دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص ظہر کی سنتِ قبلیہ پڑھ رہا ہو، دوسری رکعت کے قیام میں ہو، اور اسی دوران ظہر کی جماعت شروع ہوجائے، تو کیا وہ دو رکعت مکمل کرکے سلام پھیر دے یا چار رکعت مکمل کرے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر کوئی شخص ظہر کی سنتِ قبلیہ ادا کررہا ہو اور ابھی تیسری رکعت کے لیے کھڑا نہ ہوا ہو کہ اسی دوران فرض نماز کی جماعت شروع ہوجائے، تو ایسی صورت میں بہتر یہی ہے کہ وہ چار رکعت سنتیں مکمل کرکے پھر جماعت میں شامل ہو۔ البتہ اگر وہ دو رکعت پر سلام پھیر کر جماعت میں شامل ہوجائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔
تفصیل یہ ہے کہ اس مسئلے میں ائمہ و فقہاء سے دو معتبر قول منقول ہیں:
پہلا قول یہ ہے کہ ایسی صورت میں سنتیں ادا کرنے والا دو رکعت پر سلام پھیر کر فوراً جماعت میں شریک ہوجائے اور یہ سنتیں بعد میں ادا کرے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ چار رکعت مکمل ادا کرے، اس کے بعد جماعت میں شامل ہو۔
دونوں اقوال قوی ہیں، دونوں کی تصحیح منقول ہے اور دونوں طرف معتبر ائمہ و فقہاء کی ایک جماعت ہے، لہٰذا سنتیں پڑھنے والا ان میں سے کسی بھی قول پر عمل کرسکتا ہے۔ البتہ دوسرے قول کی وجوہِ ترجیح پہلے کے مقابل زائد ہیں، یہی عام مشائخ کا قول ہے، ظاہر الروایہ کے اشارے سے ثابت ہے، اس کے لیے ’’علیہ الفتویٰ‘‘ جیسے تاکیدی الفاظ منقول ہیں، اور اسی طرف امام اہل سنت کا میلان بھی ہے۔ اسی لیے بہتر یہ ہے کہ اسی پر عمل کیا جائے اور چار رکعت مکمل کرکے جماعت میں شامل ہوا جائے۔
ہدایہ، فتح القدیر، در شرح غرر، غنیہ ذوی الاحکام، خزانۃ المفتیین، بدائع الصنائع، مجمع الأنھر، بحر الرائق، نہر الفائق، ہندیہ وغیرہ کتب فقہ میں اس اختلاف کو ذکر کیا گیا ہے اور سبھی نے اپنے نزدیک راجح قول کی تصحیح بیان کی ہے۔ در مختا رمیں ہے:
”(وكذا سنة الظهر و) سنة (الجمعة إذا أقيمت أو خطب الإمام) يتمها أربعا (على) القول (الراجح) لأنها صلاة واحدة۔۔۔خلافا لما رجحه الكمال“
ترجمہ: اسی طرح اگر جماعت شروع ہوجائے یا امام خطبہ شروع کردے اور کوئی ظہر یا جمعہ کی سنتِ قبلیہ ادا کررہا ہو، تو راجح قول کے مطابق چار رکعات مکمل ادا کرے کہ یہ ایک ہی نماز ہے۔۔۔ امام کمال بن ہمام رحمہ اللہ نے جس قول کو ترجیح دی، اس کے خلاف۔
(خلافا لما رجحه الكمال) کے تحت علامہ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”حيث قال: وقيل يقطع على رأس الركعتين، وهو الراجح الخ:۔أقول: وظاهر الهداية اختياره، وعليه مشى في الملتقى ونور الإيضاح والمواهب وجمعة الدرر والفيض، وعزاه في الشرنبلالية إلى البرهان. وذكر في الفتح أنه حكي عن السعدي أنه رجع إليه لما رآه في النوادر عن أبي حنيفة وأنه مال إليه السرخسي والبقالي. وفي البزازية أنه رجع إليه القاضي النسفي. وظاهر كلام المقدسي الميل إليه. ونقل في الحلية كلام شيخه الكمال. ثم قال: وهو كما قال هذا۔وما رجحه المصنف صرح بتصحيحه الولوالجي وصاحب المبتغى والمحيط ثم الشمني. وفي جمعة الشرنبلالية: وعليه الفتوى. قال في البحر: والظاهر ما صححه المشائخ۔۔۔ وأقره في النهر “
