چوتھی رکعت پر قعدہ کرکے پانچ رکعتیں پڑھ لیں تو نماز کا حکم

امام نے چوتھی رکعت پر قعدہ کر کے بھولے سے پانچ رکعتیں پڑھا دیں تو نماز کا حکم

دارالافتاء اہلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک امام صاحب نے عشاء کی نماز پڑھاتے ہوئے چوتھی رکعت پر قعدہ کیا اور پھر بھولے سےکھڑے ہوگئے، یہاں تک کہ پانچویں رکعت کے دونوں سجدے کرنے کے بعد امام صاحب نے سمجھا کہ یہ آخری رکعت ہے اور اس سے پہلے والا قعدہ بھولے سے تیسری رکعت میں ہوگیا ہے، جس وجہ سے انہوں نے پانچویں رکعت میں سجدہ سہو کر کے نماز مکمل کر لی۔ مقتدیوں کو بھی پتہ نہیں چلا تھا، جس وجہ سے لقمہ نہیں دیا گیا۔ شرعی رہنمائی فرما دیں کہ یہ تو حقیقت میں پانچویں رکعت تھی اور ایسی صورت میں چھٹی رکعت ملانے کا حکم ہوتا ہے، لیکن امام صاحب نے چھٹی رکعت نہیں ملائی، تو یہ نماز درست ادا ہوگئی ؟ چھٹی رکعت نہ ملانے کی وجہ سے نماز میں کوئی خلل واقع تو نہیں ہوا ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جو شخص چار رکعت والی فرض نماز میں چوتھی رکعت پر قعدہ کر کے بھولے سے پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہوجائے، تو اس پر لازم ہوتا ہے کہ پانچویں رکعت کا سجدہ کرنے سے پہلے پہلے واپس لوٹ آئے اور اگر پانچویں رکعت کا سجدہ کرنے کے بعد یاد آیا، تو اب ایسی صورت میں اس کے لیے حکم ہے کہ وہ چھٹی رکعت بھی ساتھ ملا لے اور سجدہ سہو کر کے نماز مکمل کرے، لیکن یہ حکم استحبابی ہے، یعنی اگر ایسی صورت میں چھٹی رکعت ساتھ نہیں ملائی، پانچویں رکعت میں ہی سلام پھیر دیا، تو فرض مکمل ہوجائیں گے، البتہ چونکہ خروج بصنعہٖ یعنی نماز سے باہر ہونے والے فرض میں تاخیر ہوئی ہے، اس وجہ سے اس پر سجدہ سہو لازم ہوجائے گا اور اگر سجدہ سہو بھی کر لیا، تو بغیر کسی کراہت کے یہ نماز بالکل درست ادا ہوجائے گی، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں امام صاحب اور وہ نمازی کہ جو شروع سے امام صاحب کے ساتھ تھے، ان تمام کی نماز درست ادا ہوگئی ہے، ان پر مزید نہ اس نماز کی قضا لازم ہے نہ ہی اعادہ واجب ہے۔

البتہ وہ مسبوق نمازی کہ جو دوسری، تیسری یا چوتھی رکعت میں شامل ہوئے تھے اور انہوں نے پانچویں رکعت میں امام صاحب کی اقتدا کی تھی، ان کی نماز باطل ہوگئی، یہ اس نماز کی قضا کریں گے، کیونکہ امام جب چار رکعت والی نماز میں چوتھی پر قعدہ کر لیتا ہے، تو تمام فرائض مکمل ہوجاتے ہیں، اس کے بعد مسبوق منفرد کے حکم میں ہو جاتا ہے اور اس حالت میں اگر امام یا کسی کی بھی اقتدا کرے، تو اس کی نماز فاسد ہوجاتی ہے۔

چار رکعت والی نماز میں چوتھی پر قعدہ کر کے بھولے سے پانچویں ملا لی، تو چھٹی رکعت ملانا مستحب ہے، چنانچہ مجمع الانہر اور درمختار میں ہے:

واللفظ للثانی ”وان قعد فی الرابعۃ مثلا قدر التشھد ثم قام وان سجد للخامسۃ ضم الیھا سادسۃ لو فی العصر وخامسۃ فی المغرب ورابعۃ فی الفجر بہ یفتی لتصیر الرکعتان لہ نفلا والضم ھنا آکد ولا عھدۃ لو قطع وسجد للسھو فی الصورتین لنقصان فرضہ بتاخیر السلام فی الاولی وترکہ فی الثانیۃ“

یعنی اگر چوتھی رکعت میں بقدر تشہد بیٹھا پھر کھڑا ہو کر پانچویں کا سجدہ کر لیا تو عصر کی نما زمیں چھٹی، مغرب میں پانچویں اور فجر میں چوتھی رکعت ملائے، تاکہ دو رکعتیں نفل ہو جائیں، اسی پر فتوی ہے اور یہاں (مزید ایک رکعت) ملانا مؤکد ہے لیکن اگر نماز کو ختم کر دیا تو اس پر کوئی چیز لازم نہیں۔ اور دونوں صورتوں میں سجدہ سہو کرے، کیونکہ پہلی صورت میں سلام میں تاخیر ہوئی اور دوسری صورت میں سلام ترک کیا۔

اس کے تحت علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

”قولہ وضم الیھا سادسۃ ای ندبا علی الاظھر۔۔۔۔ قولہ ولا عھدۃ لو قطع ای لا یلزمہ القضاء لو لم یضم وسلم لانہ لم یشرع بہ مقصودا“

