تیرہ سال کی قضا نمازوں کی ادائیگی کا طریقہ

کئی سالوں کی قضا نمازیں پڑھنے کا طریقہ

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی شخص پر 13 سال کی نمازیں قضا ہوں تو وہ ان کی ادائیگی کیسے کرے گا؟ طریقہ بتا دیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اولاً یہ جان لیں بلا وجہِ شرعی نماز قضا کرنا سخت ناجائز و حرام اور گناہ ہے، اس سے سچی توبہ کرنا اور فوت شدہ نمازوں کو جلد از جلد ادا کر کے اس کی تلافی کرنا ضروری ہے۔ پوچھی گئی صورت میں ابتداءً ان تیرہ سال کی نمازوں کا حساب کرے، یوں کہ ہر روز کی بیس رکعتیں قضا شمار کرے یعنی دو رکعت فجر کے فرض، چار ظہر کے، چار عصر کے، تین مغرب کے، چار عشا کے اور وتر کی تین رکعتیں۔ پھر عام نماز پڑھنے کی طرح ہر فوت شدہ نماز کی قضا پڑھے، اس میں یوں بھی کر سکتا ہے کہ پہلے تمام فجر کی قضا شدہ ادا کر لے پھر ظہر کی پھر عصر کی، اسی طرح بقیہ، یا پھر سب نمازیں ساتھ ساتھ ادا کرتا جائے۔ البتہ یاد رہے! قضا نمازوں کی نیت میں دن اور نماز کا متعین ہونا ضروری ہے کہ فلاں دن و تاریخ کی فلاں نماز کی قضا کر رہا ہوں، مگر ایک ایک دن و تاریخ کی نمازوں کا یاد رکھنا حرج سے خالی نہیں، لہذا تعیین کے ایک آسان طریقے پر عمل کیا جا سکتا ہے، وہ یہ کہ یوں نیت کر لے مثلاً: میرے ذمہ جو قضا نمازوں میں پہلی فجر ہے اسے ادا کرتا ہوں، یا مجھ پر جو آخری فجر قضا ہے اسے ادا کرتا ہوں۔ ہر نماز میں اسی طرح نیت کرتا رہے ؛ کہ اس میں دن اور نماز بھی متعین و مختص ہوگی اور جب ایک نماز ادا ہو گئی تو اب جو اس کے بعد پہلی یا آخری ہوگی وہ متعین ہوتی رہے گی۔

امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: ”ایمان و تصحیح عقائد کے بعد جملہ حقوق اللہ میں سب سے اہم و اعظم نماز ہے۔... جس نے جان بوجھ کر ایک وقت کی نماز چھوڑی ہزاروں برس جہنم میں رہنے کا مستحق ہوا، جب تک توبہ نہ کرے اور اس کی قضا نہ کر لے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 9، صفحہ 158، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں: ”اصح مذہب پر اتنا لحاظ ضرور ہے کہ نماز نیت میں معین مشخص ہو جائے،

ھو الاحوط من تصحیحین

(یعنی دونوں تصحیحوں میں احوط یہی ہے)، مثلاً: دس فجریں قضا ہیں، تو یوں گول نیت نہ کرے کہ فجر کی نماز، کہ اس پر ایک فجر تو نہیں جو اسی قدر بس ہو، بلکہ تعیین کرے کہ فلاں تاریخ کی فجر، مگر یہ کیسے یاد رہتا ہے اور ہو بھی تو اس کا خیال حرج سے خالی نہیں، لہذا اس کی سہل تدبیر یہ نیت ہے کہ پہلی فجر جس کی قضا مجھ پر ہے، جب ایک پڑھ چکے پھر یوں ہی پہلی فجر کی نیت کرے کہ ایک تو پڑھ لی، اس کی قضا اس پر نہ رہی نو کی ہے، اب ان میں کی پہلی نیت میں آئے گی، یونہی اخیر تک نیت کی جائے، اسی طرح باقی سب نمازوں میں کہے اور جس سے ترتیب ساقط ہو، جیسے یہی دس یا چھ فجر کی قضا والا پہلی کی جگہ پچھلی بھی کہہ سکتا ہے نیچے سے اوپر کو ادا ہوتی چلی جائے گی۔ (فتاوی رضویہ، جلد 8، صفحہ 142-143، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں: ”ان (فوت شدہ) نمازوں کی قضا کرے، جس قدر روز پڑھ سکے اسی قدر بہتر ہے، مثلاً دس دن کی روز پڑھے یا آٹھ کی یا سات کی، اور چاہے ایک وقت میں پڑھے یا متفرق اوقات میں، اور ہر بار یوں نیت کرے کہ سب میں پہلی وہ نماز جو مجھ سے قضا ہوئی ، جب ایک پڑھ لی، پھر یوں نیت کرے یعنی اب جو باقیوں میں پہلی ہے، اخیر تک اتنی پڑھے کہ اب اس پر قضا باقی رہنے کا گمان نہ رہے، قضا ہر روز کی صرف بیس رکعت ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 8، صفحہ 163، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1367ھ / 1948ء) لکھتے ہیں: ”جتنی نمازیں قضا ہوئی ہوں، ہر ایک نماز کی جگہ ایک ایک نماز پڑھنا فرض ہے، مثلاً اگر پچاس وقت کی نماز ظہر نہیں پڑھی ہے تو قضا میں پچاس ظہر پڑھنا فرض ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ فقط ایک ظہر سے کل ظہر کی قضا ادا ہو جائے؛ اس لیے کہ قضا کے معنی تسلیم مثل الواجب ہیں اور ظاہر ہے کہ پچاس نمازوں کی مثل ایک نماز نہیں۔... اور قضا عمری میں یہ نیت ہے کہ عمر بھر کی مثلاً ظہر کی قضا نمازیں پڑھتا ہوں، کسی خاص دن کے ظہر کی نیت نہ کی تو اس نیت سے پڑھنے میں ایک وقت کی بھی قضا نہ ہوئی؛ کہ قضا میں تعیین نماز کی نیت شرط ہے، مثلاً فلاں دن کی فلاں نماز ، اور مطلق ظہر میں چونکہ تعیین و تخصیص نہیں، لہذا فرض ذمہ سے ساقط نہیں۔... اسی واسطے فقہا فرماتے ہیں جس کے ذمہ متعدد نمازیں ہوں اور دن یاد نہ ہوں، وہ قضا میں یہ نیت کرے کہ سب سے پہلی یا سب میں پچھلی فلاں نماز جو میرے ذمہ ہے وہ پڑھتا ہوں، کہ اس صورت میں تعیین و تخصیص ہو گئی ۔ ہر نماز میں یہی نیت کرے کہ جو پڑھ چکا اب اس کے بعد والی سب میں پہلی یا پچھلی ایک ہی ہوگی۔“ (فتاوی امجدیہ، جلد 1، صفحہ 273ملتقطاً، مکتبہ رضویہ، کراچی)

نوٹ: قضا نمازوں کے متعلق مزید احکام اور مسائل جاننے کے لیے امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ کے رسالے ”قضا نمازوں کا طریقہ“ کا مطالعہ فرمائیں۔

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-942

تاریخ اجراء: 23 ربيع الآخر 1447ھ / 17 اکتوبر 2025ء