دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اقامت کہنے کا حق کس کو ہے، نیز کیا امام خود اقامت کہہ سکتا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اقامت کہنا مؤذن کا حق ہے۔ مؤذن موجود نہ ہو، تو جو چاہے اقامت کہہ سکتا ہے، لیکن ایسی صورت میں امام کا اقامت کہنا افضل ہے اور اگر مؤذن موجود ہو اور بلا اجازت کسی کے اقامت کہنے سے مؤذن کو ناگواری ہوتی ہو، تو کسی دوسرے کا اقامت کہنا مکروہ و ناپسندیدہ عمل ہے، چاہے دوسرا شخص امام ہو۔ ہاں!مؤذن کو بُرا نہ لگتا ہو یا اس کی اجازت ہو، تو حرج نہیں۔
اقامت کہنا مؤذن کا حق ہے، جیسا کہ ”مصنف عبدالرزاق“، ”مصنف ابن ابی شیبہ“، ”مسند احمد“، ” سنن ترمذی“، ”سنن ابی داؤد “، ”سنن ابن ماجہ“ اور ”شرح معانی الآثار“ میں ہے:
واللفظ للآخر: ”عن زياد بن نعيم، أنه سمع زياد بن الحارث الصدائي قال: أتيت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم، فلما كان أول الصبح أمرني فأذنت، ثم قام إلى الصلاة فجاء بلال ليقيم، فقال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: إن أخا صداء أذن، ومن أذن فهو يقيم“
ترجمہ: حضرت زیاد بن نعیم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت زیاد بن حارث صدائی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو فرماتے ہوئی سنا کہ میں رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوا۔جب صبح کا وقت ہوا، تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے اذان دینے کا حکم ارشاد فرمایا، میں نے اذان دی، پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نماز کے لیے کھڑے ہوئے، تو حضرتِ بلال رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ آئے، تاکہ اقامت کہہ سکیں، تو رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ”قبیلہ صداء کے بھائی نے اذان دی ہے اور جو اذان دے، وہی اقامت کہے۔“ (شرح معانی الآثار، جلد 1، صفحہ 142، مطبوعہ عالم الکتاب، بیروت)
حدیثِ مبارک کے الفاظ ”من أذن فهو يقيم“ کے تحت ”شرح مصابیح السنۃ“ اور ”مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح“ میں ہے:
واللفظ للاول:”أن الاقامة حق من أذن، فيكره أن يقيم غيره، وبه قال الشافعي وعند أبي حنيفة: لا يكره؛ لما روي أن ابن أم مكتوم ربما كان يؤذن ويقيم بلال، وربما كان عكسه، فالحديث محمول على ما إذا لحقته الوحشة بإقامة غيرہ“
ترجمہ: اقامت اسی کا حق ہے، جس نے اذان دی، لہٰذا امام شافعی رَحِمَہُ اللہ کے نزدیک مؤذن کے علاوہ کسی کا اقامت کہنا مکروہ ہے، جبکہ امام اعظم ابو حنیفہ رَحِمَہُ اللہ کے نزدیک مکروہ نہیں، کیونکہ مروی ہے کہ بعض اوقات حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ اذان اور حضرت بلال رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ اقامت کہتے اور کبھی اس کا برعکس ہوتا، تو اس بنا پر امام اعظم رَحِمَہُ اللہ کے نزدیک یہ حدیثِ مبارک اس حالت پر محمول ہے کہ جب کسی اور کے اقامت کہنے سے مؤذن کو ناگواری ہو(تو کسی اور کا کہنا مکروہ ہوگا)۔ (شرح مصابیح السنۃ، جلد 1، صفحہ 397، مطبوعہ إدارة الثقافة الاسلامية)
مؤذن کی موجودگی میں اس کے علاوہ کسی دوسرے کا اقامت کہنا مؤذن کو ناگوار گزرتا ہو، تو کسی دوسرے کا اقامت کہنا مکروہ ہے، چنانچہ ملک العلماء علامہ کاسانی حنفی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 587ھ/1191ء) لکھتے ہیں:
”أن من أذن فهو الذي يقيم، وإن أقام غيره: فإن كان يتأذى بذلك يكره؛ لأن اكتساب أذى المسلم مكروه، وإن كان لا يتأذى به لا يكره“
ترجمہ: جو اذان دے، وہی اقامت کہے اور مؤذن کے علاوہ کسی کے اقامت کہنے کی صورت میں اگر اس سے مؤذن کو تکلیف پہنچے، تو مکروہ ہے، کیونکہ کسی مسلم کو تکلیف پہنچانا مکروہ ہے اور اگر اس سے ناگواری نہ ہو، تو مکروہ نہیں۔ (بدائع الصنائع، جلد 1، صفحہ 151، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ، بیروت)
مؤذن موجود نہ ہو، تو جو چاہے اقامت کہہ سکتا ہے، جیسا کہ تنویر الابصار ودرِ مختار میں ہے:
”(أقام غير من أذن بغيبته) أي المؤذن (لا يكره مطلقا)“
ترجمہ: مؤذن کی غیر موجودگی میں کسی دوسرے کا اقامت کہنا مطلقاً مکروہ نہیں ہے۔ (تنویر الابصار ودر مختار، جلد 2، صفحہ 79، مطبوعہ کوئٹہ)
لیکن افضل یہ ہے کہ امام اقامت کہے۔ صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ/ 1947ء) لکھتے ہیں: ”جس نے اَذان کہی، اگر موجود نہیں، تو جو چاہے اِقامت کہہ لے اور بہتر امام ہے اور مؤذن موجود ہے، تو اس کی اجازت سے دوسرا کہہ سکتا ہے کہ یہ اسی کا حق ہے اور اگر بے اجازت کہی اور مؤذن کو ناگوار ہو، تو مکروہ ہے۔ “ (بھار شریعت، جلد1، حصہ3، صفحہ470، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-9623
تاریخ اجراء: 21جمادلی الاولیٰ 1447ھ/13 نومبر 2025 ء