سنتیں پڑھ کر یاد آیا کہ فرض واجب الاعادہ ہیں تو سنتوں کا حکم؟

سنتیں پڑھنے کے بعد یاد آیا کہ فرض واجب الاعادہ ہیں تو کیا سنتیں دوبارہ پڑھنی ہوں گی ؟

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ اگر نمازِ ظہر کے فرض میں کوئی واجب چھوٹ جائے اور سنتِ بعدیہ پڑھنے کے بعد یاد آئے کہ فرض تو واجب الاعادہ ہیں، تو کیا اس صورت میں فرض دوبارہ ادا کرنے کے ساتھ سنتِ بعدیہ بھی دوبارہ ادا کرنی ہوں گی ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

اگر بعد والی سنتیں صحیح طور پر ادا ہوگئی تھیں، تو صرف فرض دہرانے ہوں گے، سنتِ بعدیہ دوبارہ پڑھنا ضروری نہیں۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ نماز دوبارہ پڑھنا اسی وقت واجب ہوتا ہے، جب کسی واجب کو ترک کرنے یا کسی مکروہِ تحریمی فعل کے ارتکاب کی وجہ سے وہ نماز مکروہِ تحریمی ہوجائے، جیسا کہ فقہائے کرام بالاتفاق اپنی اپنی کتب میں بیان فرماتے آئے ہیں اور جب فرض کے بعد پڑھی گئی سنتوں میں نہ کسی واجب کا ترک ہوا ہو اور نہ ہی افعالِ مکروہِ تحریمی میں سے کسی فعل کا ارتکاب ہوا ہو، تو اس کے اعادے کی کوئی وجہِ شرعی نہیں۔

 البتہ یہ اشکال اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ کتب فقہ میں آیا ہےسنن فرائض کے تابع ہوتی ہیں۔“ اس لیے جب فرض کا اعادہ واجب ہوا تو گویا سنتوں کا اعادہ بھی واجب ہونا چاہیے۔ سنن کے فرائض کے تابع ہونے کےمتعلق بدائع الصنائع اور بنایہ شرح الہدایہ وغیرہا میں ہے،

والنص للبنایہ:”السنن توابع الفرائض“

 ترجمہ:سنن فرائض کے تابع ہیں۔(البنایہ شرح الھدایہ، ج2، ص480، دار الکتب العلمیۃ) (البدائع الصنائع، ج1، ص288، دار الکتب العلمیۃ)

اس کا جواب یہ ہے کہ ”سنن فرائض کے تابع ہیں“ کا معنی یہ ہے کہ سننِ بعدیہ کی ادائیگی کے لیے شرط یہ ہے کہ پہلے فرض ادا ہوجائیں۔ جب تک فرض نماز ادا ہو کر ذمے سے ساقط نہیں ہوتی، اس وقت تک اس کے بعد والی سنن بھی ادا نہیں ہوتیں، کیونکہ سننِ بعدیہ کی ادائیگی کا محل و وقت فرضوں کے بعد ہے، اور جب فرض ادا ہی نہ ہوئے تو سننِ بعدیہ کا وقت و محل ہی پایا نہیں گیا، لہٰذا وہ بھی ادا نہ ہوئیں، اور اگر فرض ادا ہوگئے تو سنن بھی ادا ہوجاتی ہیں۔مختصر یہ کہ سنتوں کے ادا ہونے کے لیے فرض کا ادا ہونا ضروری ہے۔ ان ہی معنوں میں کہا جاتا ہے کہ سنن فرائض کے تابع ہیں۔ عمدۃ الرعایۃ علی شرح الوقایہ میں ہے:

السنۃ تبع للفرائض وتؤدی بعد أدائہ فإذا لم یتأد الفرض لم یتأد السنۃ“

 ترجمہ:سنن فرائض کے تابع ہیں اور فرض کے بعد ادا کی جاتی ہیں تو اگر فرض ادا نہ ہوئے تو سنن بھی ادا نہ ہوں گی۔ (عمدۃ الرعایہ شرح الوقایہ، ج1، ص258، دار الکتب العلمیۃ)

