مسافر کو بار بار شہر بدلنا پڑے تو نماز میں قصر کا حکم

مسافر سفر میں دوسرے کے حکم کا پابند ہو تو وہ نمازمیں قصر کرے گا ؟

دارالافتاء اہلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ میرا اکثر بیرونِ ملک سفر ہوتا ہے، جب میں کسی ملک میں جاتا ہوں، تو وہاں مستقل ایک شہر میں نہیں ٹھہرتا، بلکہ نگران جب کبھی کال کرتے ہیں، تو مجھے شہر تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ اس دوران کسی شہر میں دس دن، کسی شہر میں بارہ دن، کسی شہر میں تین دن جبکہ بسا اوقات ایک ہی شہر میں پورا مہینا بھی رکنا پڑ جاتا ہے، جس کا کوئی علم نہیں ہوتا، تردد و شک والی کیفیت ہوتی ہے کہ جب کبھی نگران کا حکم ہوگا شہر بدلنا پڑے گا۔ اس لیے پوچھنا تھا کہ اس صورت میں مقیم کی طرح نمازیں ادا کرنا ہوں گی یا مسافر کی طرح؟            

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

شرعی مسافر کے کسی قابلِ اقامت جگہ پر مقیم ہونے کے لیے شرعی اعتبار سے پندرہ دن یا اس سے زائد ٹھہرنے کا ارادہ ضروری ہوتا ہے، یعنی ایسی پکی نیت و حتمی قصد ضروری ہے جس میں تردد و شک نہ ہو، بلکہ بالیقین وہاں ٹھہرنے اور پندرہ متصل راتیں گزارنے کی نیت ہو۔ اگر ایسی صورت نہ ہو، تو مسافر مقیم شمار نہیں ہوتا اور وہ بدستور مسافر ہی رہتا ہے، اگرچہ اسی حالت میں پوری دنیا کا سفر ہی کیوں نہ کر لے۔

اس مختصر تفصیل سے صورت مسئولہ کا حکم بھی واضح ہوگیا، چونکہ آپ کا کسی معین جگہ  پر کم ازکم پندرہ دن ٹھہرنے کا پختہ ارادہ نہیں، بلکہ تردد اور غیر یقینی کیفیت پائی جارہی ہے، یعنی نگران کے حکم کے مطابق کسی بھی وقت شہر تبدیل کرنے کا امکان رہتا ہے، اس لیے ایسی حالت میں نیتِ اقامت منعقد نہیں ہوگی، لہٰذا شرعاً آپ کی حالت سفر ہی شمار ہوگی اور قصر ہی کریں گے، یعنی چار رکعات والی فرض نماز دو رکعتیں  پڑھیں گے۔

اقامت کی شرائط بیان کرتے ہوئے حلبی میں علامہ ابن امیر الحاج علیہ الرحمۃ   لکھتے ہیں:

الامر الثانی: نیۃ الاقامۃ، وھو ان ینوی اقامۃ خمسۃ عشر یوماً فی مکان واحد صالح للاقامۃ

یعنی: دوسری شرط  اقامت کی نیت کرنا ہے، اور وہ یہ ہے کہ کسی ایک قابلِ اقامت جگہ پر پندرہ دن رہنے کی نیت کرے۔ (حلبۃ المجلی شرح منیۃ المصلی، جلد 2، صفحہ 527، طبع بیروت)

نیت میں عزم کا اعتبار ہے، محض تردد سے  مسافر، مقیم نہیں بن سکتا، حلبی میں ہے:

نیۃ الاقامۃ خمسۃ عشر یوما یعتبر عزمہ علی الثبات

 ترجمہ: پندرہ دن رہنے کی نیت میں اس کا پختہ عزم ہونا معتبر ہے۔ (حلبۃ المجلی شرح منیۃ المصلی، جلد 2، صفحہ 528، طبع بیروت )

اس کی نظیر یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کا لشکر دار الحرب میں کسی قلعے کا محاصرہ کرتا ہے اور امیر سمیت  تمام لشکر والے وہاں اقامت کی نیت کرتے ہیں، تو ان کی نیت معتبر نہیں ہوگی، بلکہ وہ بدستور مسافر ہی رہیں گے اور قصر کریں گے، اس لیے کہ ان کی نیت میں تردد ہے، فتح پندرہ دن سے پہلے بھی ہوسکتی ہے اور پندرہ دن کے بعد بھی ہو سکتی ہے، شرح سیر کبیر للسرخسی میں ہے:

وإن دخل المسلمون أرض الحرب فانتهوا إلى حصن ووطنوا أنفسهم على أن يقيموا عليه شهرا إلا أن يفتحوه قبل ذلك، أخبرهم الوالي بذلك، فإنهم يقصرون الصلاة. ‌لأنهملميعزموا على إقامة خمس عشرة ليلة لمكان الاستثناء، فالفتح قبل مضي خمس عشرة ليلة محتمل“

ترجمہ: اور اگر مسلمان دار الحرب میں داخل ہوئے اور کسی قلعے کے پاس پہنچ کر یہ نیت کر لی کہ ہم یہاں ایک مہینا رہیں گے، الا یہ کہ ہم اس سے پہلے فتح حاصل کرلیں، یہ بات ان کو والیِ لشکر نے بتائی، تو تمام افراد قصر نماز ہی ادا کریں گے، کیونکہ ان کا پندرہ راتیں رہنے کا عزم نہیں، اس لیے کہ درمیان میں استثناء موجود ہے، کیونکہ پندرہ راتوں سے قبل بھی فتح کا احتمال ہے۔ (شرح سیر کبیر، جلد1، صفحہ245، طبع الشرکۃ الشرقیۃ للاعلانات)