ترجمہ: یوں کہ فرمایا: اور بعض نے کہا کہ دو رکعت پر سلام پھیر دے، اور یہی راجح ہے:۔میں کہتا ہوں: ہدایہ کا ظاہر اسی کے اختیار پر دلالت کرتا ہے، اور ملتقى، نور الايضاح، المواهب، الدرر کے باب الجمعہ اور الفيض میں بھی اسی پر عمل کیا گیا ہے، اور شرنبلالیہ میں اسے برہان کی طرف منسوب کیا ہے۔ فتح میں ذکر ہے کہ سعدی سے یہ منقول ہے کہ انہوں نے اسی طرف رجوع کیا، جب انہوں نے نوادر میں امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے اس کا ماخذ دیکھا، اور سرخسی اور بقّالی بھی اسی کی طرف مائل ہوئے۔ بَزازیہ میں ہے کہ قاضی نسفی نے بھی اسی کی طرف رجوع کیا۔ مقدسی کے کلام کا ظاہر بھی اسی کی طرف میلان رکھتا ہے۔ حليہ میں اپنے شیخ کمال کا قول نقل کرنے کے بعد کہا: یہی صحیح ہے۔ رہا وہ قول جسے مصنف نے راجح کہا، تو ولوالجی، صاحبِ مبتغی، المحیط اور پھر شمنی نے اس کی تصحیح کی ہے، اور جمعۃ الشرنبلالیہ میں ہے کہ اسی پر فتویٰ ہے۔ بحر میں کہا: ظاہر وہی ہے جو مشائخ نے صحیح قرار دیا۔۔۔اور نہر میں بھی اسی کو برقرار رکھا ہے۔ (در مختارمع رد المحتار، ج 2، ص 53، دار الفکر، بیروت)
نیز فتاوی رضویہ میں ہے: ”وہ چار سنت مؤکدہ جو مثلاً: ظہر اور جمعہ سے پہلے ہیں، تو ان کا حکم نوافل سے فائق ہوتا ہے، اس جگہ علماء کا بہت زیادہ اختلاف ہے، اکثر نے ان سننِ مؤکدہ کو نوافل کا درجہ دیا ہے، اب اگر جماعت کھڑی ہوگئی یا امام نے خطبہ شروع کردیا تو جو شخص سنن کی پہلی دو رکعات میں ہے وہ دو رکعت پر سلام کہہ دے۔۔۔دوسرا قول یہ ہے کہ ان دونوں سنتوں کی چار چار رکعات پوری کرلے اگر چہ خطبہ جمعہ یا ظہر کی جماعت کھڑی ہوجائے کیونکہ یہ تمام نماز واحد کی طرح ہے۔۔۔عام مشائخ نے اسی قول کو ترجیح دی اور اسی کی تصحیح پر تصریح کی ہے۔۔۔(پھر دونوں اقوال کی جانب جو علماء گئے ہیں، ان کی عبارات ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا) میں کہتا ہوں: آپ نے دیکھ لیا کہ ہر طرف قوت ہے، تو نہایت بلند اور جلیل رفعت دونوں میں ہے۔ پس قولِ اوّل پر جو دلیل امام ابن ہمام قدس سرہٗ نے ذکر کی ہے، وہ اگرچہ دل کو پسند ہے، لیکن عام تصحیحاتِ صریحہ کا ہجوم اس طرف زیادہ ہے جہاں لفظ ’’ھو الصحیح‘‘ ہے، جوکہ جمہور ائمہ کا خاص انداز ہے، جس کو دوسرے قول نے اپنے دامن میں لے رکھا ہے۔ اور لفظ ’’ھو أوجہ‘‘جو کہ محقق علیٰ الاطلاق کی طرف سے قولِ اوّل کے لیے مزید وزنی ہے، ہیئت، مادّہ اور زائد امور ہر لحاظ سے، جیسا کہ کلام کے اسلوب سے واقف فقیہ اور ماہر پر مخفی نہیں۔اس طرف اگر مشائخ کی پسند ہے، جو کہ بظاہر خود امام قاضی خاں سے مراد ہے، تو دوسری طرف بھی ’’صححہ اکثر المشائخ‘‘ اور ’’صححہ المشائخ‘‘کے الفاظ موجود ہیں۔ نیز وہاں ’’علیہ الفتویٰ‘‘کے الفاظ بھی ہیں جو کہ عام الفاظ کی نسبت زیادہ تاکید اور قوت پر دال ہیں۔ اگر وہاں (پہلے قول) کی طرف نوادرِ روایت کے مطابق شیخین (امام اعظم اور امام ابو یوسف رضی اللہ تعالیٰ عنہما) کا مذہب مذکور ہے تو یہاں (دوسرے قول) کے لیے اصل مبسوطِ امام محمد کا اشارہ موجود ہے، جبکہ اصل کا اشارہ کوئی معمولی بات نہیں۔ علماء کا قول ہے کہ ’’متون‘‘ کا مفہوم بھی فتاوٰی کے ’’منطوق‘‘ پر مقدم ہے۔ علامہ سیدی احمد حموی نے غمز العیون میں لکھا ہے کہ مخفی نہیں کہ متون اور شروح میں جو بات بطورِ مفہوم ہے، وہ فتاوٰی کے واضح اقوال پر مقدم ہے۔ حاصل یہ کہ نوادر کا مقابلہ اصول سے ایسا ہی ہے جیسا کہ فتاوٰی کا متون سے، یعنی اصول کے اشارہ کو نوادر کی تصریحات پر ترجیح ہے۔
