جماعت کے دوران سجدے میں دُعا مانگنا کیسا؟

سجدے میں دعا مانگنے کے بارے میں مختلف احکام

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ سجدے میں دعائیں مانگنی چاہئیں؟ اور کیا فرض نماز کی جماعت کے دوران یہ دعائیں مانگ سکتے ہیں؟نیز کیا یہ دعائیں، جیسے

يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغيثُ اور لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ،

وغیرہ سجدے میں مانگ سکتے ہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

سوال کے تین جز ہیں، تینوں کے بالترتیب جوابات ملاحظہ کیجیے:

(1) سجدے میں دعا کی شرعی حیثیت،

(2) نماز میں اور بالخصوص جماعت کے دوران سجدے میں امام و مقتدی کےدعا مانگنے کا حکم،

(3) کونسی دعائیں سجدے میں کی جاسکتی ہیں؟

(1) سجدے کی حالت میں بندے کو جس قدر قرب الہٰی حاصل ہوتا ہے وہ کسی اَور حالت میں نہیں ہوتا اور یہ حالت قبولیت دعا میں خاص تاثیر رکھتی ہے، اسی لیے حدیث پاک میں سجدے کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں التجائیں اور دعائیں کرنے، حاجتیں مانگنےکی ترغیبات موجود ہیں، لہٰذا اگر ممانعت کی کوئی وجہ نہ ہو، مثلاًمکروہ وقت نہ ہو، تو سجدہ کرنا اور اس میں اللہ کریم سے دعائیں کرنا بلاشبہ جائز عمل ہے، اس میں زیادہ بہتر یہ ہےکہ نماز کے علاوہ سجدہ کرنا ہو تو سجدہ شکر کی نیت کر لی جائے پھر اس سجدے میں جتنی چاہیں دعائیں کر لیں، تاہم مطلق سجدے کی نیت کر لی، تب بھی احناف کے نزدیک سجدہ بلا کراہت درست ہے، (نماز کے سجدے میں دعا کی تفصیل ذیل میں ہے)۔

(2) فقہائے احناف نے اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ فرض و واجب نماز ادا کرتے ہوئے رکوع و سجود کی تسبیحات کے علاوہ کوئی اور دعا نہ پڑھنا مسنون ہے، البتہ تنہانوافل پڑھنے والادعائیں پڑھے، تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں، اس لیے کہ احادیث طیبہ میں جو نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سجدے میں مختلف دعائیں مانگنامنقول ہے، وہ تمام احادیث نوافل پر محمول ہیں، یعنی منفرد (تنہا نماز پڑھنے والا) جب نفل پڑھ رہا ہو، تو وہ جس قدر چاہے، نماز کے سجدے میں دعائیں مانگ سکتا ہے، لہٰذا جماعت کے دوران امام و مقتدی بھی سجدے میں دعائیں نہیں پڑھیں گے کہ دعائیں مانگنے کا حکم تنہا نفل پڑھنے والے کے لیے ہے، بلکہ اگر امام کے اس عمل سے قوم مشقت اور تکلیف میں پڑے، تو اس کا حکم مزید سخت ہوجائے گا۔

اس مسئلہ کے چندفقہی نظائر یہ ہیں کہ(۱) دو سجدوں کے درمیان طویل دعا تنہا نفل پڑھنے والے کے علاوہ سب افراد کے لیے مکروہ ہے، خواہ وہ جماعت میں شامل امام، مقتدی ہوں یا تنہا فرض ادا کرنے والے،سب کے لیے مکروہ قرار دی گئی ہے، جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام اہلسنت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اس کی صراحت فرمائی۔

)۲( اسی طرح ثناکے موقع پر طویل دعائیں اور ثناپر مشتمل کلمات کہنے کی اجازت صرف نوافل میں ہے، جس کی تائید خود حدیث پاک سے ہوتی ہے، لہٰذا یہاں سجدے کے متعلق بھی یہی حکم ہو گاکہ سجدے میں دعائیں تنہا نفل پڑھنے والے کے لیے ہیں۔ امام و مقتدی جماعت کے دوران سجدوں میں دعائیں نہیں پڑھ سکتے۔

