قضا نمازوں میں تاخیر کرنا گناہ ہے؟

قضا نمازوں میں تاخیر کرنے سے گناہ ہوگا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کسی شخص کی قضا نمازیں ہوں اور ابھی ادا نہ کی ہوں تو کیا ان قضا کا ہر وقت گناہ ہوتا رہتا ہے؟ اگر وہ فارغ ٹائم میں قضا نمازیں نہ پڑھے، بلکہ صرف فرض نماز کی سنت غیر مؤکدہ اور نوافل چھوڑ کر ہر نماز کے ساتھ فقط ایک قضا نماز پڑھے تو کیا گنہگار ہوگا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

آدمی کے ذمے قضا نمازوں کو جلد سے جلد پڑھنا واجب ہوتا ہے، اور بغیر کسی شرعی عذر کے قضا نمازوں میں تاخیر کرنا ہرگز جائز نہیں ہوتا۔ جس کے ذمے قضا نمازیں ہوں اس پر لازم ہے کہ جب کبھی فراغت کا وقت میسر ہو تو اسے غنیمت جانتے ہوئے نمازوں کی قضا کرتا رہے یہاں تک کہ وہ مکمل ہوجائیں کہ زندگی کا بھروسہ نہیں۔ لہذا اگر کوئی شخص بلا وجہ قضا نمازوں کی ادائیگی میں تاخیر کرے، خاص طور پر فرصت کا وقت میسر ہونے کے باوجود سُستی کا مظاہرہ کرے ، تو ظاہر ہے کہ یہ بلاعذر تاخیر کرنا ہوگا جو کہ جائز نہیں اور وہ گنہگار بھی ہوگا۔ البتہ بال بچّوں کی پرورش ، اپنی ضروریات کی فراہمی اور کام کاج کی مصروفیات کے سبب تاخیر جائز ہے اور اس کے سبب گناہ نہیں ہوتا۔

قضا نمازوں کی ادائیگی فوری واجب ہے، بلا عذر شرعی تاخیر جائز نہیں۔ ہاں بال بچوں کی پرورش اور حاجات زندگی میں مصروفیت کے سبب تاخیر جائز ہے، چنانچہ تنویر الابصارمع درمختار میں ہے:

(و يجوز تأخير الفوائت) و ان وجبت على الفور (لعذر السعی على العيال و فی الحوائج على الأصح)

ترجمہ: قضا نمازوں کی ادائیگی اگر چہ فوری طور پر کرنا واجب ہے، لیکن بال بچوں کی پرورش اور حاجات زندگی میں کوشش کے عذر کے سبب اصح قول کے مطابق تاخیر جائز ہے۔

اس کے تحت حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

قوله:( لعذر السعي) الإضافة للبيان ط أي فيسعى و يقضي ما قدر بعد فراغه ثم وثم إلى أن تتم.قولہ: (و فی الحوائج)أی ما يحتاجه لنفسه من جلب نفع و دفع ضره

ترجمہ: اور ماتن کا قول (کہ کوشش کے عذر کی وجہ سے) یہ اضافت بیانیہ ہے یعنی وہ (بال بچوں اور حاجات زندگی میں) کوشش کرے، اور فارغ ہو کر جتنی نمازیں پڑھ سکتا ہو پڑھے، پھر آہستہ آہستہ پوری کرتا جائے یہاں تک کہ سب قضا نمازیں ادا ہو جائیں۔ اور ماتن کا قول( کہ حاجات زندگی میں) یعنی وہ چیز جس کی انسان کو نفع حاصل کرنے یا نقصان کو دور کرنے کی اپنی ذات کے لیے ضرورت ہو(اس کی وجہ سے تاخیر جائز ہے۔) (تنویر الابصار مع در مختار و رد المحتار، جلد 2، صفحہ 646، دار المعرفۃ، بیروت)

متن کی عبارت علی العیال کے تحت حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختار میں ہے:

اعم من الزوجۃ والولد،واذا ظفر بفرصۃ یقضی، و ینبغی ان لا یھمل

ترجمہ: (عیال کا لفظ) بیوی اور اولاد دونوں کو شامل ہے، اور جب اسے فرصت ملے تو قضا نماز ادا کرے، اور چاہئے کہ اُسے نظر انداز نہ کرے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار، جلد 2، صفحہ 492، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

بہار شریعت میں ہے: ’’جس کے ذمہ قضا نمازیں ہوں اگرچہ ان کا پڑھنا جلد سے جلد واجب ہے مگر بال بچوں کی خورد و نوش اور اپنی ضروریات کی فراہمی کے سبب تاخیر جائز ہے تو کاروبار بھی کرے اور جو وقت فرصت کا ملے اس میں قضا پڑھتا رہے یہاں تک کہ پوری ہو جائیں‘‘۔ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 4، صفحہ 706، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FAM-838

تاریخ اجراء: 02 صفر المظفر 1447ھ / 28 جولائی 2025ء