ترجمہ: شارح کا یہ قول کہ چھٹی رکعت ملائے، ظاہر یہ ہے کہ (مزید ایک رکعت ملانا) مستحب ہے۔۔۔ اور یہ قول کہ نماز ختم کر دی تو اس پر کچھ لازم نہیں یعنی اگر ایک رکعت مزید نہ ملائی تو اس کی قضا لازم نہیں کیونکہ یہ نفل قصداً شروع نہیں کیے۔ (الدر المختار مع ردالمحتار، کتاب الصلوٰۃ، باب سجود السھو، جلد2، صفحہ 667، 668، مطبوعہ کوئٹہ)

اسی طرح فجر کی دوسری رکعت پر قعدہ کر کے بھولے سے تیسری رکعت ملا لی اور پھر چوتھی رکعت نہیں ملائی، بلکہ تیسری پر ہی سلام پھیر دیا، تو فرض مکمل ہوجاتے ہیں، چنانچہ اس کو مجمع الانہر میں یوں بیان کیا گیا:

لا يلزمه شيء لو قطعه على أنه في صورة القعود على رأس الثانية في الفجر تتم صلاة الفجر وتبطل الركعة عند القطع

ترجمہ: فجر کی دوسری رکعت پر قعدہ کیا (اور پھر بھولے سے تیسری رکعت ملاکر) نماز کو توڑ دیا، تو کچھ بھی لازم نہیں آئے گا اور نمازِ فجر مکمل ہوجائے گی، ہاں توڑنے سے وہ زائد ایک رکعت باطل ہوجائے گی۔ (مجمع الانھر، کتاب الصلوٰۃ، باب سجود السھو، جلد 1، صفحہ 151، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت )

بہار شریعت میں ہے: ”قعدہ اخیرہ بھول گیا تو جب تک اس رکعت کا سجدہ نہ کیاہو، لوٹ آئے اور سجدہ سہو کرے اور اگر قعدہ اخیرہ میں بیٹھا تھا مگر بقدر تشہد نہ ہوا تھا کہ کھڑا ہو گیا تو لوٹ آئے اور وہ جو پہلے کچھ دیر بیٹھا تھا محسوب ہو گا یعنی لوٹنے کے بعد جتنی دیر تک بیٹھا، یہ اور پہلے کا قعدہ دونوں مل کر اگر بقدر تشہد ہو گئے، فرض ادا ہو گیا مگر سجدہ سہو اس صورت میں بھی واجب ہے اور اگر اس رکعت کا سجدہ کر لیا تو سجدہ سے سر اٹھاتے ہی وہ فرض نفل ہو گیا، لہٰذا اگر چاہے تو علاوہ مغرب کے اور نمازوں میں ایک رکعت اور ملا لے کہ شفع پورا ہو جائے اور طاق رکعت نہ رہے اگرچہ وہ نماز فجر یا عصر ہو، مغرب میں اور نہ ملائے کہ چار پوری ہو گئیں۔۔۔۔ اور اگر امام نے ان رکعتوں کو فاسد کر دیا تو اس پر مطلقا قضا نہیں۔“ (بھار شریعت، حصہ 4، جلد1، صفحہ712، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

ایسی صورت میں مسبوق نے پانچویں رکعت میں امام کی اقتدا کی، تو اس کی نماز فاسد ہوجاتی ہے، چنانچہ فتاوی قاضی خان میں ہے:

’’إذا قام الإمام إلى الخامسة وتابعه المسبوق إن كان الإمام قعد على الرابعة فسدت صلاة المسبوق‘‘

 ترجمہ: اگر امام پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہوگیا اور مسبوق نے اس کی اتباع کی، تواگر امام چوتھی رکعت پر بیٹھا تھا، تو مسبوق کی نماز باطل ہوگئی۔ (فتاوی قاضی خان، کتاب الصلاۃ، جلد1، صفحہ95، مطبوعہ کوئٹہ)

اس کی علت محیطِ برہانی میں یوں بیان کی گئی:

’’لأنه لما قعد على رأس الرابعة تمت صلاته في حق المسبوق، فصار المسبوق في حكم المنفرد، فهذا اقتداء في موضع الانفراد‘‘

 ترجمہ: کیونکہ جب امام چوتھی پر قعدہ کرچکا، تو مسبوق کے حق میں اس کی نماز مکمل ہوچکی اور مسبوق منفرد کے حکم میں ہوگیا، تو اب پانچویں میں مسبوق کا امام کی اتباع کرنا یہ محل انفراد میں اقتدا کرنا ہے۔(جو کہ نماز کو باطل کردیتی ہے)۔ (المحیط البرھانی، جلد2، صفحہ211، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

بحر الرائق میں ہے:

’’والأصل أنه إذا اقتدى في موضع الانفراد أو انفرد في موضع الاقتداء تفسد‘‘

 ترجمہ: اصل یہ ہے کہ جہاں منفرد ہونا ہو، وہاں اقتدا کرنے سے اور جہاں اقتداکرنی ہو، وہاں منفرد ہونے سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔ (البحر الرائق، جلد1، صفحہ401، دارالکتاب الاسلامی، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Aqs-2873

تاریخ اجراء:  20جمادی الاُخریٰ 1447ھ/12 دسمبر 2025 ء