(3) جہاں تک اس بات کا تعلق ہےکہ یہ دعائیں 

يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ اَسْتَغيثُ اور  لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ

  وغیرہ سجدے میں مانگ سکتے ہیں یا نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جی ہاں! نفل نماز اور نفلی سجدہ میں بلا شبہ یہ دعائیں مانگی جاسکتی ہیں، البتہ سجدے میں کون کونسی دعائیں مانگی جاسکتی ہیں، اس حوالے سے ضابطہ اورکلیہ یہ ہے کہ نماز کےسجدے میں ہر وہ دعا مانگی جاسکتی ہے جو قرآن و حدیث میں واردہوئی ہے۔ اور اگر اِس کے علاوہ دعاکرنی ہو، تو ضروری ہے کہ ایسی دعاکی جائے جو کلام الناس (لوگوں کے کلام) کے مشابہ نہ ہو، یعنی (کلام الناس سے مراد یہ ہے کہ) ایسی دعا نہیں کر سکتے ہیں جس کا بندوں سے مانگنامحال نہیں (مثلاً:

اللّٰھم زوجنی فلانۃ

یعنی اے اللہ! میری فلاں عورت سے شادی کردے، یا

اَللّٰھم ارزقنی بقلا و قثاء و عدسا و لحما

یعنی اے اللہ! مجھے ساگ، ککڑی، مسور اور گوشت کا رزق عطا فرما۔ یہ کلام الناس کے مشابہ ہے،یعنی ایسی چیز ہے جو بندوں سے مانگنا محال نہیں، بلکہ مانگی جاسکتی ہے، لہٰذا ایسی دعا نہیں کر سکتے، البتہ مطلق رزق کی دعا کر سکتے ہیں،جیسے

اللّٰھم ارزقنی

یعنی یااللہ!مجھے رزق عطا فرما۔ یونہی یہ دعا بھی کر سکتے ہیں کہ

اَللّٰھم اغفر لعمی او لعمرو

یعنی اے اللہ! میرے چچا یا عمرو کی بخشش کر دے، تو یہ کلام اگرچہ قرآن و حدیث میں نہیں، مگر ایسی بات ہے جو بندوں سے نہیں مانگی جاسکتی، کیونکہ بندوں سے مغفرت کا سوال کرنا محال ہے، اس لیے کہ بخشش رب تبارک و تعالیٰ کی ذات ہی فرماتی ہے۔ لہٰذا یہ دعا کی جاسکتی ہے۔ نیز نماز کے سجدے میں دعا کرتے ہوئے یہ بات بھی ملحوظ ہونا ضروری ہے کہ جو شخص عربی میں دعا اور اذکارِ نماز پڑھنے پر قدرت رکھتا ہو، اُسے عربی زبان میں پڑھنا لازم و ضروری ہے۔ عربی کے علاوہ کسی اور زبان، مثلاً اردو، فارسی یا انگریزی وغیرہ میں دعا کرنا، ناجائز و گناہ ہے۔

البتہ اگر نماز سے باہر نفلی سجدہ کیا جائے، تو اس میں بھی بہتر یہی ہے کہ عربی زبان میں دعا کی جائے کہ نماز سے الگ سجدہ میں بھی عربی میں ہی دعا کرنا بہتر ہے، تاہم اپنی مادری زبان میں دعا کرنا، ناجائز و گناہ نہیں۔

(1) سجدے میں دعا قبولیت کے زیادہ قریب ہوتی ہے، چنانچہ صحیح مسلم شریف، سنن ابو داؤد اور ديگر کتب صحاح کی حدیث مبارک ہے:

عن ابی ھریرۃ: ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال: اقرب ما یکون العبد من ربہ وھو ساجد فاکثروا الدعا

