قل ھو اللّٰہ احد میں واؤ درست نہ پڑھنا

قل ھو اللّٰہ احد میں ھو کی واؤ کو نہ پڑھا تو نماز کا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ اگر کسی نے نماز میں غلطی سے قل ھو اللّٰہ احد کو اس طرح پڑھا کہ ھو کے واؤکو ساکن کردیا یا واؤ کو حذف کردیا اور صرف ہُ پڑھا اور لفظ اللّٰہ کو واؤ سے نہ ملایا بلکہ الگ سے اس کے الف پر زبر لگاکر پڑھا تو نماز کا کیا حکم ہوگا؟ نماز فاسد ہوگی یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں نماز فاسد نہیں ہوگی، کیونکہ نماز کی قراءت میں کسی حرف کو غلطی سے حذف کردینے یا متحرک کو ساکن کردینے کی صورت میں نماز اس وقت فاسد ہوتی ہے جبکہ اس کا معنیٰ فاسد ہوجائے، ورنہ نہیں اور یہاں آیت مبارکہ (قل ھو اللّٰہ احد) میں ھو کے واؤ کو حذف کردینے یا ساکن کردینے کی وجہ سے معنی ٰ فاسد نہیں ہورہا، بلکہ اگر کسی نے غلطی سے ھو کو حذف ہی کردیا اور (قل اللّٰہ احد) پڑھا جب بھی نماز فاسد نہیں ہوگی، کیونکہ ھو ضمیر شان ہے جس کو حذف کردینے کی وجہ سے جملہ کا معنیٰ فاسد نہیں ہوتا۔

نماز میں قراءت کی غلطی کی وجہ سے نماز کے فساد و عدم فساد کے متعلق، رد المحتار میں ہے:

نقول: إن الخطأ إما في الاعراب أي الحركات والسكون ويدخل فيه تخفيف المشدد وقصر الممدود وعكسهما أو في الحروف بوضع حرف مكان آخر… و القاعدۃ عند المتقدمین أن ما غیّر المعنی تغییراً یکون اعتقادہ کفراً یفسد فی جمیع ذلک، سواء کان فی القرآن أو لا إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تامّ وان لم یکن التغییر کذلک، فان لم یکن مثلہ فی القرآن والمعنی بعید متغیر تغیراً فاحشاً یفسد أیضاً کھذا الغبار مکان الغراب، و کذا إذا لم یکن مثلہ فی القرآن ولا معنی لہ کالسرائل باللام مکان السرائر، و ان کان مثلہ فی القرآن والمعنی بعید ولم یکن متغیراً فاحشاً تفسد أیضاً عند ابی حنیفۃ و محمد، و ھو الاحوط، و قال بعض المشائخ: لا تفسد لعموم البلوی، و ھو قول أبی یوسف، و ان لم یکن مثلہ فی القرآن ولکن لم یتغیر بہ المعنی نحو قیّامین مکان قوّامین فالخلاف علی العکس فالمعتبر فی عدم الفساد عند عدم تغیر المعنی کثیراً وجود المثل فی القرآن عندہ و الموافقۃ فی المعنی عندھما، فھذہ قواعد الأئمۃ المتقدمین

ترجمہ: ہم کہتے ہیں غلطی یا تو اعراب میں ہوگی یعنی حرکت و سکون کے معاملے میں اور اس میں مشدد کو مخفف کردینا اور ممدود کو مقصور کردینا اور اس کا برعکس سب داخل ہے یا غلطی حروف کے معاملے میں ہوگی کہ ایک حرف کو دوسرے حرف کی جگہ رکھ دینا تو متقدمین کے نزدیک قاعدہ یہ ہے کہ جو معنی کو اتناتبدیل کردے کہ جس کا اعتقاد کفر ہو تو تمام صورتوں میں نماز فاسد ہوجائے گی،چاہےوہ بدل قرآن میں ہو یا نہ ہو، الاّ یہ کہ وقف تام کے ذریعے جملوں میں فصل کر کے جو تبدیلی ہواور اگر تبدیلی ایسی نہ ہو، تو اگر اس بدل لفظ کا مثل قرآن میں نہ ہو اور معنی بعید ہو اور تبدیلی فاحش جیسے غراب کی جگہ غبار تو بھی نماز فاسد ہو جائے گی، اسی طرح (نماز فاسدہوگی) اگر قرآن میں اس کا مثل نہ ہو اور نہ ہی اس کا کوئی معنی ہو جیسے سرائر کی جگہ سرائل، اور اگر اس کی مثل قرآن میں ہو اور معنی بعید ہو اور تغیر فاحش نہ ہو تو بھی طرفین کے نزدیک فاسد ہوجائے گی، اور یہ احوط ہے، اور بعض مشائخ نے فرمایا: عمومِ بلوی کی وجہ سے فاسد نہیں ہوگی، اور یہ امام یوسف کا قول ہے، اور اگر اس کی مثل قرآن میں نہ ہو لیکن معنی تبدیل نہ ہو جیسے قوامین کی جگہ قیامین تو اختلاف برعکس ہوگا۔تو معنی میں تغیر فاحش نہ ہونے کی صورت میں نماز فاسد نہ ہونے کے لیے امام یوسف کے نزدیک اس کی مثل قرآن میں ہونا معتبر ہے جبکہ طرفین کے نزدیک معنی میں موافقت معتبر ہے، تو یہ ہیں ائمہ متقدمین کے قواعد۔ (ردالمحتار، ج 1، صفحہ 630، 631، دار الفکر، بیروت)

بہار شریعت میں ہے: ”اس باب میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ اگر ایسی غلطی ہوئی جس سے معنی بگڑ گئے، نماز فاسد ہوگئی، ورنہ نہیں۔(بہار شریعت، ج 01، ص 554، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

اعراب کی غلطی کی وجہ سے نماز کے فساد و عدم فساد کے متعلق، محقق عمر بن نجیم مصری حنفی علیہ الرحمۃ نہر میں امام ابن الہمام علیہ الرحمۃ کی زاد الفقیر کے حوالے سے لکھتے ہیں:

إن كان الخطأ في الاعراب ولم يتغير به المعنى ككسر قوامًا مكان فتحها وفتح باء نعبد مكان ضمها لا تفسد و إن غير كنصب همزة العلماء وضم هاء الجلالة من قوله تعالى:{اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا} تفسد على قول المتقدمين

ترجمہ:اگر نماز میں کی جانے والی غلطی اعراب میں ہو اور اس کی وجہ سے معنیٰ متغیر نہ ہو جیسے قوام کے فتحہ کی جگہ کسرہ پڑھنا اور نعبد میں با کے ضمہ کی جگہ فتحہ پڑھنا تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی اور اگر اس کی وجہ سے معنیٰ بدل جائے جیسے اللہ پاک کے فرمان

اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا

میں اللہ اسم جلالت کے "ہا" پر ضمہ اور العلماء کے ہمزہ پر فتحہ پڑھنا تو اس سے متقدمین کے قول کے مطابق نماز فاسد ہوجائے گی۔ (النھر الفائق شرح کنز الدقائق، ج 01، ص 274، دار الكتب العلمية)

کلمہ سے حرف کو حذف کردینے کی وجہ سے نماز کے فساد و عد م فساد کے متعلق، بہار شریعت میں ہے: ”کوئی حرف کم کردیا اور معنی فاسد نہ ہوں جیسے خلقنا بلا (خ) کے اور جعلنا بلا (ج) کے تو نماز فاسد ہوجائے گی اور اگر معنیٰ فاسد نہ ہوں تو فاسد نہ ہوگی۔(بہار شریعت، ج 01، ص 556، مکتبۃ المدینہ)

صورت مسئولہ سے ایک ملتی جلتی صورت کے متعلق، محیط برہانی میں ہے:

اما إظهار ما هو محذوف نحو أن يقرأ{هُمُ الَّذِينَ كَفَرُواْ}فيحذف من الميم من"هم "ويظهر الألف من الذين، و كانت الألف محذوفة في الوصل غير مدغمة، و هذا لا يفسد الصلاة؛ إذ ليس فيه تغيير المعنى، و لا تغيير النظم

ترجمہ: بہرحال جو حرف محذوف ہو اس کو ظاہر کرنا جیسے آیت مبارکہ {هُمُ الَّذِينَ كَفَرُوْا} میں ھم ضمیر کے میم کو حذف کردیا جائے اور الذین کے الف کو ظاہر کردیا جائے حالانکہ یہ الف وصل میں محذوف تھا اور مدغم نہ تھا اور اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی کیونکہ اس میں نہ معنیٰ متغیر ہورہا ہے اور نہ ہی نظم قرآنی بدل رہی ہے۔(المحیط البرھانی، ج 01، ص 333،دار الکتب العلمیۃ)

(قل ھو اللّٰہ احد)میں ھو ضمیر شان ہے، چنانچہ تفسیر کشاف و بیضاوی میں ہے،

بالفاظ متقاربۃ:”قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ ۔۔هُوَ ضمير الشأن، و اللّٰهُ أَحَدٌ هو الشأن

ترجمہ: قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ۔۔میں ھو ضمیر شان ہے اور واللّٰهُ أَحَدٌ ہی اصل شان یعنی ضمیر کا بیان ہے۔ (الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل، ج 04، ص 817، دار الكتاب العربي) (تفسیر البیضاوی، ج 05،ص 347، دار الكتاب العربي)

اور ضمیر شان بطور تمہید ہوتی ہے ،اس کی تفسیر ما بعد جملہ کررہا ہوتا ہے اس لئے اس کو حذف کرنے سے جملہ پر اثر نہیں پڑتا، چنانچہ علم نحو کی مشہور زمانہ کتاب ”کافیہ“ میں ہے:

و یتقدم قبل الجملۃ ضمیر غائب یسمی ضمیر الشان و القصۃ یفسر بالجملۃ بعدہ و یکون منفصلا و متصلا مستترا و بارزا

ترجمہ: اور کبھی جملہ سے ایک ضمیر غائب مقدم ہوتی ہے جس کو ضمیر شان و قصہ کہاجاتا ہے، اس کی تفسیر اس کے مابعد جملے کے ذریعے کردی جاتی ہے اور یہ ضمیر منفصل و متصل اور مستتر و بارز ہر طرح ہوتی ہے۔(الکافیۃ مع الناجیۃ، ص 136، 137، مکتبۃ المدینہ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: HAB-0427

تاریخ اجراء: 23 ربیع الاول 1446ھ/28ستمبر 2024ء