
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ کیا اقامت کہنے کے بعد صفوں کو درست کرنے کا ا علان کیا جا سکتا ہے؟ ایک امام صاحب کا کہنا ہے کہ اقامت اور تکبیرِ تحریمہ کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہونا چاہیے۔ اِسی وجہ سے وہ صفوں کی درستی کا اعلان بھی نہیں کرتے۔ ہمیں شرعی رہنمائی عطا فرمائیں۔
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اقامت کے بعد اور تکبیر تحریمہ سے پہلے صفوں کی درستی کا اعلان کرنا بالکل جائز، درست، رسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ثابت اور خلفائے راشدین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہم کے معمول کا حصہ رہا ہے، نیز صفوں کی درستی یعنی برابری اور اِتصال وغیرہا شریعت کو مطلوب اُمور ہیں، لہذا اصلاح جماعت کے پیشِ نظر اِس کا اعلان بھی یقیناً اچھا فعل ہے، تا کہ لوگ متوجہ ہو جائیں اور ترکِ واجب کے گناہ میں نہ پڑیں، لہذا امام صاحب کا”اقامت اور تکبیر“ کے درمیان صفوں کی درستی کے اعلان سے روکنا درست نہیں۔ اُنہیں محبت ومصلحت سے عرض کیجیے۔ اِن شاء اللہ تعالی حکم شرعی کو قبول کریں گے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل مبارک:
(1) ابو عبداللہ امام محمد بن اسماعیل بخاری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 256ھ/ 870ء) حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت کرتے ہیں:
أقيمت الصلاة، فأقبل علينا رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم بوجهه فقال: أقيموا صفوفكم و تراصوا، فإني أراكم من وراء ظهري
ترجمہ:اقامت پڑھی جا چکی تھی، تو نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّمَ نےہماری جانب رُخ کرتے ہوئے فرمایا:اپنی صفوں کو سیدھا رکھو اور باہم مل کر کھڑے ہو۔ بے شک میں تمہیں اپنے پیچھےسے بھی دیکھتا ہوں۔(صحیح البخاری، جلد 01، باب إقبال الإمام على الناس، صفحہ 145، مطبوعہ دار طوق النجاۃ، بیروت)
اِسی روایت کو امام نسائی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے صیغہِ استمرار کے ساتھ روایت کیا، جس سے پتا چلتا ہے کہ یہ ایک دفعہ کا واقعہ نہیں، بلکہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ عموماً یہ اعلان فرمایا کرتے تھے، چنانچہ آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے نقل فرمایا:
عن انس أن النبي صلى اللہ عليه وسلم كان يقول: «استووا، استووا، استووا، فوالذي نفسي بيده إني لأراكم من خلفي، كما أراكم من بين يدي
ترجمہ: حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عموماً یوں فرمایا کرتے تھے: اپنی صفیں برابر کر لو، اپنی صفیں برابر کر لو، اپنی صفیں برابر کر لو۔اُس ذات کی قسم! جس کے قبضہِ قدرت میں میری جان ہے، بے شک میں تمہیں اپنے پیچھے ہوتے ہوئے بھی اُسی طرح دیکھتا ہوں، جیسے تمہیں سامنے ہوتے ہوئے دیکھتا ہوں۔(سنن النسائی، جلد 02، صفحہ 91، مطبوعہ المكتبة التجارية الكبرى، قاهرة)
شارِح بخاری، علامہ بدرالدین عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 855ھ/ 1451ء) نے حدیثِ بخاری کے تحت لکھا:
مما يستفاد منه: جواز الكلام بين الإقامة و بين الصلاة، و وجوب تسوية الصفوف
ترجمہ: اِس روایت سے اِقامت اور نماز کے درمیان کلام کرنے کا جواز اور صفوں کے برابر ہونے کا وجوب مستفاد ہوتا ہے۔ (عمدۃ القاری، جلد 05، صفحہ 255، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت)