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: سب سے زیادہ جس حالت میں بندہ رب کے قریب ہوتا ہے وہ سجدے کی حالت ہے، لہٰذا سجدے میں زیادہ دعا مانگا کرو۔ (سنن ابو داؤد، جلد 1، صفحہ 231، مطبوعہ المکتبۃ العصریہ، بیروت)

اس حدیث پاک کے تحت علامہ بدرالدین عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 855ھ/ 1451ء) ”شرح سنن ابی داؤد“ میں اور علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1014ھ/ 1605ء) ”مرقاۃ“ میں لکھتے ہیں،

و اللفظ للاول: لانہ حالۃ تدل علی غایۃ تذلل و اعتراف بعبودیۃ نفسہ و ربوبیۃ ربہ، فکانت مظنۃ اجابۃ فلذلک امر علیہ السلام باکثار الدعاء فی السجود

یعنی چونکہ سجدے کی حالت انتہائی عاجزی پر اور اپنے آپ کےبندہ ہونے اور اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر دلالت کرتی ہے، لہٰذا یہ حالت (سجدہ) قبولیت دعا کا سبب ہے، اسی وجہ سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدوں میں زیادہ دعا کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ (شرح سنن ابی داؤد، جلد 4، صفحہ82، مطبوعہ ریاض)

علامہ حسین بن محمود شیرازی مُظْہِرِی حَنَفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 727ھ) لکھتے ہیں:

و إذا قرب من ربه يكون دعاؤه مقبولا، لأن الحبيب يحب حبيبه المطيع و يقبل ما يقول و يسأل

ترجمہ: اور جب بندہ اپنے رب کا قرب پا لیتا ہے تو اس کی دعا مقبول ہوتی ہے، کیونکہ حبیب اپنے اطاعت گزار حبیب سے محبت فرماتا اور جو وہ کہتا اور مانگتا اسے (قبول فرما کر) عطافرماتا ہے۔ (المفاتیح شرح المصابیح، باب السجود و فضلہ، جلد 2، صفحہ 151، مطبوعہ دار النور)

مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1391ھ/ 1971ء) لکھتےہیں: ”یعنی رب تو ہم سے ہر وقت قریب ہے ہم اس سے دور رہتے ہیں، البتہ سجدے کی حالت میں ہمیں اس سے خصوصی قرب نصیب ہوتا ہے، لہٰذا اس قرب کو غنیمت سمجھ کر جو مانگ سکیں، مانگ لیں۔ بعض لوگ سجدے میں گرکر دعائیں مانگتے ہیں یعنی دعا کے لئے سجدہ کرتے ہیں، ان کا ماخذ یہ حدیث ہے۔ (مراۃ المناجیح، جلد 2، صفحہ 81، قادری پبلشرز لاھور)

احسن الوعاء لآداب الدعاء “میں ہے: ”ادب ۱۰، ۱۱، ۱۲: دعا کے وقت باوضو، قبلہ رُو، مُؤدّب (با ادب) دو زانو بیٹھے یا گھٹنوں کے بل کھڑا ہو۔قال الرضا: یابہ نیتِ شکرِ توفیقِ دعا و التجاء اِلَی اللہ،سجدہ کرے کہ یہ صورت سب سے زیادہ قُرب رب کی ہے،

قالہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم۔

(یعنی یہ بات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمائی ہے۔) (فضائل دعا، صفحہ 62، مطبوعہ مکتبۃالمدینۃ، کراچی)

مکروہ وقت میں سجدہ شکر اور نفلی سجدہ نہیں کرسکتے، جیسا کہ فتاوی عالمگیری میں ہے:

و يكره أن يسجد شكرا بعد الصلاة في الوقت الذي يكره فيه النفل ولا يكره في غيره، كذا في القنية

ترجمہ: نماز کے بعدسجدۂ شکرکرنا ان اوقات میں مکروہ ہے جن میں نفل پڑھنا مکروہ ہے اور اس کے علاوہ دیگر اوقات میں مکروہ نہیں،یونہی قنیہ میں ہے۔ (فتاوی ھندیہ، جلد 1، صفحہ 136، دار الفکر، بیروت(

(2) فرض و واجب کے رکوع و سجود میں تسبیحات کے علاوہ کچھ نہ پڑھنا مسنون ہے، چنانچہ علامہ علاؤالدین حَصْکَفی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1088ھ/ 1677ء) لکھتےہیں:

و ليس بينهما ذكر مسنون، و كذاليس بعد رفعه من الركوع دعاء، و كذا لا يأتي في ركوعه و سجوده بغير التسبيح على المذهب و ما ورد محمول على النفل

ترجمہ: اور دو سجدوں کے درمیان کوئی مسنون ذکر (و دعا) نہیں ہے، اسی طرح رکوع سے اٹھنے کے بعد (قومہ میں) کوئی دعا سنت نہیں، یونہی رکوع و سجود میں مذہب صحیح کے مطابق تسبیح کے علاوہ کوئی دعا پڑھنا سنت نہیں ہے اور جو احادیث طیبہ میں دعائیں وارد ہوئی ہیں، وہ نفل پرمحمول ہیں۔

مذکورہ بالاعبارت کے تحت علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1252ھ/ 1836ء) لکھتے ہیں:

الحمل المذكور صرح به المشايخ في الوارد في الركوع و السجود

ترجمہ: نفل پر محمول کرنے کی صراحت مشائخ کرام نے رکوع وسجود کے بارے میں آنے والی حدیثوں کی فرمائی ہے۔ (الدر المختار مع رد المحتار، جلد 1، صفحہ 212، 213، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

یونہی حاشیۃ الطحطاوی علی الدر میں ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر، جلد 2، صفحہ 192، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ، بیروت)

احادیث طیبہ میں جو دعائیں وارد ہوئیں،وہ تنہا نوافل میں پڑھنا مستحب ہے، چنانچہ علامہ عبد الرحمن بن محمد عمادی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 978ھ/ 1570ء) ”ہدیہ ابن العماد“میں لکھتے ہیں:

و یستحب ان یزید فی اذکار صلاۃ النوافل مما ورد عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم

یعنی مستحب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے جو اوراد ثابت ہوئے، ان کو نوافل کے اذکار میں شامل کرے۔ (ھدیہ ابن العماد مع نھایۃ المراد، صفحہ 673، مطبوعہ دار ابن حزم، دمشق)

لہٰذا جماعت کے دوران امام و مقتدی بھی سجدے میں دعائیں نہیں پڑھ سکتے، جیساکہ جلسہ (دو سجدوں کے درمیان) میں کوئی مسنون دعا نہیں اور طویل دعائیں امام و مقتدی سب کے لیے مکروہ قرار دی گئی، چنانچہ دوسجدوں کےدرمیان دعا پڑھنے کے متعلق اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ/ 1921ء) سے سوال ہوا تو آپ عَلَیْہِ الرَّحْمَۃنےارشادفرمایا:"اَللّٰھُمَّ اغْفِرلی"کہنا امام ومقتدی و منفردسب کومستحب ہے اور زیادہ طویل دعا سب کو مکروہ، ہاں! منفرد کو نوافل میں مضائقہ نہیں۔ (فتاوی رضویہ، جلد 6، صفحہ 182، مطبوعہ رضافاونڈیشن، لاہور)

مسنون اذکار کے علاوہ دعاؤں وغیرہ کا نوافل میں پڑھنے پرمحمول ہونا حدیث پاک سے ہی ماخوذ ہے، چنانچہ نمازمیں معروف ثنا پڑھنے کے بعد دیگر اوراد اور دعاؤں کے متعلق حدیث پاک نقل کرنے کے بعد شیخِ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلوی حنفی بخاری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1052ھ) لکھتےہیں:

ما روی سوی ذلک فھو محمول علی التھجد بل مطلق النوافل لما ثبت فی صحیح ابی عوانۃ والنسائی :انہ صلی اللہ علیہ وسلم کان اذا قام یصلی تطوعا قال:اللہ اکبر، وجھت وجھی۔۔۔ الی آخرہ، فیکون مفسرا لما فی غیرہ بخلاف: سبحانک اللّٰھم، فانہ المستقر علیہ فی الفرائض

یعنی اس(سبحانک اللّٰھم) کے علاوہ جو اوراد مروی ہیں وہ تہجد بلکہ مطلق نوافل پر محمول ہیں، کیونکہ صحیح ابوعوانہ اور سنن نسائی میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب نفل نماز ادا فرماتے، تو کہتے:

اللہ اکبر، وجھت وجھی۔۔۔

عبارت کے آخر تک

(یعنی یہ دعا پڑھی:وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَ الْاَرْضَ حَنِيفاً وَ مَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ اِنَّ صَلاتِیْ وَ نُسُكِي وَ مَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ)۔

تو یہ حدیث دیگر حدیثوں کی مُفسِر ہے، برخلاف

سبحانک اللّٰھم

 (معروف ثنا) کے کہ فرائض میں صرف وہی پڑھی جائے گی۔ (لمعات التنقیح، جلد 2، صفحہ 563، مطبوعہ دار النوادر، دمشق)

مذکورہ جزئیہ میں موجود روایت سنن نسائی، مشکوۃ المصابیح اور دیگر کتبِ احادیث میں بھی موجود ہے، جس سے یہ بات بالکل روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ عمومی اذکارِ نماز کےعلاوہ دیگر دعائیں وغیرہ نوافل پر محمول ہیں۔

یونہی علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:

ظاھرہ یؤید مذھبنا المختار ان یقرا بوجھت وجھی فی النوافل و السنن

ترجمہ: اس حدیث پاک کا ظاہر ہمارے مختار مذہب کی تائید کرتا ہے کہ

وجھت وجھی۔۔

 (دعا) نوافل و سنن میں پڑھی جائے گی۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد 2، صفحہ 504، مطبوعہ کوئٹہ)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ/ 1947ء) لکھتے ہیں:”تحریمہ کے بعد فوراً ثنا پڑھے اور ثنا میں ”وجل ثناؤک“غیر جنازہ میں نہ پڑھے اور دیگر اذکار جو احادیث میں وارد ہیں،وہ سب نفل کے لئے ہیں۔ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 523،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

(3) نماز کے سجدہ میں کی جانے والی دعاؤں کی تفصیل کے متعلق تنوير الابصار و درمختار مع رد المحتار میں ہے:

(و دعا) بالعربیۃ، و حرم بغیرھا۔۔۔(بالأدعیۃ المذکورۃ في القرآن والسنۃ،لا بما یشبہ کلام الناس)اضطرب فيه كلامهم …و المختار كما قاله الحلبي أن ما هو في القرآن أو في الحديث لا يفسد،وما ليس في أحدهما إن استحال طلبه من الخلق لا يفسد،وإلا يفسد… فلا تفسد بسؤال المغفرة مطلقا ولو لعمي أو لعمرو، و كذا الرزق ما لم يقيده بمال ونحوه لاستعماله في العباد مجازا،ملخصاً

ترجمہ: اور دعا عربی میں کی جائے گی، غیرِ عربی میں حرام ہے اور وہی دعائیں مانگی جا سکتی ہیں، جو قرآن و سنت میں مذکور ہیں اور لوگوں کے کلام کے مشابہ نہ ہوں۔ کلام الناس کی تشریح میں علما کا کلام مختلف ہے اور مختار وہ ہےجو علامہ حلبی علیہ الرحمۃ نے کہا ہےکہ جو قرآن و حدیث میں دعائیں ذکر ہوئی ہیں،ان کو پڑھنے سے نماز فاسد نہیں ہوگی اور اگر ان دونوں میں سے کسی ایک میں بھی نہیں ہے، تو اگر اس کا مخلوق سے مانگنا محال ہے،تو نماز فاسد نہیں ہوگی،ورنہ فاسد ہوجائےگی، لہٰذا مغفرت کا سوال کرنے سے مطلقا نماز فاسد نہیں ہوگی،اگرچہ یہ کہے "لعمی او لعمرو"یونہی ر زق کی دعا کی جاسکتی ہے جب تک کہ اسے مال یا ایسی چیزکے ساتھ مقید نہ کر دیا جائے، جو بندوں کے لیے مجازاًاستعمال ہوتی ہو۔

