
مجیب:مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3598
تاریخ اجراء:23شعبان المعظم 1446ھ/22فروری2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
قنوتِ نازلہ کیا ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر مسلمانوں پر کوئی بڑا عام حادثہ واقع ہو تو فجر کی دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے دعائے قنوت پڑھ سکتے ہیں، اس کو قنوت نازلہ کہتے ہیں، ہمارے (احناف کے)نزدیک صرف خاص مصیبت کے موقع پرصرف فجر کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھنے کی اجازت ہے،اورتحقیق یہ ہے کہ فجرکی دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے ہو،اور عمومی حالات میں سوائے وتر کے کسی نماز میں قنوت نہ پڑھے۔اوروترکی قنوت کی طرح قنوت نازلہ میں بھی قنوت سےپہلےہاتھ اٹھاکر تکبیرکہے۔اورقنوت نازلہ کے لیے کوئی دعا مخصوص نہیں بلکہ جوعام مصیبت واقع ہومثلاطاعون یاوبایاغلبہ کفار،( والعیاذباللہ تعالی)،اس کے دورہونے کی دعاکی جائے، امام ومقتدی سب آہستہ آوازمیں قنوت پڑھیں ،جن مقتدیوں کوقنوت نہ آتی ہووہ آہستہ آہستہ آمین کہیں ۔ در مختار میں ہے” (ولا يقنت لغيره) إلا لنازلة“ترجمہ:وتر کے علاوہ کسی نمازمیں دعائے قنوت نہیں پڑھے گا سوائے مصیبت کے وقت۔
اس کے تحت رد المحتار میں ہے” قال الحافظ أبو جعفر الطحاوي: إنما لا يقنت عندنا في صلاة الفجر من غير بلية، فإن وقعت فتنة أو بلية فلا بأس به، فعله رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وأما القنوت في الصلوات كلها للنوازل فلم يقل به إلا الشافعي۔۔۔ وهو صريح في أن قنوت النازلة عندنا مختص بصلاة الفجر دون غيرها من الصلوات الجهرية أو السرية “ ترجمہ : حافظ ابوجعفر طحاوی نے فرمایا:ہمارے نزدیک نمازِ فجر میں بغیر کسی آفت کے قنوت نہیں پڑھی جائے گی،ہاں اگر کوئی فتنہ یا آفت نازل ہو جائے تو نماز فجر میں قنوت پڑھنے میں حرج نہیں،یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامبارک عمل ہے،اور آفت کے وقت تمام نمازوں میں قنوت پڑھنے کے صرف امام شافعی ہی قائل ہیں۔یہ اس بارے میں صریح ہے کہ قنوت نازلہ ہمارے نزدیک نماز فجر کے ساتھ خاص ہے،اس کے علاوہ کسی سری و جہری نماز میں قنوت نازلہ نہیں۔(رد المحتار علی الدر المختار،ج 2،ص 11،دار الفکر،بیروت)
بہار شریعت میں ہے " وتر کے سوا اور کسی نماز میں قنوت نہ پڑھے۔ ہاں اگر حادثۂ عظیمہ واقع ہو تو فجر میں بھی پڑھ سکتا ہے اور ظاہر یہ ہے کہ رکوع کے قبل قنوت پڑھے۔"(بہار شریعت، جلد1، حصہ4، صفحہ657، مکتبۃ المدینہ کراچی)
فتاوی رضویہ میں ہے " اصل مسئلہ متون یہ ہے کہ وتروں کے سوا کسی نمازمیں دعائے قنوت نہیں، تنویرالابصار وغیرہ میں ہے: ولایقنت فی غیرہ (وترکے علاوہ کسی نمازمیں قنوت نہ پڑھے)مگرامام طحاوی وغیرہ شراح نے معاذاﷲ کسی نازلہ یعنی عام مصیبت کے وقت اس کے دفع کے لئے بھی قنوت جائررکھی، اسی بارے میں حدیث ہے: قنت رسول اللہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم شھرا علی عدۃ قبائل من الکفار۔ ( حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے عرب کے چندقبائل کے خلاف قنوت ایک ماہ پڑھی۔)اس کے لئے کوئی دعا مخصوص نہیں بلکہ جو بلامثل طاعون ووبا یا غلبہ کفار والعیاذ باﷲ تعالی اس کے دفع کی دعا کی جائے گی، تحقیق یہ ہے کہ قنوت صرف نمازفجر میں ہے وما وقع فی بعض الکتب فی صلٰوۃ الجھر فمصحف من صلوۃ الفجر(اوروہ جو بعض کتب میں آیا ہے کہ جہروالی نمازمیں قنوت ہے تو وہاں غلطی سے فجرکے بجائے جہرکالفظ لکھاگیاہے، اصل فجر ہے۔) اور تحقیق یہ ہے کہ فجر کی دوسری رکعت میں بعد قرأت قبل رکوع ہو لان مابعد الرکوع قد خرج عن محلیۃ القنوت کما حققہ المحقق فی الفتح (کیونکہ رکوع کے بعد قنوت کامحل نہیں ہے جیسا کہ محقق نے فتح القدیرمیں اس کی تحقیق فرمائی ہے۔) اور امام ومقتدی سب آہستہ پڑھیں لانہ دعاء وسنۃ الدعاء الاخفاء (کیونکہ وہ دعاہے اور دعا میں سنت اخفاء ہے۔) جن مقتدیوں کویاد نہ ہو وہ آہستہ آہستہ آمین کہیں ۔"(فتاوی رضویہ، جلد07، صفحہ533، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
تکبیر کہنے کے متعلق جزئیہ فتاوی رضویہ میں ہے "وہ رکعت ثانیہ میں بعد قرأت ہاتھ اٹھاکر تکبیر کہیں اور امام ومقتدی سب آہستہ قنوت پڑھیں جس مقتدی کویادنہ ہو آہستہ آہستہ آمین کہتارہے۔ "(فتاوی رضویہ،ج7،ص530،رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم