دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ میرے والد صاحب کا بچپن میں ہاتھ ٹوٹ گیا تھا جس وجہ سے ان سے سجدے میں جاتے ہوئے ہاتھ زمین پر رکھا نہیں جاتا، اور میرے والد صاحب حالتِ سجدہ میں اپنی کمر کے پیچھے ہاتھ کر لیتے ہیں تو کیا میرے والد صاحب کی نماز صحیح ادا ہو جاتی ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
عذرکی وجہ سے سجدے میں ہاتھ زمین پرنہیں رکھا جاتا تو اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا، نماز درست ہوجائے گی۔
تفصیل اس میں یہ ہے کہ:
حدیث پاک کے مطابق سات ہڈیوں پرسجدہ کرنے کاحکم دیاگیاہے، جن میں دونوں ہاتھ بھی شامل ہیں اورنبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے بھی سجدے میں ہمیشہ دونوں ہاتھ مبارک زمین پررکھے ہیں، ان کاتقاضاہے کہ سجدے میں دونوں ہاتھوں کا زمین پر رکھناواجب ہے اور محقق علی الاطلاق علامہ ابن ھمام علیہ الرحمۃ نے اسے اختیار فرمایا ہے اور بحر میں اسے اصول کے موافق ہونے کی وجہ سے اعدل الاقول، قرار دیا ہے اور حلیہ میں اسے حسن قرار دیا ہے۔ اور کثیر مشائخ نے دونوں ہاتھوں کوزمین پر رکھنے کو اگرچہ سنت قرار دیا ہے لیکن امام اہلسنت، امام احمدرضاخان علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ ان کا سنت قرار دینا، واجب والے قول کے مخالف نہیں کہ فقہاے کرام بسا اوقات واجب پر سنت کا اطلاق کرتے ہیں، جیسے وتر اور عیدین وغیرہ جوکہ واجب ہیں، ان پرسنت کا بھی اطلاق کیا گیا ہے، اور اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ ان کا وجوب سنت یعنی حدیث پاک سے ثابت ہے۔ اور سنت وواجب دونوں کو عذر کی وجہ سے چھوڑنے کی رخصت ہوتی ہے۔
صحیح بخاری میں ہے
قال النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم: اُمرت ان اسجد علی سبعۃ اعظم: علی الجبھۃ و اشار بیدہ علی انفہ و الیدین و الرکبتین و اطراف القدمین و لا نکفت الثیاب و الشعر
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: مجھے سات ہڈیوں: (1)پیشانی اور (ساتھ ہی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اپنی ناک کی طرف اشارہ فرمایا (2، 3) دونوں ہاتھوں (4، 5) اور دونوں گھٹنوں (6، 7) اور دونوں قدموں کے کناروں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ کہ ہم (نماز پڑھتے ہوئے) کپڑے اور بال نہ سمیٹیں۔ (صحیح البخاری، کتاب الاذان، باب السجود علی الانف، صفحہ 156، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
مسند ابی یعلی میں ہے
عن عامر بن سعد، عن أبيه، قال: «أمر العبد أن يسجد، على سبعة آراب منه: وجهه، و كفيه، و ركبتيه، و قدميه، أيها لم يضع فقد انتقص»
ترجمہ: حضرت عامر بن سعد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: بندے کو سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے: اس کی پیشانی، اس کی دونوں ہتھیلیاں، اس کے دونوں گھٹنے، اس کے دونوں پاؤں۔ ان میں سے کسی عضو کو اس نے نہ رکھا تو اس نے سجدے میں کمی کی۔ (مسند ابی یعلی، جلد 2، صفحہ 60، حدیث: 702، مطبوعہ: دمشق)
البحر الرائق میں ہاتھوں اور گھٹنوں کو زمین پر لگانے کے حوالے سے تحریر ہے
و أما اليدان والركبتان فظاهر الرواية عدم افتراض وضعهما قال في التجنيس و الخلاصة و عليه فتوى مشايخنا، و فى منية المصلى ليس بواجب عندنا و اختار الفقيه أبو الليث الافتراض و صححه في العيون ولا دليل عليه، لأن القطعى إنما أفاد وضع بعض الوجه على الأرض دون اليدين و الركبتين و الظني المتقدم لا يفيده، لكن مقتضاه و مقتضى المواظبة الوجوب، و قد اختاره المحقق في فتح القدير، وهو إن شاء اللہ تعالى أعدل الأقوال لموافقته الأصول، و إن صرح كثير من مشايخنا بالسنية و منهم صاحب الهداية