اس کے تحت رد المحتار میں امثلہ ذکر کرتے ہوئے لکھا:

(قوله إن استحال طلبه من الخلق)كاغفر لعمي أو لعمرو فلا يفسد و إن لم يكن في القرآن (قوله و إلا يفسد) مثل اللّٰهم ارزقني بقلا وقثاء وعدسا وبصلا، أو ارزقني فلانة …(قوله مطلقا) أي سواء كان في القرآن كاغفر لي أو لا كاغفر لعمي أو لعمرو لأن المغفرة يستحيل طلبها من العباد {ومن يغفر الذنوب إلا اللّٰہ}

 یعنی (شارح کا قول کہ اگر اس کا مخلوق سے مانگنا محال ہو) جیساکہ یہ دعا کرنا اے اللہ! میرے چچا اور عمرو کی بخشش فرما، تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی، اگرچہ یہ قرآن میں نہیں ہے۔شارح کا قول: ورنہ فاسد ہوجائے گی،مثال کے طور پر یہ دعا کرنا "اے اللہ! مجھے ساگ، ککڑی، مسور اور پیاز کھلا، یا یہ کہنا "یا اللہ! مجھے فلاں عورت عطا فرما۔ شارح کا قول: مطلق بخشش کی دعا۔ یعنی خواہ وہ قرآن میں ہو،جیسے"اغفرلی" یا نہ ہو،جیسے

اغفر لعمی او لعمرو،

کیونکہ بندوں سےبخشش مانگنا محال ہے،اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے:{ومن يغفر الذنوب إلا اللّٰہ}اور اللہ کے علاوہ کون گناہوں کو معاف کر سکتا ہے۔ (تنویر الابصار و در مختار مع رد المحتار، جلد 2 ، صفحہ 233، 234 ، 237 ، مطبوعہ دار الكتب العلميه ، بيروت)

نماز میں غیر عربی میں دعا کے متعلق علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتےہیں:

أما بقية أذكار الصلاة فلم أر من صرح فيها بالكراهة سوى ما تقدم، و لا يبعد أن يكون الدعاء بالفارسية مكروهاً تحريماً في الصلاة و تنزيهاً خارجها

ترجمہ: بہر حال اذکارِ نماز تومیں نے گزشتہ مقام کے علاوہ کراہت کےمتعلق کسی کی بھی صراحت نہیں دیکھی اور یہ کوئی بعید بھی نہیں کہ نماز میں فارسی میں دعا کرنا مکروہ تحریمی ہو۔ (ردالمحتار مع الدرالمختار، جلد 2، صفحہ286، مطبوعہ کوئٹہ)

رد المحتار کی اس عبارت”مكروهاً تحريماً في الصلاة“کے تحت امام اہلِ سنت امام احمدرضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:

اقول: يؤيده ان القصر علی العربیۃ مواظب علیہ ، ولم یثبت ترکہ ولو مرۃ فکان ایۃ الوجوب

ترجمہ: میں کہتا ہوں: اسی بات کی تائید یہ بات بھی کرتی ہےکہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا عربی پر ہی اکتفا کرنا اور اسی پر ہمیشگی اختیار کرنا اور ایک مرتبہ بھی اس کو ترک نہ کرنا ،عربی میں دعا کرنے کے وجوب کی نشانی ہے۔ (جد الممتار ، جلد 3 ، صفحہ 223 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Fsd-9311

تاریخ اجراء: 27شوال المکرم 1446ھ/ 26اپریل 2025ء