شرعی معذور کپڑے نہ بدل سکے تو نماز کا طریقہ

شرعی معذور کپڑے بھی تبدیل نہ کر سکے تو نماز کیسے پڑھے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک عورت کو پیشاب کے قطرے مسلسل آتے ہیں، اور ان کا وزن بہت زیادہ ہونے کے سبب ہر وقت کپڑے تبدیل کرنے میں بھی آزمائش ہوتی ہے، ایسی صورت حال میں وہ عورت نماز کس طرح ادا کرے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں اگر ان کو پیشاب کے قطرے اس طرح مسلسل آتے ہیں کہ نمازکاپوراوقت گزرجاتا ہے، لیکن وہ کوشش کرنے کے باوجود اُس پورےوقت میں وضو کرکےفرض نماز اداکرنے پرقادرنہیں ہوتیں، تو اب ایسی صورت میں وہ شرعی معذور قرار پائیں گی، اور ان کیلئے حکم یہ ہوگا کہ وہ ہر فرض نماز کا وقت داخل ہونے پر وضو کریں، اور اُس وضو سے جتنی نمازیں چاہے ادا کریں، اس دوران پیشاب کے قطروں کے نکلنے کے سبب ان کا وضونہیں ٹوٹے گا، ہاں اس کے علاوہ اگر کوئی اور وضو توڑنے والی چیز پائی گئی، تو وضو ٹوٹ جائے گا، یونہی جب فرض نمازکاوقت نکل جائے گا، تو بھی وضو ٹوٹ جائے گا۔ ایک دفعہ معذورِ شرعی بننے کے بعد وہ اس وقت تک شرعی معذور رہیں گی، جب تک کہ بقیہ اوقات نماز میں بھی ان کو کم ازکم ایک مرتبہ یہ مرض پایا جائے، اگر بقیہ اوقاتِ نمازمیں سے کوئی وقت ایساگزرتا ہے کہ اس میں ایک مرتبہ بھی پیشاب کے قطروں والا مرض نہ پایا گیا، تو پھر وہ شرعی معذور کی تعریف سے خارج ہوجائیں گی، اور اس صورت میں ان کوآئندہ دوبارہ نماز کا وقت شروع ہونے سے لیکر آخر وقت تک چیک کرنا ہوگا، اور باطہار ت نماز پڑھنے میں کامیاب نہ ہونے کی صورت میں آخر وقت میں نماز پڑھنی ہوگی۔ اور اگر اس طرح کی صورتحال نہ ہو یعنی وہ معذور شرعی کی حد تک نہ پہنچی ہوں، تو ہر بار وضو ٹوٹنے کی صورت میں اُنہیں وضو کرکے نماز ادا کرنا ہوگی۔ واضح رہے کہ اگر روئی وغیرہ کوئی چیزرکھ کر اس عذر کو ختم کیا جاسکتا ہو، تو ان پرروئی وغیرہ کسی چیزکورکھ کر اپنے اس عذر کو ختم کرنا لازم ہوگا۔

رہی بات یہ کہ وزن کے زیادہ ہونے کے سبب نجس کپڑوں کو تبدیل کرنے میں آزمائش ہوتی ہے،تو اگر حالت یہ ہو کہ پیشاب کے قطروں کے نکلنے کا اتنا تسلسل ہو کہ اگر کپڑے تبدیل کر بھی لے،تو دورانِ نماز ہی دوبارہ بقدرِ مانع( یعنی درہم یا اس سے زائد) نجس ہوجائیں گے،تو اس صورت میں اصلاً کپڑوں کو پاک کرنے کی حاجت ہی نہیں ،بلکہ اُسے یہ رخصت ہوگی کہ انہی ناپاک کپڑوں میں نماز ادا کرلے،لہذا اس صورت میں کپڑے کی تبدیلی کا سوال ہی نہیں ۔ اگر یہ کیفیت نہ ہو بلکہ کپڑے تبدیل کرنے کے بعد پاک کپڑوں میں نماز ادا کی جاسکتی ہو اور نماز پڑھنے تک وہ کپڑے پھر سے بقدرِ مانع ناپاک بھی نہیں ہوں گے،مگر کپڑے تبدیل کرنے میں مشقت ہے ،تو اب اگر تھوڑی بہت مشقت سے کپڑے تبدیل ہوسکتے ہیں، تو تبدیل کرکے یا اُسے پاک کرکے نماز پڑھنی لازم ہوگی،ورنہ ایک درہم سے زائد نجس ہونے کی صورت میں نماز نہیں ہوگی،اور پاک کرکے دوبارہ نماز پڑھنا فرض ہوگا،اور درہم کے برابر ہونے کی صورت میں نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوگی اور پاک کرکے دوبارہ نماز پڑھنا واجب ہوگا،اور تھوڑی بہت تکلیف ومشقت کا شرعاً کوئی اعتبارنہیں ہوگا،البتہ اگر کپڑے کی تبدیلی، شدید مشقت و تکلیف کا باعث ہو ،تو اس صورت میں اگر خود تبدیل کرنے میں زیادہ مشقت ہو لیکن اگر یہ کام کوئی دوسرا شخص کردے تو اتنی مشقت و تکلیف نہ ہو، تو دوسرے شخص کے موجود ہونے کی صورت میں لازم ہوگا کہ اس دوسرے شخص کو کپڑے تبدیل کروانے کا کہے اور پاک کپڑوں میں نماز ادا کرے، ہاں اگر دوسرا شخص موجود نہ ہو ، یا بہرصورت شدید مشقت و تکلیف کا باعث ہو، تو اس صورت میں حکم ہے کہ ایسا شخص اُسی نجس کپڑوں میں نماز ادا کرلے، اس کی نماز درست ہوجائے گی۔