اس کی علت بیان کرتے ہوئے علامہ شمس الدین سروجی حنفی علیہ الرحمۃ الغایہ میں، علامہ ابن ہمام علیہ الرحمۃ فتح القدیر میں لکھتے ہیں:

اللفظ للاول: ”لان حال الجیش مبطلۃ لعزیمتھم فلاتصح نیتھم لانھا قصد لا یوجد فیہ تردد وھم فی دار الحرب بین ان یھزموا فیفرواوبین ان یھزموا فیقروا ولھذا قال اصحابنا فیمن دخل بلداً لقضاء حاجۃ ونوی اقامۃ خمسۃ عشر یوماً لا یصیر مقیماً لانہ ان قضیٰ حاجتہ قبل انقضاء المدۃ یخرج منہ فاشبہ المحارب

 ترجمہ:  کیونکہ ا ن کی حالت ان کے ارادے کو باطل کرنے والی ہے، لہذا ان کی نیت کرنا ہی درست نہیں، اس لیے کہ نیت ایسے قصد کو کہتے ہیں جس میں ترددو شک نہ ہو، حالانکہ یہ دار الحرب میں دومعاملوں کے درمیان ہوتے ہیں کہ ہار گئے، تو واپس ہوں گے اور جیت گئے تو وہیں رہیں گے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے اصحاب نے کہا ہےکہ جو شخص کسی شہر میں کام کے سلسلے میں آیا اور پندرہ دن رہنے کی نیت کرلی، تو وہ مقیم نہیں ہوگا، کیونکہ اگر اس کی حاجت اس سے پہلے پوری ہوگئی تو وہ شہر سے چلا جائے گا، لہذا یہ دار الحرب جانے  والے لشکر کے مشابہ ہوگیا۔(الغایۃ شرح الھدایہ، جلد 5، صفحہ 58، طبع دار الرسالۃ العلمیہ)

اس سے معلوم ہوا کہ نیت میں پختہ ارادہ  و عزم ضروری ہے اور تردد ہونا  نیت کے منافی ہے، چنانچہ  الغایہ میں ہے: التردد منافٍ للاقامة یعنی : تردد و شک اقامت کی نیت کے منافی ہے۔ (الغایۃ شرح الھدایہ، جلد 5، صفحہ 58، طبع دار الرسالۃ العلمیہ)

فتاوی رضویہ میں سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں: ”نمازی کو  اس میں اس شک و تردد کا حکم نہیں کہ نیت و تردد باہم منافی ہیں، اگر یُونہی مذبذب نیت کی تو وہ مقصود و احتیاط ہرگز حاصل نہ ہوگا۔ (فتاوی رضویہ، جلد 8، صفحہ 294، طبع رضافاؤنڈیشن ، لاھور)

ہمارے مسئلے میں بھی یہی صورت ہے کہ  اس شخص کی حالت تردد والی ہے، جس کی وجہ سے یہ مسافر ہی رہے گا، چنانچہ مسافر کی نماز کے احکام  کتاب میں ہے: ”       کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زید کا وطن اصلی لاہور ہے، وہ (ٹی وی پروگرام)ذہنی آزمائش سلسلے میں شرکت کرنے کے لیے لاہور سے کراچی گیا، اب اسے معلوم نہیں کہ وہاں کتنے دن ٹھہرنا پڑے گا، اگر پہلے سلسلے میں کامیابی نہ ملی، تو پھر پندرہ دن سے پہلے ہی واپس آ جائے گا، اگر کامیابی مل گئی، تو اگلے سلسلے میں بھی شرکت کرنی ہو گی جو کہ چند دن بعد ہوگا۔ اب بھی وہی تردد والی کیفیت ہےکہ معلوم نہیں پندرہ دن مزید ٹھہرنا پڑے گا یا اس سے پہلے ہی واپس چلا جائے گا ؟اسی طرح فائنل تک یہ کیفیت برقرار رہتی ہے، تو معلوم یہ کرنا ہے کہ زید وہاں پر نمازیں پوری پڑھے گا یا قصر کرے گا ؟‘‘

’’جواب: صورتِ مسئولہ میں زیدقصر نماز ادا کرے گا، کیونکہ یہ سفرِ شرعی کر کے آیا ہے یعنی مسافر ہے اور مسافر جب کسی جگہ پورے پندرہ دن رہنے کی حتمی نیت کرے، تو تب وہ اس جگہ مقیم ہوتا ہے اور اب اس نے قصر کی بجائے پوری نماز پڑھنی ہوتی ہے اور اگر پندرہ دن رہنے کی نیت حتمی و جزمی نہ ہو، بلکہ اس میں ابہام و تردد ہو، تو ایسی نیت سے مسافر مقیم نہیں بنتا، بلکہ شرعاً وہ اس کی حالتِ سفر ہی شمار ہوتی ہے اور اس پر قصر کرنا لازمی ہوتا ہے اور صورت مسئولہ میں زیدکی نیت بھی پندرہ دن اقامت کی حتمی و جزمی نہیں ہوگی، بلکہ نیت میں تردد و استثناء موجود ہے کہ اگر کامیابی نہ ملی، تو میں پندرہ دن سے قبل چلا جاؤں گا، لہٰذا جب نیت جزمی نہیں، بلکہ اس میں تردد ہے، تو ایسا شخص مقیم نہیں بنے گا، بلکہ مسافر ہی رہے گا۔‘‘ (مسافر کی نماز کے احکام، فتویٰ 10، صفحہ44، پیشکش: مجلس افتاء، دعوت اسلامی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: HAB-0686

تاریخ اجراء:  12 جمادی الاخری     1447ھ/04دسمبر2025ء