دورانِ نماز سورۃ فیل میں الفیل کی جگہ السجیل پڑھنا

سورہ فیل میں اصحاب الفیل کی جگہ اصحاب السجیل پڑھ دیا تو نماز کا حکم

دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ امام صاحب نے سورۃ الفیل کی پہلی آیت کی تلاوت کرتے ہوئے

﴿اَلَمْ تَرَ كَیْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ(۱)﴾

کے آخر میں ﴿اَصْحٰبِ الْفِیْلِ﴾ کی جگہ ﴿اَصْحٰبِ السِجِّیْلٍ﴾ پڑھ دیا، تو اس غلطی کی بنا پر نماز ہوگئی یا دوبارہ پڑھنی ہوگی؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں

﴿اَلَمْ تَرَ كَیْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ(۱)﴾

کے آخر میں﴿اَصْحٰبِ الْفِیْلِ﴾کی جگہ﴿اَصْحٰبِ السِجِّیْلٍ﴾پڑھنے سے نماز فاسد ہوگئی ، کیونکہ آیت کا معنی یہ ہے کہ ”کیا تم نے نہ دیکھا کہ تمہارے رب نے ان ہاتھی والوں کا کیا حال کیا؟“، جبکہ ﴿اَصْحٰبِ السِجِّیْلٍ﴾ کا معنی ہے: ”كنكر والے“، یعنی کیا تم نے نہ دیکھا کہ تمہارے رب نے ان کنکر والوں کا کیا حال کیا؟، تو﴿اَصْحٰبِ السِجِّیْلٍ﴾پڑھنے سے آیت کا معنی و مفہوم باقی نہ رہا، بلکہ قرآن کا مفہوم و مراد بدل گیا، تو چونکہ دونوں الفاظ کے معنی ایک دوسرے کے قریب و موافق نہیں ہیں، بلکہ بعید ہیں اور احوط و مفتی بہ قول کے مطابق معنی بعید ہونے کی صورت میں نماز کے فساد کا حکم ہے، لہٰذا دوبارہ نماز ادا کرنا فرض ہے۔

قراءت کرتے ہوئے کسی کلمہ کی جگہ دوسرا کلمہ پڑھ لیا، تو امام اعظم و امام محمد رَحِمَہُمَا اللہُ تَعَالٰی اور امام ابو یوسف رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے اصول کے متعلق امامِ اہلِ سُنَّت، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ / 1921ء) ”جد الممتار“ میں لکھتے ہیں:

عند الامام و محمد:إن كل زلة تفسد إلا ما وافق في المعنى كقيامين و السبيل و الصراط و النصر و النسر، و عند أبي يوسف: إن كل زلة لا مثل لها في القرآن تفسد و إلا لا، إلا أن يتغير المعنى تغيرا فاحشا

ترجمہ: امام اعظم اور امام محمد رَحِمَہُمَا اللہُ تَعَالٰی کے نزدیک (اس مسئلہ کی) ہر غلطی نماز کو فاسد کردیتی ہے ، البتہ اگر معنی میں موافقت ہو، تو مفسد نہیں، جیسے (قوامین کی جگہ) قیامین، صراط کی جگہ سبیل اور نصر کی جگہ نسر پڑھنا۔ اور امام ابو یوسف رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے نزدیک ہر غلطی کہ جس میں دوسرے لفظ کا مثل قرآن میں موجود نہ ہو، تو وہ نماز کو فاسد کردیتی ہے، البتہ مثل قرآن میں موجود ہو، تو مفسد نہیں، لیکن مثل قرآن میں موجود ہونے کی صورت میں اگر معنی بہت زیادہ تبدیل ہوجائے، تو اس صورت میں بھی امام ابو یوسف رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے نزدیک نماز فاسد ہوجائے گی۔ (جد الممتار علی ردالمحتار، جلد 3، صفحہ 371، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

اسی اصولی اختلاف کے متعلق مفتی محمد نور اللہ نعیمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1403ھ / 1982ء) لکھتے ہیں: ”عدمِ فساد کی مدار حضرتِ امام اول و ثالث رَحِمَہُمَا اللہُ تَعَالٰی کے نزدیک موافقتِ معنی (یعنی معنائے خطا معنائے صحیح کے موافق ومتقارب ہو) پر ہے اور امام ثانی ابو یوسف رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے نزدیک اس پر کہ اس کی مثل قرآنِ کریم میں ہو۔“ (فتاوی نوریہ، جلد 3، صفحہ 544، مطبوعہ دار العلوم حنفیہ فریدیہ)

کلمہ قرآن میں ہو اور معنی قریب نہ ہو، تو نماز فاسد ہے، جیسا کہ علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1252ھ / 1836ء) لکھتے ہیں:

إن كان مثله في القرآن و المعنى بعيد و لم يكن متغيرا فاحشا تفسد أيضا عند أبي حنيفة و محمد، و هو الأحوط

ترجمہ: اگر اس کا مثل قرآن میں ہو، معنی بعید ہو، لیکن بہت زیادہ بعید نہ ہو، تو اِس صورت میں بھی امام اعظم ابو حنیفہ اور امام محمد رَحِمَہُمَا اللہُ تَعَالٰی کے نزدیک نماز فاسد ہوجائے گی اور یہی احوط ہے۔ (ردالمحتار، جلد 2، صفحہ 474، مطبوعہ کوئٹہ)

اور امام اعظم رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا یہی احوط قول مفتی بہ ہے، جس کے متعلق فتاوی رضویہ میں ہے: ”بحالتِ فسادِ معنی، فسادِ نماز کا حکم مذکور ہمارے امام صاحب مذہب اور ان کے اتباع ائمہ متقدمین رضی ﷲ تعالٰی عنہم کا مذہب تھا اور وہی احوط و مختار ہے، اجلّہ محققین نے اُسی کی تصریح فرمائی۔

و معلوم ان الفتوی متی اختلف وجب الرجوع الی قول الامام کما نص علیہ فی البحرو الدر و حواشیہ و غیرھا من اسفار الکرم

ترجمہ: اور یہ بات معلوم ہے کہ جب اختلاف ہو ، تو فتوی میں قولِ امام کی طرف رجوع کیا جائے گا، جیسا کہ اس پربحر، در اور دیگر کتب میں تصریح موجود ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 6، صفحہ 431، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ / 1947ء) لکھتے ہیں: ”ایک لفظ کے بدلے میں دوسرا لفظ پڑھا، اگر معنی فاسد نہ ہوں، نماز ہو جائے گی جیسے عَلِیْمٌ کی جگہ حَکِیْمٌ، اور اگر معنی فاسد ہوں، نماز نہ ہوگی، جیسے﴿وَعْدًا عَلَیْنَاؕ-اِنَّا كُنَّا فٰعِلِیْنَ(104)﴾ میں فَاعِلِیْنَ کی جگہ غَافِلِیْنَ پڑھا۔“ (بھار شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 556، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FSD-9601

تاریخ اجراء: 13جمادی الاولی1447ھ/05نومبر2025ء