شرعی معذور کے احکام بیان کرتے ہوئے صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت میں فرماتے ہیں: ” ہر وہ شخص جس کو کوئی ایسی بیماری ہے کہ ایک وقت پورا ایسا گزر گیا کہ وُضو کے ساتھ نمازِ فرض ادا نہ کرسکا وہ معذور ہے، اس کا بھی یہی حکم ہے کہ وقت میں وُضو کرلے اور آخر وقت تک جتنی نمازیں چاہے اس وُضو سے پڑھے، اس بیماری سے اس کا وُضو نہیں جاتا، جیسے قطرے کا مرض۔۔۔جب عذر ثابت ہو گیا تو جب تک ہر وقت میں ایک ایک بار بھی وہ چیز پائی جائے معذور ہی رہے گا، مثلاً عورت کو ایک وقت تو اِستحاضہ نے طہارت کی مہلت نہیں دی اب اتنا موقع ملتا ہے کہ وُضو کرکے نماز پڑھ لے مگر اب بھی ایک آدھ دفعہ ہر وقت میں خون آجاتا ہے تو اب بھی معذور ہے۔ یوہیں تمام بیماریوں میں اور جب پورا وقت گزر گیا اور خون نہیں آیاتو اب معذورنہ رہی جب پھر کبھی پہلی حالت پیدا ہو جائے تو پھر معذور ہے اس کے بعد پھر اگر پورا وقت خالی گیا تو عذر جاتا رہا‘‘۔

مزید اسی میں ہے: ’’فرض نماز کا وقت جانے سے معذور کا وُضو ٹوٹ جاتا ہے۔ (نیز) معذورکا وُضو اس چیز سے نہیں جاتا جس کے سبب معذور ہے،ہاں اگر کوئی دوسری چیزوُضو توڑنے والی پائی گئی تو وُضو جاتا رہا۔ مثلاً جس کو قطرے کا مرض ہے، ہوا نکلنے سے اس کا وُضو جاتا رہے گا اور جس کو ہوا نکلنے کا مرض ہے، قطرے سے وُضو جاتا رہے گا۔ اگر کسی ترکیب سے عذر جاتا رہے یا اس میں کمی ہوجائے تو اس ترکیب کا کرنا فرض ہے، مثلاً کھڑے ہوکر پڑھنے سے خون بہتا ہے اور بیٹھ کر پڑھے تو نہ بہے گا تو بیٹھ کر پڑھنا فرض ہے۔(بھار شریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 385- 387، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

اگر قطرے اس طرح تسلسل سے نکل رہے ہوں کہ کپڑے پاک کر بھی لئے، تو نماز سے فارغ ہونے تک دوبارہ بقدرِ مانع نجس ہوجائیں گے، تو اُسے رخصت حاصل ہے اور حکم ہے کہ انہی ناپاک کپڑوں میں نماز پڑھ لے، چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:

اذا کان بہ جرح سائل۔۔۔ ان کان بحال لو غسلہ یتنجس ثانیا قبل الفراغ من الصلاۃ جاز ان لا یغسلہ و صلی قبل ان یغسلہ والا فلا ھذا ھو المختار

ترجمہ: جب بہنے والا زخم ہو، اور حالت یہ ہو کہ اگر وہ کپڑوں کو پاک کرے، تو نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی دوبارہ کپڑے ناپاک ہو جائیں گے، تو جائز ہے ان کپڑوں کو پاک نہ کرے اور انہیں پاک کرنے سے پہلے ہی نماز پڑھ لے، اور اگر ایسا نہ ہو (بلکہ پاک کپڑوں میں نماز پڑھی جاسکتی ہو) تو اب رخصت نہیں ہوگی، یہی مختار ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ، جلد 1، باب النجاسۃ و احکامھا، صفحہ 46، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’رہا کپڑا اگر سمجھتا ہے کہ پاک کپڑا بدل کر فرض پڑھے گا تو اُس کے ایک درم سے زائد بھرنے سے پیشتر فرض ادا کرلے گا جب تو اُس پر لازم ہے کہ ہر وقت پاک کپڑا بدلے اور اگر جانتا ہے کہ فرض پڑھنے کی مہلت نہ ملے گی اور کپڑا پھر اُتنا ہی ناپاک ہوجائیگا تو اُسے معافی ہے اُسی کپڑے سے پڑھے

لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْساً اِلَّا وُسْعَھَا

(اللہ تعالٰی کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔)۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 4، صفحہ 375، رضافا ؤنڈیشن، لاھور)

بہار شریعت میں ہے: ’’معذور کو ایسا عذر ہے جس کے سبب کپڑے نجس ہو جاتے ہیں تو اگر ایک درم سے زِیادہ نجس ہو گیا اور جانتا ہے کہ اتنا موقع ہے کہ اسے دھو کر پاک کپڑوں سے نماز پڑھ لوں گا تو دھو کر نماز پڑھنا فرض ہے اوراگر جانتا ہے کہ نماز پڑھتے پڑھتے پھر اتنا ہی نجس ہو جائے گا تو دھونا ضروری نہیں اُسی سے پڑھے اگرچہ مصلیٰ بھی آلودہ ہو جائے کچھ حَرَج نہیں اور اگر درہم کے برابر ہے تو پہلی صورت میں دھونا واجب اور درہم سے کم ہے تو سنّت اور دوسری صورت (یعنی نماز پڑھنے تک پھر سے بقدر مانع ناپاک ہونے ) میں مطلقاً نہ دھونے میں کوئی حَرَج نہیں۔‘‘(بھار شریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 387،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

اگر دوسرا شخص کپڑے تبدیل کردے تو شدید مشقت نہ ہو، تو اس کی موجودگی میں حکم ہوگا کہ اُسے تبدیل کرنے کا کہے، جیسا کہ مریض کے نجس فرش پر نماز پڑھنے سے متعلق فتاوی عالمگیری میں ہے:

إذا كان على فراش نجس إن كان لا يجد فراشا طاهرا أو يجده لكن لا يجد أحدا يحوله إلى فراش طاهر يصلي على الفراش النجس وإن كان يجد أحدا يحوله إلى فراش طاهر ينبغي أن يأمره حتى يحوله فإن لم يأمره وصلى على الفراش النجس لا يجوز، هكذا في المحيط

ترجمہ: اگر مریض نجس فرش پر ہو، تو اگر وہ پاک فرش نہ پائے یا پاک فرش تو پائے مگر کوئی ایسا موجود نہ ہو جو اسے پاک فرش پر لے جائے،تو مریض نجس فرش پر ہی نماز پڑھ لے، اور اگر کوئی ایسا شخص پائے جو اسے پاک فرش پر لے جائے تو چاہئے کہ وہ اسے حکم کرے کہ وہ وہاں لے جائے، اگر اس نے حکم نہیں دیا اور نجس فرش پر ہی نماز پڑھ لی تو یہ جائز نہیں ،یونہی محیط میں ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ، جلد 1، باب صلاۃ المریض، صفحہ 152،دار الکتب العلمیہ، بیروت)

اگر نماز سے فارغ ہونے تک پھر سے کپڑے بقدرِ مانع نجس تو نہیں ہوں گے، مگر تبدیلی میں شدید مشقت ہے تو حکم ہے کہ اسی حالت میں نماز پڑھ لے، جیسا کہ در مختار مع رد المحتار، تبیین الحقائق ،فتاوی قاضی خان ،فتاوی عالمگیری میں ہے:

و اللفظ للاخر: مريض تحته ثياب نجسة إن كان بحال لا يبسط شيء إلا ويتنجس من ساعته يصلي على حاله و كذا إذا لم يتنجس الثاني لكن يلحقه زيادة مشقة بالتحويل، كذا في فتاوى قاضي خان.

ترجمہ: مریض جس کے نیچے نجس کپڑا ہو،تو اگر اس کا حال ایسا ہو کہ اس کے نیچے جو بھی کپڑا بچھایا جائے، فوراً ناپاک ہوجاتا ہو، تو وہ اسی حالت پر نماز پڑھے گا، اسی طرح اگر دوسرا پاک کپڑا بچھانے سے فوراً ناپاک تو نہ ہو، مگر کپڑے کے تبدیل کرنے میں مریض کو شدید مشقت ہو گی، تو بھی اسی نجس کپڑے پر ہی نماز پڑھے گا، یونہی فتاوی قاضی خان میں ہے۔(الفتاوی الھندیۃ، جلد 1، باب صلاۃ المریض، صفحہ 152، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

بہار شریعت میں ہے: ’’ مریض کے نیچے نجس بچھونا بچھا ہے اور حالت یہ ہو کہ بدلا بھی جائے تو نماز پڑھتے پڑھتے بقدر مانع ناپاک ہو جائے تو اسی پر نماز پڑھے۔ يوہيں اگر بدلا جائے تو اس قدر جلد نجس نہ ہو گا مگر بدلنے میں اسے شدید تکلیف ہوگی تو اسی نجس ہی پر پڑھ لے۔‘‘ (بھار شریعت، جلد 1، حصہ 4، صفحہ 725، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-511

تاریخ اجراء: 12 صفر المظفر 1446ھ / 18 اگست 2024ء