غرض یہ کہ یہ مسئلہ ان امور میں سے ہے کہ اس کے دونوں اقوال میں سے جس پر انسان چاہے عمل کرے، اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ اور میں خود دوسرے قول کی طرف اپنے آپ کو مائل پاتا ہوں، اس کے کچھ وجوہ آپ سن چکے، اور کچھ آگے سنیں گے۔
میں کہتا ہوں: پہلے قول کی دلیل پر کہا جاسکتا ہے کہ جب سنت اپنے وقت سے مؤخر ہوجائے تو وہ ناقص ہوجاتی ہے، اور یہ سنت بطریقِ سنت ادا نہ ہوگی، جبکہ سنتیں فرائض کو کامل بناتی ہیں، اور یہ بات ظاہر ہے کہ کامل چیز کا مکمل کرنا ناقص چیز کی تکمیل کے مقابلے میں زیادہ کامل ہوتا ہے۔ تو یوں سنت کا نقصان فرض کے نقصان کا باعث ہوتا ہے۔ جب دو رکعت پر سلام ہو تو سنت کے وصف میں نقصان ہے، جو کہ پورا نہیں ہوتا، تو اس سے فرض کی تکمیل میں عدم لازم آئے گا، اور فرض اکمل نہ ہو سکے گا۔ بخلاف اس کے کہ جب سنت کو مکمل کیا جائے تو وہ نقصان سے مطلقاً محفوظ رہے گی۔ اس سے اگرچہ فرض کے اکمل ہونے میں فرق آئے، مگر دوسری وجہ (یعنی سنتوں کی تکمیل) سے متبادل کمال حاصل ہوجائے گا۔یہ وہ ہے جو میرے دل میں ڈالا گیا، اور حقیقی علم میرے رب کو ہے۔ میرا رب ہر چیز کا عالم ہے۔ (فتاوی رضویہ، ج8، ص130، 136، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
دوسرے قول کی طرف اعلیٰ حضرت نے اپنا میلان ظاہر فرمایا اور بہار شریعت میں فقط اسی قول کو بیا ن کیا گیاجو اس کی ترجیح کی طرف اشارہ ہے، لکھتے ہیں: ”جمعہ اور ظہر کی سنتیں پڑھنے میں خطبہ یا جماعت شروع ہوئی تو چار پوری کرلے۔“ (بھار شریعت، جلد1، حصہ4، صفحہ696، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
تو بہتر دوسرے قول پر ہی عمل کرنا ہے۔ لیکن چونکہ دونوں اقوال با قوت ہیں اور دونوں کی تصحیح کی گئی ہے، اسی لیے امام اہل سنت رحمہ اللہ نے دونوں اقوال میں سے کسی پر بھی عمل کو جائز قرار دیا، جیساکہ قاعدہ ہے ”جب دونوں اقوال کی تصحیح کی گئی ہو تو مکلف جس قول پر چاہے عمل کر سکتا ہے۔“ امام اہل سنت اس قاعدہ کو ایک مقام پر ان الفاظ کے ساتھ بیان کرتے ہیں: ”ائمہ فتوٰی نے دونوں کی تصحیح کی تو احد الصحیحین پر دُعائے مذکور امام و مقتدین سب کو دل و زبان ہر طرح سے باتفاق مذہبین حنفی وشافعی، مطلقاً جائز و مشروع، اور علماء تصریح فرماتے ہیں کہ جب ترجیح مختلف متکافی ہو تو مکلف کو اختیار ہے کہ ان میں سے جس پر چاہے عمل کرے اصلاً محلِ اعتراض وانکار نہیں۔۔۔ولہذا فقیر غفرا ﷲ تعالٰی بآنکہ یہاں تصحیح تبیین کو ارجح جانتا ہے ہمیشہ سامعین کو بین الخطبتین دعا کرتے دیکھا اور کبھی منع و انکار نہیں کرتا ہے۔“ (فتاوی رضویہ، ج8، ص490، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: HAB-0674
تاریخ اجراء: 30جمادی الأولی 1447ھ/22 نوبر 2025 ء