ترجمہ: رہا دونوں ہاتھ اور دونوں گھٹنوں کامعاملہ تو ظاہر الروایہ ہے کہ ان دونوں کا رکھنا فرض نہیں ہے، تجنیس اور خلاصہ میں فرمایا: اور اسی پر فتوی ہے، اور منیۃ المصلی میں ہے ہمارے نزدیک واجب نہیں ہے اور فقیہ ابو اللیث نے فرضیت کو اختیا رکیا ہے اور عیون میں اس کی تصحیح کی ہے اور اس پر کوئی دلیل نہیں ہے، کیونکہ دلیل قطعی نے بعض چہرے کو زمین پر کھنے کافائدہ دیا ہے، نہ کہ دونوں ہاتھوں اور دونوں گھٹنوں کے رکھنے کا، اور ظنی دلیل ،جو پیچھے گزر گئی، وہ اس کا فائدہ نہیں دیتی، ہاں! اس کا تقاضا اور مواظبت کا تقاضا وجوب ہے ،اور محقق نے فتح القدیر میں اس کو اختیار کیا ہے، اور وہ ان شاء اللہ تعالیٰ اصول کی موافقت کی بناء پر تمام اقوال میں سے سب سے زیادہ مناسب ہے، اگرچہ ہمارے کثیر مشائخ نے سنیت کی تصریح کی ہے اور انہی میں سے صاحب ہدایہ ہیں۔ (البحر الرائق، جلد 1، صفحہ 556، مطبوعہ: کوئٹہ)
رد المحتار میں ہاتھ اور گھٹنے زمین پر لگانے کے حوالے سے ہے
ھو ما صرح به كثير من المشايخ... و اختار في الفتح الوجوب لأنه مقتضى الحديث مع المواظبة. قال في البحر: و هو إن شاء اللہ تعالى أعدل الأقوال لموافقته الأصول اھ. و قال في الحلبة وهو حسن ماش على القواعد المذهبية ثم ذكر ما یؤیدہ
ترجمہ: اس بات (یعنی ہاتھ اور گھٹنے زمین پر لگنے کے سنت ہونے) ہی کی کثیر مشائخ نے تصریح کی ہے، اور فتح القدیر میں وجوب کو اختیار کیا ہے، اس لئے کہ یہ حدیث کا مقتضی ہے، ساتھ میں مواظبت بھی ہے۔ بحر میں فرمایا: اور وہ ان شاء اللہ تعالی اصول کی موافقت کی بناء پر تمام اقوال میں سب سےمناسب قول ہے، اور حلبہ میں فرمایا: اور وہ حسن قول ہے، قواعد مذہبیہ پر مبنی ہے، پھر اس کے مویدات کا ذکر فرمایا۔ (رد المحتار، جلد 2، صفحہ 211، 212، مطبوعہ: کوئٹہ)
کثیر مشائخ کے سنت قرار دینے اور علامہ ابن ہمام کے واجب قرار دینے میں تطبیق کرتے ہوئے امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
و ربما لا ينافیه ما ذكر كثير من المشائخ، فربما يطلقون السنة على الواجب كالوتر وصلاة العيدين و غيرهما
ترجمہ: اور بہت دفعہ اس کے منافی نہیں ہوتا وہ جو کثیر مشائخ نے ذکر فرمایا ہے کیونکہ بہت دفعہ وہ سنت کا واجب پر اطلاق پر اطلاق کرتے ہیں جیسے وتراور عیدین کی نماز وغیرہ۔ (جد الممتار على رد المحتار، کتاب الصلوة, باب صفة الصلوة، ج 3، ص 180، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
امام اہل سنت سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں: ”خوب تر یہ ہے کہ جب ہمارے مشائخِ عراق نے جماعت کو واجب اور مشائخِ خراسان نے سنت مؤکدہ فرمایا اور مفید میں یوں تطبیق دی کہ واجب ہے، اور اس کا ثبوت سنت سے ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد 1، حصہ ب، صفحہ 916، 917، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
رد المحتار میں ہے
الواجب یترک مع العذر فالسنۃ اولی
ترجمہ: واجب کو جب عذر کی وجہ سے چھوڑا جاسکتا ہے تو سنت بدرجہ اولیٰ چھوڑی جاسکتی ہے۔ (رد المحتار، کتاب الصلاۃ، جلد 2، صفحہ 498، مطبوعہ: کوئٹہ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4458
تاریخ اجراء: 28 جمادی الاولٰی 1447ھ / 20 نومبر 2025ء