خلیفہِ مفتی اعظم ہند، شیخ الحدیث علامہ غلام رسول رضوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1422ھ/ 2001ء) نے لکھا: ”اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اقامت اور تکبیرِ تحریمہ کے درمیان کلام کرنا، جائز ہے، نیز اس حدیث میں آپ ﷺ کا یہ معجزہ ہے کہ اشیاء کو دیکھنے میں آپ ﷺ دیگر انسانوں سے مختلف ہیں۔ آگے پیچھے سے دیکھنا اور روشنی وتاریکی میں دیکھنا آپ کی شانِ امتیازی ہے۔ اِس میں آپ کی نظیر معدوم ہے۔“ (تفھیم البخاری، جلد 01، صفحہ 1078، مطبوعه تفھیم البخاری پبلی کیشنز، فیصل آباد)
(2) ابو حسین امام مسلم بن حجاج قشیری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(وِصال:261ھ/875ء) ایک واقعہ نقل کرتے ہیں:
ثم خرج يوما فقام حتى كاد يكبر فرأى رجلا باديا صدره من الصف. فقال عباد اللہ! لتسون صفوفكم او لیخالفن اللہ بين وجوهكم
ترجمہ: ایک دن نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نماز پڑھانے کے لیے تشریف لائے۔ آپ تکبیرِ تحریمہ پڑھنے ہی لگے تھے کہ آپ نے ایک شخص کو دیکھا، جس نے اپنا سینہ صف سے باہر نکالا ہوا تھا۔ اُسے دیکھ کر نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اے بندگانِ خدا! تم لازمی طور پر اپنی صفیں برابر رکھا کرو، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان اختلاف پیدا فرما دے گا۔ (صحیح المسلم، جلد 01، صفحه 324، مطبوعه دار احیاء التراث العربی، بیروت)
خلفائے راشدین کا معمول:
ابو عیسیٰ امام محمد بن عیسیٰ ترمذی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(وِصال: 279ھ/ 892ء) خلفائے راشدین کا معمول بیان کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں:
روي عن عمر أنه كان يوكل رجلا بإقامة الصفوف، و لا يكبر حتى يخبر أن الصفوف قد استوت وروي عن علي وعثمان أنهما كانا يتعاهدان ذلك ويقولان: استووا، و كان علي يقول: تقدم يا فلان، تأخر يا فلان
ترجمہ: حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ آپ ایک بندے کو صفیں درست کروانے کی ذمہ داری دیتے اور جب تک وہ بندہ تمام صفیں درست ہونے کی خبر نہ دیتا، آپ تکبیرِ تحریمہ نہ کہتے۔ حضرت علی المرتضیٰ اور حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہما کے متعلق منقول ہوا کہ آپ صفوں کی درستی کا باقاعدہ خیال و اہتمام کرتے اور اعلان کیا کرتے: ”اپنی صفوں کو درست کرلو“ اور حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ تو یوں صفوں کو درست کرواتے: اے فلاں! تم آگے ہو جائے، اے فلاں! تم پیچھے ہو جاؤ۔ (جامع الترمذی، جلد 01، باب ما جاء في اقامۃ الصفوف، صفحہ 265، مطبوعہ دار الغرب الاسلامی، بیروت)
فقیہِ اعظم ہند مفتی شریف الحق امجدی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1421ھ / 2000ء) لکھتے ہیں: ”ان سب احادیث سے معلوم ہوا کہ اقامت کے بعد بھی اگر صفیں درست نہ ہوں، تو جب تک صفیں درست نہ ہوں، تکبیرِ تحریمہ میں تاخیر ہو سکتی ہے اور یہی حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور خلفائے راشدین کا معمول تھا۔“ (نزھۃ القاری شرح بخاری، جلد 02، صفحہ 372،مطبوعہ فرید بک سٹال،لا ھور)
فخر الدین علامہ زَیْلَعی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 743ھ/ 1342ء) نے لکھا:
ينبغي للقوم إذا قاموا إلى الصلاة أن يتراصوا ويسدوا الخلل ويسووا بين مناكبهم في الصفوف و لا بأس أن يأمرهم الإمام بذلک
ترجمہ: مقتدیوں کو چاہیے کہ جب نماز کے لیے کھڑے ہو جائیں تو ساتھ مل کر کھڑے ہوں، خالی جگہ پُر کریں اور کندھوں کو برابر کریں اور اگر امام اُنہیں اِن اُمور کی تلقین کرے، تو اِس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ (تبیین الحقائق، جلد 01، صفحہ 136، مطبوعہ قاھرۃ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-9023
تاریخ اجراء: 29 محرم الحرام 1446ھ /05 اگست 2024