تنہا نماز پڑھتے ہوئے سنّتِ مؤکّدہ چھوڑنا کیسا؟

تنہانمازپڑھتے ہوئے سنت موکدہ چھوڑنے کا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

میری ظہر کی نماز جماعت سے رہ گئی اور ابھی میں نے گھر میں نماز پڑھنی ہوتو کیا میں صرف فرض پڑھ سکتا ہوں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پہلے تو یہ بات یادرکھیں کہ عاقل، بالغ، آزاد، قادر شخص پر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا واجب ہے، بلاعذرشرعی ایک بار بھی جماعت چھوڑنے والا گناہ گار ہے۔ مسجد محلہ میں جماعت ہوجائے تو مرد کے لئے دوسری مسجد میں باجماعت نماز پڑھنا افضل ہے اور اگر دوسری مسجد میں بھی جماعت نہ ملے یا دوسری مسجد ہی نہ ہو تو اس کے لیے گھر کی بنسبت محلہ ہی کی مسجد میں نماز پڑھنا افضل ہے۔

اور گھر میں نماز پڑھیں یا مسجد میں بہر صورت فرض کے ساتھ ساتھ سنتِ مؤکدہ ( یعنی چار رکعت ظہر کے فرضوں سے پہلے اور دو رکعت فرضوں کے بعد) بھی پڑھنی ہوں گی ، جماعت چھوٹ جانے پر گھر میں نماز پڑھنے کی صورت میں سنتِ مؤکدہ معاف نہیں ہوتی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے

تجب على الرجال العقلاء البالغين الأحرار القادرين على الصلاة بالجماعة من غير حرج

ترجمہ: عاقل، بالغ، آزاد، اور بغیر حرج کے باجماعت نماز پڑھنے پر قادر مَردوں پر جماعت واجب ہے۔(فتاوی عالمگیری، جلد 1، صفحہ 82، مطبوعہ بیروت)

بہار شریعت میں ہے "عاقِل، بالغ، حر، قادر پر جماعت واجب ہے، بلاعذر ایک بار بھی چھوڑنے والا گنہگار اور مستحق سزا ہے اور کئی بار ترک کرے، تو فاسق مردود الشہادۃ اور اس کو سخت سزا دی جائے گی۔" (بہارِ شریعت، جلد1، حصہ 3، صفحہ 582، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

حلبی صغیری میں ہے

و ان فاتتہ الجماعۃ فی مسجد حیہ فان اتی مسجدا آخر یدرکھا فیہ فھو افضل۔۔۔ و ان لم یدرک الجماعۃ فی مسجد آخر فمسجد حیہ اولی

ترجمہ: اگر محلے کی مسجد کی جماعت فوت ہو جائے تو اگر دوسری مسجد ایسی ہے جس میں جماعت مل جائے گی تو وہی افضل ہے۔ اور اگر دوسری مسجد میں جماعت نہ ملے تو محلے کی مسجد ہی اولی ہے۔(حلبی صغیری، صفحہ 266، مطبوعہ: الشرکۃ الصحافیۃ عثمانیہ، استنبول)

بہار شریعت میں ہے ”مسجد محلہ میں جماعت نہ ملی تو دوسری مسجد میں با جماعت پڑھنا افضل ہے اور جو دوسری مسجد میں بھی جماعت نہ ملے تو محلہ ہی کی مسجد میں اَولیٰ ہے۔“ (بہار شریعت، جلد 01، حصہ 3، صفحہ 650، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

ظہر سے پہلے کی چار سنتیں اور بعد کی دو سنتیں مؤکدہ ہیں۔ تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے

(و سن) مؤكدا (أربع قبل الظهر)

یعنی: ظہر سے پہلے چار رکعت سنت مؤکدہ ہے۔ (الدر المختار شرح تنوير الأبصار، صفحہ91، دار الكتب العلمية، بيروت)

کنز الدقائق میں ہے

و السنۃ قبل الفجر و بعد الظھر والمغرب والعشاء رکعتان و قبل الظھر و الجمعۃ و بعدھا اربع

ترجمہ: دو رکعت فجر سے پہلے اور دو ظہر کے بعد اور دو مغرب کے بعد اور دو عشا کے بعداور چار رکعت ظہر سے پہلے اورچار جمعہ سے پہلے اور چار جمعہ کے بعد سنت (مؤکدہ ) ہیں۔ (کنز الدقائق، صفحہ 176،دار البشائر الاسلامیۃ)

سنتِ مؤکدہ کو عادتاً ترک کرنا گناہ ہے۔ جیسا کہ فتاوٰی رضویہ میں ہے ”سنتِ مؤکدہ کے ایک آدھ بار ترک سے اگرچہ گناہ نہ ہو، عتاب ہی کااستحقاق ہو، مگربارہا ترک سے بلاشبہ گنہگار ہوتا ہے۔“ (فتاوٰی رضویہ، جلد 01، حصہ 2، صفحہ 596، رضافاؤنڈیشن، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا احمد سلیم عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4229

تاریخ اجراء: 22ربیع الاول1447ھ/16ستمبر2025ء