
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FSD-9284
تاریخ اجراء:27 شعبان المعظم 1446 ھ/ 26 فروری 2025 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ چند افراد کا گجرات سے لاہور جانے کا پروگرام ہے، مگر راستے میں گجرانوالہ کچھ علما و مشائخ سے ملاقات کے لیے رکنے کا بھی ارادہ ہے، یوں کہ پہلے گجرانوالہ جائیں گے، وہاں ملاقاتیں کریں گے، پھر آگے لاہور کے لیے نکلیں گے، اسی لیے گھر سے کچھ جلدی نکلیں گے، گجرات سے گجرانوالہ کا سفر تقریباً پچاس کلو میٹر ہے اور گجرانوالہ سے لاہور کا سفر تقریبا ساٹھ کلو میٹر ہے، اس طرح یہ ٹوٹل مسافت، شرعی مسافت یعنی 92 کلو میٹر سے زیادہ ہے، سوال یہ ہے کہ لاہور جاتے ہوئے گجرانوالہ رکنا سفر شرعی میں اتصال کو منقطع کرے گا یا نہیں اور نماز قصر پڑھی جائے گی یا مکمل؟ شرعی رہنمائی فرما دیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
بیان کردہ صورت میں گجرات سے لاہور کا یہ سفر متصل نہیں ،لہٰذا مذکورہ افراد پر پوری نماز پڑھنا لازم ہے۔
مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ شرعی سفر کے لیے کم از کم 92 کلو میٹر متصل سفر ہونا ضروری ہے اور متصل سفر سے مراد یہ ہے کہ کم از کم 92 کلو میٹر کا سفر یکمشت ہو، دورانِ سفر بالقصد کسی کام کے لیے رکنے کا ارادہ نہ ہو، ہاں! ضمنی طور پر رکنا، مثلاً نماز، کھانے پینے یا آرام وغیرہ کی غرض سے رکنا انقطاع کا سبب نہیں بنے گا، خواہ کتنے ہی وقت کے لیے ہو کہ ان چیزوں کی عموماً سفر میں ضرورت پڑتی ہے۔ تو اگرکسی کا یکمشت سفر کا ارادہ نہیں ہے، بلکہ سفر کچھ حصوں میں تقسیم ہے کہ پہلے ایک جگہ جا کر کوئی کام کرنا ہے، کسی سے ملاقات کرنی ہے، وہاں سے دوسری منزل پر جانا ہے، تو اگرچہ یہ رکنا بہت کم وقت، مثلاً ایک آدھ گھنٹہ کے لیے ہی ہو ، سفر متصل نہیں رہے گا، بلکہ منقطع قرار پائے گا ۔
اس کی مثال کسی کمپنی کی پروڈکٹس کی مارکیٹنگ کرنے والے شخص کی ہے کہ جو بسا اوقات شرعی مسافت 92 کلو میٹرسے زیادہ، بلکہ کئی سو کلو میٹر دور شہروں تک جاتا ہے، لیکن اس کی نیت یکمشت اتنا سفر کرنے کی نہیں ہوتی، بلکہ اس نے درمیان میں آنے والے علاقوں اور شہروں کے ریٹیلرز وغیرہ سے بھی ملاقاتیں کرنی ہوتی ہیں، تو اگرچہ ان جگہوں پر بہت کم وقت کے لیے رکنا ہوتا ہے، لیکن چونکہ شروع سے ہی بالقصد و ارادہ اس کا سفر مختلف حصوں میں تقسیم ہوتا ہے، کم از کم 92 کلو میٹر یکمشت نہیں ہوتا، تو یہ شخص مسافر بھی نہیں ہوتا۔
نمازِ قصر کے لیے متصلاً شرعی مسافت ضروری ہے ، جس میں قصداً کسی کام کے لیے رکنا نہ ہو ، چنانچہ اس کی صراحت کرتے ہوئے امامِ اہل سنّت اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ لکھتے ہیں :” فأما إذا لم يجتمع مدة سفر أو اجتمعت ولم يكن من قصده أول الخروج إلا بلد دون مدة سفر، ثم حدث القصد إلى آخر فالحكم واضح أيضا (وهو عدم القصر) و كذلك إذا خرج ناويا مدة سفر، و ھو المقصود الاصلی و له بعض حاجات في مواضع واقعة في البين، فالحكم ظاهر أيضا و هو القصر،لأن العبرة بأصل المقصود و إنما الاشتباه فيما إذا خرج بمقاصد عديدة كلها مقصود بالذات، و في أقصاها ما هو على مسيرة سفر، و خرج أولا متوجها إلى ما هو دونها،ثم توجه إلى آخر، ثم إلى الأقصى، فهل يعتبر أن من قصده حين الخروج الذهاب إلى ما هو على مسيرة سفر، و إن لم يكن حين خرج متوجها إليه و قاصدا له في الحال،بل قاصدا غيره؟ أم يلاحظ ما هو مقصوده في الحال فيتم، و ظاهر إطلاق "البزازية" و "الفتح" هو الاتمام “ترجمہ: جب مسافت سفر نہ بنتی ہو یا بنتی ہو مگر اپنے علاقے سے نکلتے وقت اوّلاً مسافت سفر سے کم پر واقع شہر کا ارادہ ہو ، بعد میں دوسرے شہر (جو کہ مسافت سفر پر واقع ہو وہاں) جانے کا ارادہ بنے، تو ایسی صورت میں بھی حکم واضح ہے یعنی قصر نہ ہونا، ایسے ہی اگر مدت سفر کی نیت سے نکلا مگر درمیان میں کچھ کام کرنے ہیں تب بھی حکم واضح ہے کہ قصر نماز پڑھنی ہے، کیونکہ اعتبار اصل مقصود کا ہے، اشتباہ صرف اس صورت میں ہے کہ متعدد مقاصد جو مقصود بالذات ہیں ان کے ارادے سے گھر سے نکلا اور آخری مقصد مدت سفر پر واقع ہے اور پہلے مدت سفر سے کم پر گیا پھر دوسرے مقصد کی طرف متوجہ ہوا، تو کیا اس کا اعتبار ہوگا کہ نکلتے وقت اس کا ارادہ اس جگہ کا بھی تھا جو مدت سفر پر واقع ہے، اگرچہ نکلتے وقت وہاں نہیں جارہا تھا اور فی الحال وہاں جانے کا ارادہ نہ تھا، بلکہ دوسری جگہ کا ارادہ تھا یا فی الحال جو مقصود ہے وہاں کا لحاظ کرتے ہوئے پوری نماز کا حکم دیں گے۔ بزازیہ اور فتح القدیر کے اطلاق سے ظاہر پوری نماز پڑھنا ہے۔ (جد الممتار، جلد 03، صفحہ 575، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
بہارِ شریعت میں ہے :”یہ بھی شرط ہے کہ تین دن کا ارادہ متصل سفر کا ہو،ا گر یوں ارادہ کیا کہ مثلاً دو دن کی راہ پر پہنچ کر کچھ کام کرنا ہے وہ کر کے پھر ایک دن کی راہ جاؤں گا تو یہ تین دن کی راہ کا متصل ارادہ نہ ہوا مسافر نہ ہوا“۔ (بھارِ شریعت، حصہ 4، صفحہ 743، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
جس سفر میں رکنا قصداً رکنے کا ارادہ ہو ، خواہ کتنے ہی کم وقت کے لیے ،سفرکو منقطع کر دے گا اور ضمناً رکنا ہو، تو انقطاع کا سبب نہیں ہوگا، اس پر پہلی دلیل فقہائے کرام کا اطلاق ہے،چنانچہ اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ لکھتے ہیں:”اگراپنے مقام سے ساڑھے ستاون (۲/۱ .۵۷) میل (92 کلو میٹر ) کے فاصلے پر علی الاتصال جانا ہو کہ وہیں جانا مقصود ہے، بیچ میں جانا مقصودنہیں اوروہاں پندرہ دن کامل ٹھہرنے کا قصد نہ ہو، تو قصر کریں گے ورنہ پوری پڑھیں گے۔“ (فتاوی رضویہ جلد 8، صفحہ 270، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
دوسرے مقام پر لکھتے ہیں: ”جو مقیم ہو اور وہ دس دس پانچ پانچ بیس بیس تیس تیس کو س کے ارادے پر جائے کبھی مسافر نہ ہوگا ہمیشہ پوری نماز پڑھے گا اگر چہ اس طرح دنیا بھر کا گشت کر آئے جب تک ایک نیت سے پورے چھتیس کوس یعنی ساڑھے ستاون میل انگریزی کے ارادے سے نہ چلے یعنی نہ بیچ میں کہیں ٹھہرنے کی نیت ہو اور اگر دوسو میل کے ارادے پر چلا مگر ٹکڑے کرکے یعنی بیس میل جاکر یہ کام کروں گا وہاں سے تیس میل جاؤں گا وہاں سے پچیس میل، وعلی ہذا لقیاس مجموعہ دو سومیل تو وہ مسافر نہ ہوا کہ ایک لخت ارادہ ۵۷ میل کا نہ ہوا“۔(فتاوی رضویہ، جلد 08، صفحہ 268، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
ضمنی طور پر، مثلاً کھانے پینے یا آرام وغیرہ کے لیے رکنا سفر کے منافی نہیں، کیونکہ تین دن کی مسافت (92 کلو میٹر کے سفر )سے مراد ہر وقت سفر یعنی چلتے رہنا شرط نہیں ہے، چنانچہ علامہ علاؤالدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1088 ھ/ 1677 ء) لکھتےہیں:” و لا يشترط سفر كل يوم إلى الليل“ ترجمہ : اور ہر دن رات میں سفر کرنا، شرط نہیں ہے۔
مذکورہ بالا عبارت کے تحت ردالمحتار میں ہے: "قوله:( و لا يشترط إلخ) إذ لا بد للمسافر من النزول للأكل و الشرب و الصلاة و لأكثر النهار حكم كله" شارح عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ کا قول:(اور شرط نہیں ہے)کیونکہ مسافر کے لئے کھانے، پینے اور نماز کے لئے اترنا ضروری ہے اوردن کا اکثر حصہ چلنا پورادن چلنے کے حکم میں ہے۔ (در مختار مع رد المحتار، جلد 02، صفحہ 724، مطبوعہ کوئٹہ)
ضمنی طور پر رکنا چاہے طویل ہو،منافی سفر نہیں، اس کی تصریح کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ لکھتے ہیں: ”آدمی اگر کسی مقام اقامت سے خاص ایسی جگہ کے قصد پر چلے ، جو وہاں سے تین منزل ہو ،تو اس کے مسافر ہونے میں کلام نہیں، اگر چہ راہ میں ضمنی طور پر اور مواضع میں بھی وہ ایک رو ز ٹھہرنے کی نیت رکھے۔“(فتاوی رضویہ، جلد 8، صفحہ 247، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
مذکورہ بالا جزئیہ کے خط کشیدہ الفاظ ہمارے مدعا پر صریح دلیل ہیں کہ رکنا اگر ضمناً ہو تو قاطع سفر نہیں، چاہے یہ رکنا طویل ہو۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم