جس کے ہاتھ پاؤں نہ ہوں اس کے لیے وضو اور نماز کے احکام

جس شخص کے ہاتھ پاؤں نہ ہوں وہ نماز کیسے ادا کرے ؟

دارالافتاء اہلسنت عوت اسلامی)

سوال

جس شخص کے دونوں ہاتھ گٹوں تک اور دونوں پاؤں ٹخنوں تک کٹے ہوئے ہوں، اور کوئی وضو یا تیمم کروانے والا موجود نہ ہو، تو وہ نماز کیسے ادا کرے گا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جس کے دونوں ہاتھ گٹوں تک اور دونوں پاؤں ٹخنوں تک کٹے ہوئے ہوں، اور کوئی بیٹا، پوتا، نوکر وغیرہ اس کے پاس نہ ہو، جس پر اس کی اطاعت لازم ہو، اور کوئی دوسرا مفت وضو کرانے پر تیار نہیں، بلکہ اجرت مانگتا ہے، لیکن اس کے پاس دینے کو رقم نہیں، یا فی الحال پاس موجود نہیں، اور وہ  ادھار پر راضی نہیں، یا پاس موجود ہے مگر وہ اجرت مثل سے بہت زیادہ مانگتا ہے، یا نہ مفت کروانے والا کوئی ہے، اور نہ اجرت پر کروانے والا، تو ایسی صورت میں اگر اس کے قریب ایسا پانی ہے، کہ جس میں اعضائے وضو ڈبو کر وہ خود وضو کرسکتا ہے، مثلا حقیقی جاری پانی ہے، یا حکمی جاری، جیسے دہ دردہ حوض والا پانی، یا مختلف برتنوں میں ہو کہ ہر برتن میں علیحدہ علیحدہ عضو ڈبو کر وضو کرسکے، وغیرہ، تووہ خود وضو کرے، اور اس میں ہاتھوں کا کہنیوں تک جتنا حصہ باقی ہے، وہ سارا کہنیوں سمیت دھوئے، اور ٹخنوں کا جتنا حصہ باقی ہو، اسے دھوئے ، جبکہ دھونا نقصان نہ دے، اور اگر دھونا نقصان دے، تو پانی کے ساتھ مسح کرے، اور اگر ٹخنے بھی سارے کٹے ہوئے ہیں، تو اب پنڈلی کو دھونے یا مسح کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر ان میں سے کوئی صورت میسر نہیں، تو تیمم کی نیت سے دیوار یا زمین پر کلائیاں کہنیوں سمیت، اور چہرہ مس کرکے نماز پڑھے۔

حاشیہ شلبی علی التبیین میں ہے

”وفي مسألة من قطعت يداه و رجلاه في ظاهر الراوية تجب عليه الصلاة ويجب في الوضوء غسل موضع القطع في اليدين و الرجلين كذا في فتاوى الولوالجي. اهـ. معراج الدراية“

ترجمہ: جس کے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں کٹے ہوئے ہوں، اس کے متعلق ظاہر الروایۃ میں ہے کہ اس پر نماز واجب ہے اور وضو میں دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں کے اس مقام کو دھونا واجب ہے، جہاں سے وہ کٹے ہوئے ہیں، اسی طرح فتاوی ولوالجی میں ہے، اھ، معراج الدرایہ۔ (تبیین الحقائق مع حاشیہ شلبی، ج 1، ص 491، مطبوعہ: کوئٹہ)

ذخیرہ برہانیہ اور بنایہ شرح ہدایہ میں ہے

(واللفظ للاخیر) ”وروى الحسن عن أبي حنيفة - رَحِمَهُ اللہُ - أن مقطوع اليدين من المرفقين والرجلين من الكعبين يوضئ وجهه ويمسح أطراف المرفقين والكعبين بالماء ولا يجزئه غير ذلك، وهو قول أبي يوسف“

ترجمہ: حضرت حسن نے امام ابو حنیفہ علیہما الرحمۃ سے روایت کیا کہ جس کے دونوں ہاتھ کہنیوں سے اور دونوں پیر ٹخنوں سے کٹے ہوئے ہوں، وہ اپنے چہرے کودھوئے گا، اور کہنیوں اور ٹخنوں کے سِروں کو پانی کے ساتھ مسح کرے گا، اور اس کے علاوہ اسے کچھ بھی کفایت نہیں کرے گا، اور یہ امام ابویوسف علیہ الرحمۃ کا قول ہے۔ (بنایہ شرح ہدایہ، ج 1، ص 94، مطبوعہ: کوئٹہ)

درمختارمیں ہے

"(مقطوع اليدين والرجلين إذا كان بوجهه جراحة يصلي بغير طهارة) ولا يتيمم (ولا يعيد على الأصح )"

ترجمہ: جس کے ہاتھ اور پاؤں کٹے ہوئے ہوں، جب اس کے چہرے پر زخم ہوں، تو وہ بغیر طہارت کے نماز پڑھے گا اور تیمم نہیں کرے گا، اور نہ بعد میں نماز دہرائے گا، زیادہ صحیح قول کے مطابق۔

اس کے تحت ردالمحتار میں ہے

"(قوله إذا كان بوجهه جراحة) وإلا مسحه على التراب إن لم يمكنه غسله"

 ترجمہ: اور اگر چہرے پر زخم نہ ہوں (صرف ہاتھ اور پاؤں کٹے ہوئے ہوں) تو چہرے کامٹی پرمسح کرے گا، اگر اس کے لیے چہر ے کادھونا ممکن نہ ہو۔ (در مختار مع ردالمحتار، باب التیمم، ج01، ص 473، مطبوعہ کوئٹہ)

فتاوی ہندیہ میں ہے

"ولو قطعت يده أو رجله فلم يبق من المرفق والكعب شيء سقط الغسل ولو بقي وجب. كذا في البحر الرائق"

ترجمہ: اور اگر کسی کا ہاتھ یا پاؤں کٹا ہوا ہو، پس کہنی اور ٹخنے میں سے کچھ بھی نہ بچاہو، تواس پر سے ان کو دھونا ساقط ہوجائے گا، اور اگر کچھ بچاہو، تواسے دھونا واجب ہوگا، اسی طرح بحرالرائق میں ہے۔ (فتاوی ہندیہ، کتاب الطھارۃ، ج01، ص05، مطبوعہ کوئٹہ)

مواہب الرحمن میں ہے

”ویجب غسل ما بقی من عضو الوضوء بعد القطع وان قل، ولو شلت یداہ وعجز عن الطھورین یمسح وجھہ وذراعیہ بالحائط ولایدع الصلاۃ“

ترجمہ: اعضائے وضو میں سے کسی عضو کا جو حصہ کٹ جانے کے بعد باقی بچے، اس کا دھونا واجب ہے، اگرچہ وہ تھوڑا سا ہو، اور اگر اس کے دونوں ہاتھ شل ہوچکے ہوں، اور ہاتھوں کے ساتھ دونوں طہارتیں (وضو و تیمم) کرنے سے عاجز آجائے، تو اپنے چہرے اور کلائیوں کو دیوار پر مس کرے گا اور نماز نہیں چھوڑے گا۔ (مواہب الرحمن، ص 163، کتاب ناشرون، بیروت)

غنیۃ المستملی میں ہے

”رجل شلت ای یبست یداہ والحال انہ لیس معہ احد يوضيه أو يممه فانه يمسح وجهه وذراعيه على الحائط بنية التيمم ويصلى ولا يجوز له ان يترك الصلوة ولا أن يؤخرها عن وقتها ان كان قادراً على مسح وجهه وذراعيه بالحائط ونحوه مما يصح أن يكون تيمما وكذا اذا قدر على غمس اعضاء وضؤه فى ماء جار او ما في حكمه يلزمه ذلك ولا يجوز له التيمم فالحاصل انه لا فسحة في ترك الصلوة مع الا مكان باى وجه كان“

ترجمہ: جس کے دونوں ہاتھ شل ہوں یعنی سوکھ چکے ہوں، اور حالت یہ ہو کہ اس کے پاس کوئی ایسا نہیں، جو اسے وضو یا تیمم کرائے، تو وہ اپنے چہرے اور کلائیوں کو، دیوار پر تیمم کی نیت سے مس کرے گا، اور نمازپڑھے گا، اور اس کے لیے نماز چھوڑنا یا قضا کرنا جائز نہیں ہوگا، اگر وہ چہرے اور کلائیوں کو دیوار وغیرہ ایسی چیز پر مس کرنے پر قادر ہو، جس سے تیم درست ہو جاتا ہے، اور اسی طرح جب وہ اپنے اعضائے وضو کو حقیقی یا حکمی جاری پانی میں ڈبونے پر قادر ہو، تو اس پر یہ لازم ہوگا، اور اس صورت میں اس کے لیے تیمم جائز نہیں ہوگا، پس حاصل یہ ہے کہ کسی طور پر بھی جب ممکن ہو، تو اسے نماز چھوڑنے کی رخصت نہیں ہے۔ (غنیۃ المستملی، ص 234، 235، مطبوعہ: کوئٹہ)

فتاوی رضویہ میں ہے " اقول: جو پانی تک نہ جاسکتا ہو مثلاً لُنجھا یا اپاہج یا پاؤں کٹا ہوا یا مفلوج یا مریض یا نقیہ یا نہایت بوڑھا کہ چل نہیں سکتے یا اندھا جسے اٹکل نہیں یا رات کو شبکور یا کمر وغیرہ کے درد کے باعث چلنے سے معذور اس(۱) کے پاس اگر نوکر یا غلام یا بیٹا پوتا کوئی ایسا نہیں جس پر اس کی خدمت لازم ہو نہ ایسا کہ اس کے کہنے سے لادے نہ اُجرت پر لانے والا یا(۲) اجیر ہے مگر یہ اُجرت پر قادر نہیں یا(۳) قادر ہے مگر مال دوسری جگہ اور وہ اُدھار پر راضی نہیں یا(۴) اُجرت مثل سے بہت زیادہ مانگتا ہے تیمم کرے اور اعادہ نہیں۔" (فتاوی رضویہ، ج03، ص478، 479، رضافاؤنڈیشن، لاہور)

مزید فتاوی رضویہ میں ہے "دونوں ہتھیلیاں ایسی زخمی ہیں کہ ان پر پانی پڑنا ضرر دے گا یا بوجہ زخم لوٹا وغیرہ اٹھ نہیں سکتا نہ پانی کسی ایسے برتن یا حوض وغیرہ میں ہے کہ اس میں اپنا منہ اور پاؤں وغیرہ ڈال کر وضو کرسکے، تیمم کرے گا۔۔۔اب یہاں بدستور وہ تینوں صورتیں نکلیں گی کہ وضو کرادینے والا اجرت زیادہ مانگتا ہے یا یہ مفلس ہے یا مال غائب ہے اور وہ ادھار پرراضی نہیں۔" (فتاوی رضویہ، ج03، ص507، 509، رضافاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-4566

تاریخ اجراء:28 جمادی الاولیٰ1447ھ/20دسمبر2025ء