سجدے میں ناک زمین پر لگانا فرض ہے یا واجب؟

سجدے میں ناک زمین پر لگانا ضروری نہیں؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ نماز کے سجدے میں ناک کی ہڈی لگانے کی شرعی حیثیت کیا ہے، بعض افراد کا کہنا ہے کہ پیشانی لگانا کافی ہے، ناک لگانا ضروری نہیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

سجدے میں پیشانی کا زمین پر جمانا فرض اور ناک کی ہڈی کا زمین پر یوں جمانا کہ ناک کا نرم حصہ دبنے کے بعد ناک کی ہڈی زمین پر جم جائے واجب ہے، صرف پیشانی جمانے پر اکتفاء کرنا ،بلاعذر ناک کی ہڈی نہ لگانا مکروہ تحریمی ،ناجائز وگناہ ہے اور ایسی نماز کا اعادہ کرنا بھی واجب ہے،ہاں اگر کوئی عذر ہو جیسے ناک پر زخم یا پھوڑا ہو جائے کہ جس سے ناک زمین پر نہ لگ سکتا ہو، تو فقط پیشانی سے سجدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

سجدے میں پیشانی اور ناک کی ہڈی لگانے کے حکم کے متعلق کتبِ صحاح ستہ یعنی صحیح بخاری ،صحیح مسلم، جامع ترمذی، سننِ ابی داؤد، سنن نسائی اورسنن ابن ماجہ میں ہے:

و اللفظ للاول:  قال النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم: اُمرت ان اسجد علی سبعۃ اعظم: علی الجبھۃ و اشار بیدہ علی انفہ والیدین و الرکبتین و اطراف القدمین و لا نکف الثیاب و الشعر

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا :مجھے سات(7) ہڈیوں: (1)پیشانی اور (ساتھ ہی)رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ہاتھ سے اپنی ناک کی طرف اشارہ فرمایا (2، 3)دونوں ہاتھوں (4، 5) اور دونوں گھٹنوں (6، 7) اور دونوں قدمو ں کے کناروں پرسجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ کہ ہم(نماز پڑھتے ہوئے) کپڑے اور بال نہ سمیٹیں۔ (صحیح بخاری، جلد 1، کتاب الاذان، باب السجود علی الانف، صفحہ 162، مطبوعہ دار طوق النجاة، بيروت)

ناک کی ہڈی لگانے پر مواظبت اختیار کرنے کے متعلق جامع ترمذی، صحیح ابن حبان، سنن ابن ماجہ، سنن الکبرٰی للبیہقی، شرح السنہ للبغوی اور شرح معانی الآثار للطحاوی میں ہے:

و النظم للاول: عن ابی حمید الساعدی رضی اللہ عنہ قال: أن النبي صلى اللہ عليه وآلہ وسلم، كان إذا سجد أمكن أنفه وجبهته من الأرض، و نحى يديه عن جنبيه، ووضع كفيه حذو منكبيه

ترجمہ: حضرت ابو حمیدساعدی رضی اللہ عنہ سےمروی ہے،وہ فرماتے ہیں کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی سجدہ کرتے تھے، تو اپنی ناک اور پیشانی کو زمین پر جما دیتے اور دونوں ہاتھوں کو پہلوؤں سے جدا رکھتے اور دونوں ہتھیلیاں کندھوں کے برابر رکھتے۔(جامع ترمذی، جلد 2، صفحہ 59، مطبوعہ شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابی الحلبی، مصر)

مذکورہ حدیث مبارک کے تحت شرح سنن ابی داؤد للعينی میں ہے:

و بهذا الحديث استدل من قال:لابد من السجدة على الجبهة و الأنف جميعا

ترجمہ:اور اس حدیثِ پاک سے ان ائمہ کرام نے دلیل پکڑی ،جنہوں نے کہا کہ سجدہ میں پیشانی اور ناک دونوں کا(زمین پر) لگانا ضروری ہے۔ (شرح سنن ابی داؤدللعینی، جلد 04، صفحہ 115، مطبوعہ مكتبة الرشد، الرياض)

مواظبت سے واجب ثابت ہونے کے متعلق فتح القد یر، درر الحکام شرح غرر الاحکام، بنایہ، عنایہ، نہایہ، بحر الرائق، نہر الفائق، مراقی الفلاح، خزانۃ المفتین، منحۃ السلوک اور الہدایہ میں ہے:

و اللفظ للآخر:  فإنه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و اظب عليها من غير تركهامرةو هي أمارة الوجوب

ترجمہ:بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس عمل کو ایک مرتبہ بھی ترک نہیں فرمایا اور اس پر ہمیشگی اختیار فرمائی، تو یہ اس عمل کے واجب ہونے کی دلیل ہے۔ (الھدایہ، جلد 01، صفحہ 71،مطبوعہ دار احياء التراث العربي، بيروت)

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، درر الحکام شرح غررالاحکام،نور الایضاح مع مراقی الفلاح میں ہے:

و اللفظ للآخر:  یجب ضم الانف (ای ما صلب منہ)للجبھۃ فی السجود للمواظبۃ علیہ

ترجمہ: سجدے میں ناک کی سخت ہڈی کا لگانا واجب ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس پرہمیشگی اختیار فرمائی ہے۔ (نور الایضاح، صفحہ 139، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

سجدے میں ناک نہ لگانے کی صورت میں نماز کامل نہ ہونے کے متعلق سنن دار قطنی، كنز العمال، مصنف عبد الرزاق، الجامع الكبیر للسيوطی، مصنف ابن ابی شیبہ، سنن الكبرٰی للبیہقی اور المراسیل لابی داؤد میں ہے:

و النظم للاول: عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال: ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم: رأى رجلا ما يصيب أنفه بشيء من الأرض فقال: لا صلاة لمن لا يصيب أنفه من الأرض

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،وہ فرماتے ہیں کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو (نماز پڑھتے دیکھا)،جس کے(سجدہ کی حالت میں) ناک میں سے کچھ بھی زمین پر نہیں لگ رہا تھا،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اس شخص کی نماز( کامل) نہیں، جس کی ناک زمین کو نہ لگے۔ (سنن دار قطنی، جلد 02، صفحه 157، مطبوعه مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان)

فتاوٰی رضویہ میں ہے: ’’یوں ہی ناک کی ہڈی زمین پر لگنا واجب ہے، بہتیروں کی ناک زمین سے لگتی ہی نہیں اور اگر لگی، تو وہی ناک کی نوک یہاں تک تو ترکِ واجب گناہ اور عادت کے سبب فسق ہی ہُوا۔‘‘ (فتاوٰی رضویہ، جلد 3، صفحہ 253، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

نماز واجب الاعادہ ہونے کے بارے میں فتاوٰی امجدیہ میں ہے:و اللفظ للآخر:”سجدہ میں پیشانی کا زمین پر جمنا فرض ہے اور ناک اس طرح جمانا کہ جو حصہ ناک کا نرم ہے ،اس کے دبنے کے بعد ناک کی ہڈی زمین پر جم جائے یہ واجب، اگر ناک کی نوک زمین سے چھو گئی اور ہڈی نہ لگی، نماز واجب الاعادہ ہوئی۔“ (فتاوی امجدیہ، جلد1، صفحہ84،مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی)

عذر کی وجہ سے ناک زمین پر نہ لگانے کے متعلق ردالمحتار مع درمختار، الجوہرۃ النیرہ، فتح القدیر اور فتاوٰی عالمگیری میں ہے:

و اللفظ للآخر:   لو وضع أحدهما فقط، إن كان من عذر لا يكره

ترجمہ:اگر عذر کی وجہ سےان دونوں (ناک اور پیشانی) میں سے کسی ایک کو(سجدہ کی حالت میں زمین پر )لگایا، تو مکروہ نہیں۔ (فتاوٰی عالمگیری،جلد 1، صفحہ 70، مطبوعہ دار الفکر بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: عبد الرب شاکرعطاری مدنی

مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: Sar- 9135

تاریخ اجراء: 08 ربیع الثانی1446ھ / 12 اکتوبر 2024ء