
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ايك شخص جس پر سجدۂ سہو واجب تھا،اس نےسجدۂ سہو کرنے کے بعد جان بوجھ کر تشہد پڑھےبغیر سلام پھیر دیا،ایسے شخص کی نماز کا کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں مذکورہ شخص پروہ نماز واجب الاعادہ ( دوبارہ ادا کرناواجب) ہے۔
تفصیل اس میں یہ ہےکہ سجدہ سہوکے بعد دوبارہ تشہد (التحیات) پڑھنا واجب ہے، کیوں کہ پہلے جو تشہد پڑھی گئی تھی،سجدۂ سہو کرنے کی وجہ سے وہ ساقط ہو گئی، اب سجدۂ سہو کے بعددوبارہ تشہد پڑھنا ضروری ہے۔ پس اگر کوئی تشہد پڑھے بغیر عمداً سلام پھیر دے، ایسے شخص کی نماز کا فرض تو ادا ہوجائے گا،مگر جان بوجھ کرواجب کو ترک کرنے کے سبب گنہگار ہوگا اور اس کی نماز ناقص طور پر ادا ہوگی اور ہر وہ نماز کہ جوواجب کو عمداً ترک کرنے کے سبب ناقِص ہو جائے، اُسے دوبارہ پڑھنا واجب ہوتاہے، لہذا ایسے شخص کے لیے دوبارہ نماز پڑھنا واجب ہے۔
ترمذی شریف کی حدیث مبار ک میں ہے:
أن النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلی بھم فسھا فسجد سجدتین ثم تشھد ثم سلم
ترجمہ:بیشک نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نےصحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم کے ساتھ نماز پڑھی، تو آپ کو دورانِ نماز سہو ہوا، پس آپ نے دو سجدے کئے پھر دوبارہ تشہد پڑھی اور سلام پھیرا۔ (جامع الترمذی، جلد 1، صفحہ 420، مطبوعہ دار الغرب الاسلامی، بیروت)
مذکورہ حدیث پاک کے تحت مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1391ھ / 1971ء) لکھتےہیں:”اس سے معلوم ہوا کہ سجدۂ سہو کے بعد التحیات ہے۔“ (مراۃ المناجیح، جلد 2، صفحہ 135، مطبوعہ حسن پبلشرز،لاہور)
سجدۂ سہو کے بعد تشہد پڑھنا واجب ہے، چنانچہ شرح وقایہ، تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق اورنورالایضاح میں ہے:
و النظم للآخر: يجب سجدتان بتشهد و تسليم لترك واجب سهوا
ترجمہ: نمازمیں کوئی واجب سہواً ترک ہوجائے، تو اس کے لیے تشہد اور سلام کے ساتھ دوسجدے کرنا واجب ہے۔ (نور الایضاح، صفحہ 95، مطبوعہ المكتبة العصرية)
مذکورہ عبارت میں
بتشھد وسلام
کے تحت حاشیہ طحطاوی علی المراقی میں ہے:
ھما واجبان بعد سجود السہو
ترجمہ: یہ دونوں (یعنی تشہد اور سلام) سجدۂ سہو کے بعد واجب ہیں۔ (حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح، صفحہ 460، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ/ 1947ء) لکھتے ہیں:”سجدۂ سہو کے بعد بھی التحیات پڑھنا واجب ہے، التحیات پڑھ کرسلام پھیرے۔“(بہار شریعت، جلد 1، حصہ 4، صفحہ 710، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)
دوبارہ تشہد پڑھنا اس لیے واجب ہے کہ پہلے والی تشہد سجدۂ سہو کے سبب ساقط ہوگئی، چنانچہ غنیۃ المتملی، الجوہرۃ النیرہ اور تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:
و النظم للآخر: (و يجب لہ)۔۔۔(سجدتان، و) يجب أيضًا(تشهد وسلام)،لأن سجود السهو يرفع التشهد
یعنی سجدۂ سہو کے لیے دو سجدے اور اسی طرح (ان سجدوں کے بعد) تشہد اور سلام واجب ہیں ،اس لیے کہ سجدۂ سہو پہلے والی تشہد کو ساقط کردیتا ہے۔ (تنویر الابصار مع در مختار، جلد 2، صفحہ 78، مطبوعہ دار الفكر، بيروت)
تشہد پڑھے بغیر سلام پھیر دیا، تو نماز کا فرض تو ادا ہو جائے گا،مگر واجب کو ترک کرنے کے سبب نماز ناقص طور پر ادا ہوگی، جیسا کہ درر الحکام، رد المحتار اور مراقی الفلاح شرح نورالایضاح میں ہے:
والنظم للآخر: لوسلم من غیر اعادتھا او لم یسلم صحت صلاتہ مع النقصان
ترجمہ:اگر کسی نے تشہد کا اعادہ کیے بغیر سلام پھیر دیا ،یا سلام بھی نہ پھیرا، اس کی نماز ناقص ادا ہوگی۔
مذکورہ عبارت کے تحت حاشية الطحطاوی على مراقی الفلاح شرح نور الايضاح میں ہے:
لان الواجب اعادۃ السلام والتشھد وقد ترکھما
ترجمہ: اس لیے کہ تشہد اور سلام کا اعادہ کرنا واجب ہے اور اس نے ان کو ترک کردیا۔(حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح، صفحہ 459، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت)
نماز کے واجب کو عمداً ترک کرنے کے حکم سے متعلق بہارشریعت اورفتاویٰ امجدیہ میں ہے:
والنظم للآخر:
”واجباتِ نماز سے ہر واجب کے ترک کا یہی حکم ہے کہ اگر سہواً ہو تو سجدۂ سہو واجب، اور اگر سجدۂ سہو نہ کیا یا قصداً واجب کو ترک کیا تو نماز کا اعادہ واجب ہے۔“ (فتاویٰ امجدیہ، جلد01، صفحہ 276، مکتبہ رضویہ، کراچی)
مفتی محمد مجیب اشرف رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1441ھ/ 2020ء) سجدہ سہوکے احکامات پر مشتمل تفصیلی کتاب”تنویر الضحولسجدۃ السہو“میں لکھتےہیں:”سجدۂ سہو کرنے سے وہ قعدہ جو سجدۂ سہو سے پہلے کیا ہے وہ باطل نہ ہوا،باقی رہتا ہے، مگر دوبارہ تشہد پڑھنا واجب ہے،اگر سجدۂ سہو کرکے بغیر التحیات پڑھے سلام پھیر دیا ،تو فرض ادا ہوگیا،مگر واجب چھوڑ دینے سے گنہگار ہوا، ایسی نماز کو لوٹانا واجب ہے۔“(تنویر الضحو لسجدۃ السھو، صفحہ 105، ناشر نوری میڈیکل، ناگپور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: OKR-0049
تاریخ اجراء: 14 صفر المظفر 1447ھ / 09اگست 2025ء