شیشے یا آئینے کے سامنے نماز پڑھ سکتے ہیں؟

شیشے یا آئینے کے سامنے نماز پڑھنا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں اپنے کمرے میں جس جگہ نماز پڑھتا ہوں وہاں میرے بالکل سامنے شیشہ لگا ہوا ہے، شیشہ کے سامنے نماز پڑھنے کی صورت میں مجھے شیشہ پر اپنا عکس نظر آسکتا ہے، لیکن میں نماز پڑھتے ہوئے سامنے شیشہ کی طرف نہیں دیکھتا ہوں بلکہ نظریں نیچے رکھتا ہوں، تو کیا اس طرح میرے سامنے شیشہ ہونے سے میری نماز ہو جائے گی یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اگر نمازی ایسی جگہ نماز پڑھے جہاں اس کے سامنے شیشہ لگا ہو ،تو اگر چہ وہ شیشہ اتنا قریب ہو کہ اس میں نمازی کا پورا یا آدھا عکس نظر آتا ہو،بہرصورت نماز ہوجائے گی، کیونکہ شیشے میں نظر آنے والاعکس، تصویر کے حکم میں نہیں ہے،اور جب تصویر نہیں ہے تو اس نظر آنے والے عکس کی وجہ سے نماز میں کراہت نہیں ہوگی ،ہاں البتہ اگرسامنے شیشہ ہونے کی وجہ سے نمازی کی یک سوئی اور خشوع وخضوع میں خلل واقع ہوتا ہو اور نماز میں پوری طرح توجہ اوردھیان نہ رہتا ہو، تو ایسی صورت میں شیشہ کے سامنے نماز پڑھنا مکروہِ تنزیہی ہوگا، کیونکہ ہر وہ کام جس کی وجہ سے نماز کے خشوع و خضوع میں فرق آئے، اس کے ہوتے ہوئے نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی ہوتا ہے یعنی نماز تو ہوجائےگی،گناہ بھی نہیں ہوگا، لیکن یہ ایک ناپسندیدہ عمل ہوگا، لہذا بہتر یہ ہے کہ کسی اور جگہ جہاں شیشہ نہ ہو وہاں نماز پڑھی جائے یا اگر اُسی جگہ نماز پڑھنی پڑے تو پھر نماز پڑھتے وقت شیشے پر کوئی کپڑا وغیرہ ڈال دیا جائے تاکہ نماز میں خشوع و خضوع اور توجہ برقرار رہے۔

شیشہ میں نظر آنے والا عکس تصویر نہیں ہے، لہذا اس عکس کے سامنے نماز پڑھنے سے نماز میں کراہت نہیں ہوگی، چنانچہ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ سے فتاوی امجدیہ میں سوال ہوا کہ جس مکان میں آئینے قد آدم چار طرف لگے ہوں، اس مکان میں نماز ہو جائے گی یا نہیں؟

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب ارشاد فرمایا: ’’آئینہ سامنے ہو تو نماز میں کراہت نہیں کہ سببِ کراہت تصویر ہے اور وہ یہاں موجود نہیں اور اگر اُسے تصویر کا حکم دیں تو آئینہ کا رکھنا بھی مثل تصویر ناجائز ہوجائے، حالانکہ بالاجماع جائز ہے اور حقیقت امر یہ ہے کہ وہاں تصویر ہوتی ہی نہیں، بلکہ خطوط شعاعی آئینہ کی صقالت کی وجہ سے لوٹ کر چہرے پر آتے ہیں، گویا یہ شخص خود اپنے کو دیکھتاہے نہ یہ کہ آئینہ میں اس کی صورت چھپتی ہو‘‘۔ ( فتاویٰ امجدیہ، جلد 1، صفحہ 184، مکتبہ رضویہ، کراچی)

جس چیز کی وجہ سے نماز میں خشوع وخضوع برقرار نہ رہے، اس کے ہوتے ہوئے نماز مکروہِ تنزیہی ہوتی ہے،چنانچہ مراقی الفلاح شرح نور الایضاح میں ہے:

و تكره بحضرة كل ما يشغل البال كزينة و بحضرة ما يخل بالخشوع كلهو و لعب

ترجمہ: ہر وہ چیز جو دل کو مشغول کرے جیسے زینت اور جو چیز خشوع و خضوع میں خلل ڈالے جیسے لہو ولعب، اس کی موجودگی میں نماز مکروہ ہوگی۔ (مراقی الفلاح شرح نور الایضاح، فصل فی المکروھات، صفحہ 131، المكتبة العصرية)

وقار الفتاوی میں ہے: ’’نمازیوں کے آگے اتنی اونچائی تک کہ خاشعین کی طرح نماز پڑھنے میں جہاں تک نظر آجاتاہے، شیشے لگانا یاکوئی ایسی چیز لگانا جس سے نمازی کا دھیان اور التفات ادھر جاتاہو، مکروہ ہے۔ لہٰذا اتنی اونچائی تک کے شیشے ہٹالینا چاہییں، اُن شیشوں میں اپنی شکل جو نظر آتی ہے اس کے احکام تصویر کے نہیں، لہٰذا نماز مکروہِ تحریمی نہ ہوگی مگر (توجہ بٹنے کی وجہ سے نماز) مکروہِ تنزیہی ہے۔ (وقار الفتاوی، جلد 2، صفحہ 258، بزم وقار الدین، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FAM-555

تاریخ اجراء: 28ربيع الاول1446ھ/03اکتوبر 2024ء