دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی کے تلفظ درست نہ ہوں اور اس سے الفاظ کے معنی تبدیل ہو جائیں، تو کیا ایسا شخص اذان پڑھ سکتا ہے؟ اگر وہ اذان کہہ دے، تو کیا دوبارہ اذان کہی جائے گی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
جس کے تلفظ درست نہ ہوں اور اس وجہ سے کلماتِ اذان تبدیل ہوجائیں، تو ایسے شخص کا اذان پڑھنا، ناجائز و گناہ ہے، لہٰذا ایسے شخص کو اذان کہنے اور اسے مؤذن مقرر کرنے کی ہرگز اجازت نہیں، لیکن اگر پھر بھی اذان دے، تو وہ اذان نہ ہو گی، اس کو درست تلفظ کے ساتھ لوٹانا ہوگا۔
جو شخص کلمات اذان میں تبدیلی کرے، اس کا اذان دینا جائز نہیں، جیسا کہ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:
بحيث يؤدی الى تغيير كلمات الاذان و كيفياتها بالحركات و السكنات و نقص بعض حروفها او زيادة فيها فلا يحل فيه
ترجمہ: اس طرح اذان دینا کہ کلماتِ اذان تبدیل ہو جائیں اور کلمات کی حرکات وسکنات میں بھی تبدیلی ہو جائے اور حروف کی کمی زیادتی ہو، یہ جائز نہیں۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، صفحہ 198، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ، بیروت)
جو مؤذن غلط اذان کہے، وہ گناہ گار ہے، اس کی اذان کا اعادہ کیا جائے، جیساکہ مفتی عبد المنان اعظمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے ایسی اذان و اقامت کے بارے میں سوال ہوا جس میں اشھد، کواسھد، محمد کو مھمد، حی کو ھی، الفلاح کو الفلا اور قد قامت کو کد کامت وغیرہ کہا گیا اس کے جواب میں فرماتے ہیں: سائل نے اپنی تحریر میں اذان کی جن غلطیوں کی نشان دہی کی ہے ان میں بعض کو فقہ کی اصطلاح میں لحن کہتے ہیں، ایسی اذان کا جواب نہ دیا جائے بلکہ سنا بھی نہ جائے ایسی اذان کہنا حرام ہے، بعض صورتوں میں جب اذان مکروہ ہو تو اعادہ کا حکم ہے، تو جب اذان صحیح ہی نہیں ہوئی تو ضرور لوٹانا چاہیے۔۔۔ اذان غلط کہنے کا گناہ الگ ہوگا۔“ (فتاوی بحر العلوم،، جلد 1، صفحہ 153 - 154، مطبوعہ شبیر برادرز،لاھور)
غلط اذان کہنے والے کو مؤذن مقرر کرنا منع ہے، جیساکہ فتاوی بحر العلوم میں ہی ہے: ”یہ جان کر کہ غلط اذان کہتا ہے، اس کو موذن مقرر کرنا منع ہے۔“ (فتاوی بحر العلوم، جلد 4، صفحہ 174، شبیر برادرز، لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FSD-9605
تاریخ اجراء: 14جمادی الاولیٰ 1447ھ/06 نومبر 2025 ء