مثال کے طور پر: اگر کسی نے بھول کر بلا وضو فرض نماز پڑھ لی، پھر وضو کر کے سنتیں ادا کرلیں، تو چونکہ فرض بلا وضو ادا ہی نہ ہوئے تھے، لہٰذا سنتیں بھی (اگرچہ وضو کے ساتھ پڑھی گئیں) ادا نہ ہوئیں۔ اس لیے فرض کو وضو کے ساتھ دوبارہ پڑھنے کے بعد سنتیں بھی دوبارہ پڑھنی ہوں گی، کیونکہ یہ فرض کے تابع ہیں، چنانچہ بدائع الصنائع، شرح الوقایہ اور مجمع الأنہر میں ہے

 والنص للآخر:”و لو صلى العشاء بلا وضوء حال كونه ناسيًا ثم صلى السنة و الوتر به أي بالوضوء يعيد السنة لاعادة العشاء إذ لم يصح أداء السنة قبل الفرض مع أنها أديت بالوضوء لأنها تبع الفرض“

 ترجمہ:اگر کسی نے عشاء کی نماز بغیر وضو ادا کی، اسے وضو کرنا یاد نہ رہا، پھر اس نے وضو کرکے سنت اور وتر پڑھے، تو سنتوں کا اعادہ کرے گا، کیونکہ فرض سے قبل سنتوں کی ادائیگی درست نہیں، اگر چہ وہ وضو کے ساتھ ادا کی گئی ہوں کہ وہ فرض کے تابع ہیں۔  (مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر، ج1، ص216، دار احیاء التراث)

اور جب فرض ادا ہوچکے ہوں تو اس کے بعد پڑھی جانے والی سنتیں بھی ادا شمار ہوں گی، کیونکہ سنن کی ادائیگی کا محل و مقام فرض نماز کے بعد ہے، تو جب سنتیں اپنے محل پر ادا کرلی گئیں، تو وہ صحیح طور پر ادا ہوگئیں، جیسا کہ محقق علی الاطلاق لکھتے ہیں:

لما حققناه من أن معنى كونه سنة كونه مفعولا للنبي صلى اللہ عليه وسلم على المواظبة في محل مخصوص۔۔۔فمن فعل مثل ذلك الفعل في وقته فقد فعل ما سمي بلفظ السنة، وحينئذ تقع الأوليان سنة لوجود تمام علتها۔۔۔يتأدى كل من السنة والمندوب إذا وقع في وقته“

 ترجمہ: کیونکہ ہم نے تحقیق کی ہے کہ سنت کا یہی معنی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مخصوص محل (وقت وجگہ ) میں ادا کیا ہو۔۔۔ تو جس نے حضور علیہ السلام کی طرح اس فعل کی مثل اس کے وقت میں ادا کیا تو اس نے وہ فعل ادا کرلیا جسے سنت کہتے ہیں، تو اس وقت دونوں رکعتیں سنت ادا ہوں گی، کیونکہ علت مکمل طور پر موجود ہے۔۔۔سنت و مستحب نماز میں سے ہر ایک اپنے وقت پر ادا کیے جانے سے ادا ہوجاتی ہے۔ (فتح القدير للكمال ابن الهمام، ج1، ص444، دار الفکر، بیروت)

چونکہ واجب الاعادہ نماز کا فرض پہلی نماز کے ساتھ ہی ادا ہوچکا ہوتا ہے، اور اعادہ میں پڑھی جانے والی نماز فرض کے درجے میں نہیں رہتی، اس لیے سنتیں اس دوبارہ پڑھی گئی نماز کے تابع نہیں ہوں گی، بلکہ وہ پہلے پڑھی گئی فرض نماز کے تابع شمار ہوں گی۔ اور جب اُن فرضوں کے بعد سنتیں ادا کی جاچکی ہیں تو وہ اپنے محل پر اداہوگئیں، تو ان کے اعادے کی کوئی شرعی وجہ باقی نہیں رہی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: HAB-0632

تاریخ اجراء: 08ربیع الأول  1447ھ/02ستمبر 2025ء