص قعدہ اولی بھول کر کھڑا ہوجائے، پھر واپس قعدےمیں لوٹ آئے) تو ایسا شخص قعدے میں لوٹنے کے بعد، فوراً قیام کی طرف لوٹنے پر مامور ہے، اگر لوٹ آیا تو قعدہ ترک ہوا، لہذا ترک واجب کی وجہ سے سجدہ سہو کرے گا اور اگر نہ لوٹاتو فرض قیام میں تاخیر کی وجہ سے سجدہ سہو کرے گا۔ پھر میں کہتا ہوں لیکن اس پر (یعنی فرض قیام میں تاخیر پر سجدہ سہو کے لزوم پر بھی) یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ (قعدے میں واپس آنے اور فوراً نہ لوٹنے کی صورت میں فرض قیام میں)یہ تاخیر اس سے جان بوجھ کر واقع ہوگی تو اسے سجدہ سہو کیسے کفایت کرے گا،بلکہ نماز لوٹانا واجب ہوگا؟،لہذاشاید صحیح یہ ہے کہ وہ یوں کہتے کہ قعدہ کی طرف لوٹنے کی وجہ سے وہ گنہگار ہوگا اور اس پر قیام کی طرف لوٹ آنا واجب ہوگا،اور (فوراً لوٹ آنے کی صورت میں) قعدے والا واجب ترک ہونے کی وجہ سے سجدہ سہو کرے گا۔ (ورنہ فوراً نہ لوٹنے اور تشہد پڑھنے کی صورت میں نماز کے واجب الاعادہ ہونے کی صورت ہوگی۔) (جد الممتار، جلد 3، باب سجود السھو، صفحہ 538، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
واجبات نماز بیان کرتے ہوئے علامہ علا ء الدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ در مختار میں لکھتے ہیں:
من الواجبات اتیان کل واجب أو فرض فی محلہ
ترجمہ: ہر فرض و واجب کا اس کی جگہ ہونا بھی نماز کے واجبات میں سے ہے۔(در مختار، جلد 2، صفحہ 201،دار المعرفۃ، بیروت)
سیدی اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’(نمازی قعدہ اولی بھول کر کھڑا ہوجائے تو) اگرابھی قعود سے قریب ہےکہ نیچے کا آدھا بدن ہنوز سیدھا نہ ہونے پایا جب تو بالاتفاق لوٹ آئے اورمذہب اصح میں ا س پرسجدہ سہو نہیں اوراگر قیام سے قریب ہوگیایعنی بدن کا نصف زیریں سیدھا اورپیٹھ میں خم باقی ہے تو بھی مذہب اصح وارجح میں پلٹ آنےہی کا حکم ہےمگر اب اس پر سجدہ سہو واجب، اور اگر سیدھا کھڑا ہوگیا تو پلٹنے کا اصلا حکم نہیں بلکہ ختم نماز پر سجدہ سہو کر لے پھر بھی اگرپلٹ آیا بہت بر اکیا، گناہگار ہوا، یہاں تک کہ حکم ہےکہ فوراً کھڑا ہو جائے اور امام ایساکرے تو مقتدی اس کی پیروی نہ کریں، کھڑے رہیں یہاں تک کہ وہ پھر قیام میں آئے مگر مذہب اصح میں (قعدے کی طرف لوٹنے اور واپس فوراً قیام میں آنے کی صورت میں) نما زیوں بھی نہ جائےگی صرف سجدہ سہو لازم رہےگا۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد 8، صفحہ 181، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
قعدہ اخیرہ سے بھول کر کھڑے ہونے میں سجدہ سہو لازم ہونے نہ ہونے کی وہی تفصیل ہے جو قعدہ اولیٰ میں ہے، چنانچہ تنویر الابصار میں ہے:
ولو سها عن القعود الأخيرعاد ما لم يقيدها بسجدة وسجد للسهو لتأخير القعود
ترجمہ: اور اگر نمازی قعدہ اخیرہ بھول جائے تو جب تک اس نے اگلی رکعت کا سجدہ نہ کیا،واپس بیٹھ جائے، اور قعدہ میں تاخیر کی وجہ سے سجدۂ سہو کرے۔
رد المحتار علی الدرالمختار میں ہے:
(قوله وسجد للسهو) لم يفصل بين ما إذا كان إلى القعود أقرب أو لا، و كان ينبغي أن لا يسجد فيما إذا كان إليه أقرب كما في الأولى لما سبق
ترجمہ: (اور ان کا قول کہ وہ سجدہ سہو کرے) تو اس میں تفصیل نہیں کی گئی کہ وہ بیٹھنے کے قریب ہو یا نہیں، اورچاہیے کہ جب وہ بیٹھنے کے قریب ہو تو وہ سجدہ سہو نہ کرے جیسا کہ قعدہ اولی میں بیٹھنے کے قریب ہونے کی صورت میں سجدہ سہو لازم نہیں اس کی وجہ سے جو پیچھے گزرا۔ (تنویر الابصار مع در مختار و رد المحتار، جلد 2، صفحہ 664،دار المعرفۃ، بیروت)
قعدہ اخیرہ سے بھول کر کھڑے ہونے کے بعد جب تک پانچویں رکعت کا سجدہ نہ کیا ہو اور قعدہ اخیرہ یاد آجائے تو واپس لوٹنا لازم ہے، چنانچہ العنايہ شرح الہدایہ میں ہے:
(وإن سها عن القعدة الأخيرة حتى قام إلى الخامسة رجع إلى القعدة ما لم يسجد)لأن إصلاح الصلاة به ممكن، وكل ما كان كذلك وجب عمله احترازا عن البطلان
ترجمہ: اور اگر نمازی قعدہ اخیرہ کو بھول گیا، یہاں تک کہ وہ پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہو گیا، تو جب تک اس نے سجدہ نہ کیا ہو واپس قعدے میں لوٹ آئے، کیونکہ اس (غلطی) کی اصلاح ممکن ہے، اور ہر وہ کام جس سے نماز کی اصلاح ممکن ہو،تو نماز کو باطل ہونے سے بچانے کیلئے اُسے کرنا واجب ہوتا ہے۔ (العنایہ شرح الھدایہ، جلد 1، صفحہ 508،دار الکتب العلمیہ، بیروت)
فتاوی فیض الرسول میں مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’(امام اگر) قعد ہ اخیرہ میں بھول کر سیدھا کھڑا ہو جائے یا کھڑے ہونے کے قریب ہو جائے یعنی بدن کا نصف زیر یں سیدھا اور پیٹھ میں خم باقی رہے کہ مقتدی کے لقمہ دینے پر یاخود بیٹھ جائے تو قعد ہ اخیرہ کی ادائیگی میں تاخیر کے سبب سجدہ سہو ضروری ہے۔‘‘ (فتاوی فیض الرسول، جلد 1، صفحہ 389، شبیر برادرز، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FAM-702
تاریخ اجراء: 11 شوال المکرم 1446ھ / 10 اپریل 2025ء